"SSC" (space) message & send to 7575

ہڑپہ‘ مجید امجد اور شالاط

ہڑپہ کے کھنڈرات میں ایک درخت کے نیچے پتھر کے ایک بینچ پر بیٹھے میں نے اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ اس شہرِ برباد کی فضا کا اپنا حسن تھا۔ اپریل کی نرم دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور میں دور دور تک پھیلے ان کھنڈروں کو دیکھ کر زمانوں کے الٹ پھیر پر غور کر رہا تھا۔ وقت کا دریا بھی کیسا دریا ہے راستہ بدلتا ہے لیکن رکتا نہیں۔ پھر اچانک مجھے شالاط کا خیال آیا۔ میں سوچنے لگا‘ ایسا ہی ایک روشن دن ہو گا جب جرمنی کی سیاح لڑکی شالاط ہڑپہ کی تہذیب کے آثار دیکھنے یہاں آئی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کو شکست ہو چکی تھی۔ وہ اُسی مفتوح قوم کی بیٹی تھی جس کی بے قراری اُسے ملکوں ملکوں لیے پھر رہی تھی۔ اس نے بھی حیران آنکھوں سے ہڑپہ کے ان آثار کو دیکھا ہوگا۔ ہڑپہ کے ان پُرکشش آثار سے 29 میل دور ساہیوال ہے۔ وہی ساہیوال جہاں مجید امجد رہتا تھا‘ اداس اور تنہا مجید امجد جس کی کائنات اپنے گھر‘ دفتر اور سٹیڈیم ہوٹل تک محدود تھی۔ کاتبِ تقدیر نے دونوں کی قسمت میں ایک دوسرے کے ساتھ عارضی ملاقات لکھی تھی۔
مجید امجد سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں راولپنڈی کے ایک کالج میں بی اے میں پڑھتا تھا۔ وہ ستر کی دہائی تھی اور شہر کے تعلیمی اداروں میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ شام کو ہم دوست لال کرتی اور صدر کی بینک روڈ کا چکر لگانا نہ بھولتے۔ کسی چائے خانے میں بیٹھتے اور ادیبوں اور ادب پر گفتگو ہوتی۔ انہیں دنوں دوستوں کی ایک محفل میں مجید امجد کی کتاب ''شبِ رفتہ‘‘ کا ذکر آیا۔ مجید امجد کی شاعری ہمارے لئے نئی نہیں تھی۔ ان کا کلام معروف ادبی رسالوں ''ادبی دنیا‘‘ اور ''اوراق‘‘ میں شائع ہوتا رہتا تھا۔ مجید امجد کی شاعری میں کوئی ایسی چیز تھی جو اسے دوسروں سے منفرد بناتی تھی۔ اس کے موضوعات‘ اس کی زبان‘ اس کی نظم کی ہیئت اور اس کی ٹریٹمنٹ دوسروں سے یکسر مختلف تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے راولپنڈی کے ایک قدیم بک سنٹر سے یہ کتاب خریدی تھی۔ وہی بک سنٹر جس کے ہمسائے میں پاکستان نیشنل سنٹر ہوا کرتا تھا۔ اس سڑک پر گئے ایک مدت ہو گئی ہے‘ معلوم نہیں وہ دکان اب وہاں ہے یا نہیں۔
''شب رفتہ‘‘ کیا تھی ایک جہانِ حیرت تھا جس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ اس جہانِ حیرت کا سحر آج تک میرے ساتھ چل رہا ہے۔ مجید امجد کی شاعری میں ان کے وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے کی جھلک آتی۔ زبان پر گرفت ایسی کہ منظر آپ کی آنکھوں میں نقش ہو جائے۔ ان کی ایک نظم ''آٹوگراف‘‘ ہے جس میں بصری (visual) اور صوتی (sonorous) امیجز ایک زندہ منظر تخلیق کرتے ہیں۔ اس منظر میں نوجوان لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں آٹو گراف بُکس لیے کرکٹ کے کھلاڑیوں سے آٹوگراف لینے کی منتظر کھڑی ہیں۔ اس نظم کی تین لائنیں ملاحظہ کیجئے جو شاعر کی زبان پر دسترس ظاہر کرتی ہیں:
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں‘ چٹختی پسلیوں کے پُر ہراس قافلے
گرے پڑے بھنور ہجوم کے
مجید امجد کی زندگی دکھوں اور محرومیوں کی کہانی تھی۔ وہ ساہیوال میں فرید ٹائون کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ زندگی کی کڑواہٹ ان کے ارد گرد تھی لیکن وہ لمحۂ موجود کو جینا بھی جانتے تھے۔ اس جینے کا جتن ان کی شاعری تھی جو ان کے لئے catharsis کا ایک ذریعہ تھی۔ ''شب رفتہ‘‘ کی ایک نظم کی کچھ سطریں ملاحظہ کریں:
دوست یہ سب سچ ہے لیکن زندگی
کاٹنی تو ہے‘ بسر کرنی تو ہے
گھات میں ہے منتظر چلّے پہ تیر
ہرنیوں نے چوکڑی بھرنی تو ہے
مجید امجد بظاہر ایک عام سے منظر اور واقعہ کو بیان کرتے اور اس میں سوچ اور فکر کے دیے روشن کر دیتے۔ اس پر ان کی فنی چابکدستی مستزاد۔ ''کنواں‘‘ بھی ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں مجید امجد کی فن پر دسترس عروج پر ہے۔ نظم کا آغاز ان سطروں سے ہوتا ہے:
کنواں چل رہا ہے‘ مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں‘ نہ فصلیں‘ نہ خرمن‘ نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں‘ نہ پھولوں کے مکھڑے‘ نہ کلیوں کے ماتھے‘ نہ رُت کی جوانی
گزرتا ہے کھیتوں کے پیاسے کیاروں کو یوں چیرتا تیز‘ خوں رنگ پانی
کہ جس طرح زخموں کی دکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
پھر ایک روز مجید امجد کی اداس‘ تنہا اور ٹھہرے پانیوں جیسی زندگی میں جیسے کسی نے کنکر پھینک دیا ہو‘ اور لہریں دائرہ در دائرہ پھیلنے لگیں۔ اس کی ذمہ دار شالاط تھی جو جرمنی سے پاکستان آئی تھی۔ ساہیوال کے قریب ہڑپہ کی پرانی تہذیب کے آثار دیکھنے کی خواہش اسے یہاں کھینچ لائی تھی۔
مجید امجد سے شالاط کی ملاقات کا عرصہ اگرچہ مختصر تھا لیکن اس کی زندگی اور اس کی شاعری پر اس کے اثرات دیر تک رہے۔ کم گو اور کم آمیز مجید امجد کی زندگی میں یہ عرصہ ایک سہانا خواب تھا۔ شالاط اور مجید امجد کی داستانِ محبت کا احوال وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے لکھا ہے۔ شالاط کو خدا حافظ کہنے کے لئے وہ اس کے ہمراہ ٹرین میں ایران کی سرحد تک گئے۔ شالاط کو رخصت کرنے کے بعد کوئٹہ سے ساہیوال تک کا سفر مجید امجد کیلئے یقینا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اس کی محسوسات کی ایک جھلک اس کی نظم کوئٹہ میں دیکھی جا سکتی ہے:
برس گیا بہ خراباتِ آرزو ترا غم
قدح قدح تیری یادیں سبُو سبُو ترا غم
ترے خیال کے پہلو نے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سُو بہ سُو ترا غم
کہتے ہیں شالاط کے جانے کے کچھ عرصہ بعد تک اس کے اور مجید امجد کے مابین خط و کتابت کا تبادلہ ہوتا رہا۔ یوں تو مجید امجد کی کئی نظموں میں شالاط کا عکس نظر آتا ہے لیکن ان کی نظم ''میونخ‘‘ میں شالاط کا براہِ راست تذکرہ ہے‘ جس میں مجید امجد چشمِ تصور میں جرمنی کے شہر میونخ میں کرسمس کے دن برف باری کا منظر دیکھ رہے ہیں‘ جب شالاط کئی برسوں اور کئی مُلکوں کی سیاحت کے بعد واپس اپنے گھر لوٹتی ہے‘ جہاں اس کی بوڑھی ماں اس کا انتظار کر رہی ہے۔ میونخ کے شہر سے کوسوں دور ساہیوال کے فرید ٹاؤن میں مجید امجد اپنے کوارٹر میں بند خود کو میونخ کی کھلی فضاؤں میں محسوس کر رہا ہے۔ یہ کرسمس کا دن ہے اور میونخ کی گلی کوچوں میں برف گِر رہی ہے۔ یہ شاعر کے تصور کا اعجاز ہے جس نے فاصلوں کو سمیٹ لیا ہے۔ اس نظم کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہرِ میونخ ہے
چار سُو‘ جس طرف کوئی دیکھے
برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں‘‘
اچانک درخت پر بیٹھے ایک پرندے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے سر اُٹھا کر دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی لیکن درخت کے پتوں میں پرندہ کہیں نظر نہیں آیا۔ میں نے دیکھا کہ ہڑپہ میں ایک درخت کے نیچے پتھر کے بنے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھا ہوں۔ میں سوچتا ہوں شاید وہ بھی ایک ایسا ہی ایک روشن دن ہو گا جب شالاط نے مجید امجد کی زندگی کی ٹھہری ہوئی جھیل میں کنکر پھینکا تھا‘ اور پھر لہریں دائرہ در دائرہ پھیلنے لگی تھیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں