"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم کا جواز

معروف ماہرِ تعلیم نیل پوسٹ مین (Neil Postman)نے 1996 ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The End of Education میں لکھا تھا کہ بیانیے (Narrative)کے بغیر زندگی بے معنی ہے اور معنی کی عدم موجودگی میں زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور مقصد کے بغیر سکول توجہ کے بجائے نظر بندی(Detention) کے ٹھکانے ہیں۔ 
تعلیم کا کیا مقصد ہے؟ اس سوال کے جواب مختلف ادوار میں تعلیم کے مختلف مقاصد کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔یہی مقاصد تعلیم اور سکولوں کیلئے جواز(Reason) فراہم کرتے ہیں۔تعلیم کا متعین کردہ جوازبلا واسطہ یا بالواسطہ نصاب‘ سلیبس‘ نظامِ امتحان‘ سیکھنے کے عمل اور طریقۂ تدریس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تعلیم کے اسی جواز کو نیل پوسٹ مین بیا نیہ کہتا ہے۔تعلیم کے یہ بیانیے سماجی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی ‘ رجحانات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں آج کل ہم نیو لبرل ازم(Neoliberalism) کے بیانیے کے عہد میں زندہ ہیں۔ اس بیانیے کا مرکزی نکتہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ اس بیانیے میں اقدار اور اخلاقیات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ منافع کے حصول کے ذرائع کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تعلیم کی پراڈکٹ کو فروخت کرنے کے لیے عام طور پر کوالٹی کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن اس کیلئے کوالٹی کے مفہوم کو تعلیم کے ماپنے والے پہلوئوں مثلاً Efficiency اور Productivity تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کافی بیان بازی ہوئی ہے لیکن زیادہ تر کوششیں مادی‘ قابلِ پیمائش (Measureable) تبدیلی سے وابستہ ہیں کیونکہ ایسی تبدیلی کا مظاہرہ (Demonstration)کرناآسان ہے؛ تاہم اس قسم کی تبدیلی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تعلیم کے صرف مقداری (Quantitative) پہلو پر فوکس کیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو اعداد افراد پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ سکول کی انتظامیہ بھی مشینی اور خودکار نظامِ تعلیم اور سیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کیونکہ تعلیم کے اس نظام میں نگرانی (Monitoring)کرنا اور جائزہ (Evaluation)لیناآسان ہے‘ اور نظم و نسق کا یہ میکانکی تصوربالا دست انتظامیہ کے مفادات کے لیے موزوں ہے۔ تعلیم کے اس پیرا ڈائم (نقطٔہ نظر )میں اساتذہ کی انفرادی آزادی‘ تخلیقی سوچ‘ اور تنقیدی سوچ بچار کے لیے بہت کم گنجائش ہے۔
اس طرح کی تعلیم کا ہدف صرف معاشرے میں ایک طرح کی ذہنیت (Mono Culture) کے افراد پیدا کرناہے جو روبوٹ کی طرح سوچتے ہوں اور میکانکی انداز میں کام کریں‘ جن کی پوری توجہ Efficiency اور Productivity پر ہو اور جومعاشرے کے طاقتور گروہوں کے پیدا کردہ سماجی امتیازات پر کوئی سوال نہ اٹھائیں۔ پوسٹ مین نے 1996ء میں شائع ہونے والی کتاب The End of Education میں مجموعی طور پر سکولوں کی حالتِ زار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سکول جو Socialization کے عمل کا ایک اہم وسیلہ ہیں ‘اپنا بیانیہ یا جواز (Reason) بتانے سے قاصر ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں سکول معاشرے کے طاقتور گروہوں کے طاقتور بیانیے یا نظریے کی منظوری‘ تصدیق‘ توثیق‘ اور ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں دورِ حاضر میں نیولبرل ازم کا نظریہ جو زیادہ سے زیادہ منافع پر مبنی ہے ہمارے تعلیمی نظام میں ایک محرک قوت (Catalyst)کی حیثیت سے کام کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں موجودہ تعلیمی نظام نیو لبرل نظریے کا جواز پیش کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کی سہو لت کاری کا یہ باہمی رشتہ تعلیم کی نجکاری اور اشیا کے ذریعے فروغ پا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سماجی سچائیوں (Social Realities)کی تشکیل کے عمل میں سکولوںکا کردار طاقتور میڈیا کے ابھرنے سے نسبتاًمحدود ہو گیا ہے‘ جس نے صارفیت (Consumerism)کے نظریہ کو مقبول بنایا ہے‘ لیکن تخلیق کاتھوڑا سا موقع جو اَب بھی سکولوں میں مو جودہے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ اس کی بڑی وجہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی مہارتوں کی تشکیل پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہے۔ ان مہارتوں کی جانچ پڑتال Discreet pointٹیسٹنگ سسٹم کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ اس قسم کے ٹیسٹ کو دو وجوہات کی بنا پر ترجیح دی جاتی ہے جس میں ایک وجہ اس کی نام نہاد معروضیت (Objectivity) ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے معروضی نوعیت کے ٹیسٹ بہت ہی کم وقت میں کمپیوٹر کی مدد سے آسانی سے نشان زد کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے ٹیسٹ کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سکور کسی نئی صورتحال میں تنقیدی عکاسی کرنے اور علم کا اطلاق کرنے اور سیکھنے کی اہلیت اور قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے ہیں۔
کلاس روم میں پڑھنے اور سیکھنے کی بات چیت پر براہ راست اثر پڑتا ہے جو محض یادداشت (Memory) کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس طرح کے نظامِ امتحان میں جہاں قابلیت اور اہلیت کی پیمائش یادوں پر مبنی تشخیصی نظام کے ذریعے کی جاتی ہے‘ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ طلبا کو بہتر گریڈ حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے واحد مقصد کے ساتھ تعلیم دیں۔ یاد پر مبنی تشخیص‘ ٹرانسمیشن پر مبنی درس و تدریس اور طلبا کی بے معنی کارکردگی کا شیطانی حلقہ (Vicious Circle) موجودہ طاقت کے ڈھانچے کو آگے بڑھاتا ہے اور معاشرتی طور پر تعمیر شدہ دقیانوسی تصورات کو مستحکم اور مضبوط کرتا ہے۔
تعلیم کو سبب بنانے کے لیے سکول کو کس طرح بااختیار بنایا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب شیطانی دائرے(Vicious Circle) کو توڑنے اور ایک نئے حلقے کی تشکیل ہے جس میں امتحانی نظام ایسا ہوجو سوچنے کی اعلیٰ صلاحیتوں کو پروان چڑھائے‘ تنقیدی اسلوب کی پرورش کرے اور طلبا کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کے مواقع فراہم کرے۔ یہ بظاہر ایک سیدھا سادہ سا کام معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور دشوار عمل ہے جس میں فوری اور جھٹ پٹ کی اصلاحات بے فائدہ ہوتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں اس طرح کے بے معنی اقدامات اساتذہ کی تربیت میں کریش کورسز کے نام پر کئے گئے۔ ایسے کورسز کو سیاسی حکومتوں نے 'تربیت یافتہ‘ اساتذہ کی بڑی تعداد دکھا کر اپنا امیج بڑھانے کے لیے وسیع پیمانے پر عام کیا ہے۔ تربیتِ اساتذہ کے نام پر غیر ملکی فنڈنگ سے بہت سے مہنگے پراجیکٹس کیے گئے جن میں کنسلٹنٹس کو خطیر رقوم بھی دی گئیں لیکن ان کا کوئی مثبت اور دیرپا اثر ہمارے تعلیمی اداروں میں نظر نہیں آتا۔ تمام حکومتوں کے اس طرح کے بے معنی اقدامات میں نصاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی شامل ہے۔ ہر حکومت کے لیے یہ ایک آسان سرگرمی ہے جس کی بدولت وہ اپنے سیاسی مفادات کو تو پروان چڑھا سکتے ہیں لیکن ایسے اقدامات تعلیم میں کوئی مثبت اور معیاری تبدیلی نہیں لا سکتے۔ تعلیمی اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے کلیدی نکتہ تعلیم کا جامع نقطہ نظر ہے جہاں امتحانی نظام‘ نصاب‘ درس و تدریس‘ اور تدریسی مواد کو بیک وقت دوبارہ دیکھنا چاہئے۔ یہ جامع تبدیلی کا وہ تصور ہے جو اساتذہ کی انفرادی آزادی اور تخلیقی صلاحیتوں کے تخلیقی space پیدا کرسکتا ہے ۔ تعلیمی ادارے معاشرے کے لیے سوچنے والے شہریوں (Thinking Citizens)اسی صورت پیدا کر سکتے ہیں جب وہ تعلیم کے بنیادی مقصد (Reason)سے آگاہ ہوں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں