کہتے ہیں وقت کا بہائو کبھی رکتا نہیں ہے لیکن لاہور کے ''فقیر خانہ‘‘ میں وقت جیسے تھم گیا ہے۔ لگتا ہے پنجاب کے تین صدیوں کے شب و روز یہاں سستا رہے ہیں۔ اسلام آباد شفٹ ہونے سے پہلے لاہور میں میرا قیام بارہ سال رہا لیکن ''فقیر خانہ‘‘ کے طلسم کدہ تک میری رسائی نہ ہو سکی۔ اس بار میں لاہور گیا تو دل میں چھپی دیرینہ خواہش نے انگڑائی لی۔ پتہ چلا کہ فقیر خانہ میوزیم میں جانے کے لیے پہلے سے فون پر وقت لینا پڑتا ہے۔ کوشش کر کے میں نے فقیر سیف الدین کا نمبر حاصل کیا اور فون پر ان سے اجازت طلب کی۔ سیف صاحب‘ جو فقیر خاندان کی چھٹی نسل سے ہیں‘ نے کمال مہربانی سے نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اگلے روز برنچ (Brunch) میں شرکت کی دعوت بھی دی۔
یہ اتوار کا دن تھا جب میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے نجی عجائب گھر ''فقیر خانہ‘‘ کو جاتی پرانے لاہور کی تنگ اور مصروف گلیوں‘ سڑکوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا‘ جہاں فقیر سیف الدین نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ یہ کئی منزلہ حویلی ہے جس کے دروازے‘ کھڑکیاں اور جھروکے اور محرابیں خوب صورت طرزِ تعمیر کا نمونہ ہیں۔ یہ دراصل مغل بادشاہ اکبر کے وزیرِ مال راجہ ٹوڈرمل کی حویلی تھی۔ مغل بادشاہ اکبر کا دور حکومت 1556ء سے 1605ء تک ہے۔ ٹوڈرمل اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک تھا جس نے زمین کے ریکارڈ کے لیے نئی اصطلاحات ایجاد کیں۔ مجھے ایسے لگا جیسے وقت کا الٹ پھیر اس حویلی پر اثر انداز نہیں ہوا۔ وہی جلال اور جمال کا بانکپن ابھی تک باقی ہے جس کیلئے یہ حویلی اپنے اولین دنوں میں جانی جاتی تھی جب مغل حکومت کا دور عروج پر تھا۔
پھر مغل سلطنت کا سنگھاسن ڈولنے لگا اور افغان حکمرانوں نے پنجاب کا رُخ کیا۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب لاہور شہر پر بھنگی مثل سے تعلق رکھنے والے سکھ حکمرانوں کی حکومت تھی۔ یہ پنجاب اور لاہور کے مکینوں کے لیے ایک مشکل دور تھا۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی تھیں۔ ادھر گوجرانوالہ کی سکھ مثل کے حکمران کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کے 10 سالہ بیٹے رنجیت سنگھ کو باپ کی گدی پر بیٹھا دیا گیا۔ رنجیت سنگھ بچپن میں چیچک کی بیماری کا شکار ہوا تھا جس میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ اس نے سکھوں کی بارہ مثلوں کو جمع کیا اور ان کی راہنمائی کی ذمہ داری اُٹھائی۔ اب اس کی عمر 19 سال تھی اور اس کی شجاعت کی شہرت دورونزدیک پھیل چکی تھی۔کہتے ہیں اسے لاہور آنے کی دعوت دی گئی تاکہ وہ لوگوں کو بھنگی مثل کے سکھوں کی حکمرانی سے نجات دلائے۔ یہ 1799ء کا سال تھا جب رنجیت سنگھ لاہور کا حکمران بنا اور پھر پنجاب میں ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جس میں کشمیر اور پشاور بھی شامل تھے۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں فقیر عزیزالدین کو بطور وزیر شامل کر لیا گیا۔ فقیر عزیزالدین کے خاندان کو فقیر کا ٹائٹل فقیر امانت شاہ قادری نے دیا تھا۔ یہ سیّد خاندان تھا جس کی ساتویں نسل میں بھی لڑکوں کے نام کے ساتھ فقیر کا لقب لگایا جاتا ہے۔ فقیر عزیزالدین رنجیت سنگھ کے قابلِ اعتماد وزیر تھے جو امورِ خارجہ کے بھی مُشیر تھے اور جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پنجاب حکومت کے درمیان اہم کردار ادا کیا تھا۔ فقیر عزیزالدین کے آباؤاجداد 1730ء میں چونیاں سے لاہور آئے تھے۔ یہ خاندان سماجی حوالے سے ایک نامور خاندان تھا‘ جس نے علاقے میں مدرسہ‘ شفاخانہ‘دواخانہ اور اشاعت گھر قائم کیا تھا۔ کتابوں کی کتابت کروانا‘ انھیں شائع کرنا‘ ان کی جلد بندی کرنا اور ان کی مختلف شہروں میں تقسیم کرنا انھوں نے اپنی ذمہ داری میں شامل کر رکھا تھا۔ اب ہم ''فقیر خانہ‘‘ کے منی ایچر ہال میں بیٹھے ہم فقیر فیملی کی چھٹی نسل کے نمائندہ فقیر سیف الدین کی گفتگو سُن رہے تھے۔ یہاں کیا کیا نوادرات ہیں جو وقت کی قید سے آزاد اپنے اچھوتے پن سے آج بھی عقل کو دنگ کر دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک پینٹنگ اپنے زمانے کے ماہر فن کار غلام علی کے موئے قلم کا نتیجہ ہے۔ غلام علی کسی زمانے میں بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ تھے۔ بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی کے بعد وہ مختلف علاقوں کی خاک چھانتے ہوئے پنجاب کی ایک ریاست دوجانہ پہنچے جہاں کے حکمران نواب ممتاز علی خان کی مردم شناس نظروں نے ان کا انتخاب کر لیا۔ ان کی اسائنمنٹ نواب ممتاز علی خان کی منی ایچر پینٹنگ بنانا تھی۔ غلام علی فن میں خونِ جگر شامل کرنے کے قائل تھے۔ کہتے ہیں‘ اس پینٹنگ پرغلام علی نے پندرہ برس صرف کیے اور یہ پینٹنگ انہوں نے ایسے برش سے تیار کی جس میں صرف ایک بال تھا۔ اس پینٹنگ کی تفصیل محدب عدسے سے دیکھیں تو غلام علی کے فن پر حیرت ہوتی ہے۔ پینٹنگ میں نواب ممتاز علی کی ٹوپی کے ڈیزائن‘ ان کے ہونٹوں پر پان کی سرخی‘ ان کی داڑھی میں تیل کی چمک اور پانچ سفید بال‘ ان کے لباس کی شکنیں اور ان کی جرابوں کا ٹیکسچر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی گھڑی پر 6 بج کر سات منٹ ہوئے ہیں۔ وقت جیسے رک گیا ہو۔ اس ہال میں ایک سے بڑھ کر ایک پینٹنگز ہیں۔ پھر وہ منی ایچر پینٹنگ جس میں دربار کا منظر ہے جس میں ستاون کردار دیکھے جا سکتے ہیں اس پینٹنگ کی خاص بات اس کا Three Dimentional Effect ہے۔ ان فریم شدہ پینٹنگز میں ایک فریم میں خالی سفید کاغذ تھا۔ پوچھنے پر سیف صاحب مُسکرا کر کہنے لگے ''کبھی کبھی تصویر نہ دیکھنے کا بھی دل چاہتا ہے تو یہ دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ پھر وہ سنجیدہ ہو کر کہنے لگے: ادھر آئیے اس کو روشنی کی طرف کرکے دیکھتے ہیں۔ اب جو میں نے اس سادہ کاغذ کو دیکھا تو اس میں تصویریں اُبھر آئی تھیں۔ اس تصویر کو ذہین آرٹسٹ نے Pin Prick سے تیار کیا تھا۔ پھر ہم سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر چلے گئے تو حیرتوں کے در کُھلتے چلے گئے۔ اب ہم ایک ایسے حصّے میں کھڑے تھے جہاں مذہبی نوادرات تھے۔ کوفی رسم الخط میں قرآن کے دو صفحات ہرن کے چمڑے پر لکھے تھے۔
ایک دوسرے سیکشن میں پیپر کٹ ورک کے نادر نمونے تھے۔ آگے بڑھیں تو خوبصورت برتنوں کا شیلف ہے۔ ان میں سے ایک چائے کا کپ اُٹھایا تو وہ ہوا کی طرح لطیف تھا۔ سیف صاحب نے بتایا کہ یہ Egg Shellکے بنے برتن ہیں۔ وہیں دو پلیٹیں رکھی تھیں‘ جنھیں Poison Plates کا نام دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں اگر ان پلیٹوں میں زہر آلود کھانا ڈالا جائے تو ان میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ ان دنوں درباروں کی سازش بھری فضاؤں میں زہر خورانی عام تھی۔
اب ہم ایک قالین کو دیکھ رہے ہیں جو شاہ جہاں کے دور کا تھا۔ یاد رہے شاہجہان نے قالین بنانے کی ایک فیکٹری لگائی تھی جس میں ایرانی کاریگروں کو بُلایا گیا تھا۔ یہ جرنیلی قالین ہے۔ اسے غور سے دیکھیں تو اس میں ایک انسانی چہرہ ابھرتا ہے‘ اور پھر ایک رانی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ دائیں طرف گائے کی شکل نظر آتی ہے جسے ''گاؤ مُکھ‘‘ کہتے ہیں۔
اب ہم واپس منی ایچر ہال میں آگئے ہیں۔ یہاں کچھ مہمان اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک معروف دانشور حنیف رامے صاحب کے فرزند ابراہیم رامے ہیں جو خود بھی اپنے والد کی طرح آرٹسٹ ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ مہمانوں میں فاطمہ نور بھی ہیں جو اُردو ادب کے سر بُلند ادیب عبداللہ حسین کی بیٹی ہیں۔ وہی عبداللہ حسین جن کے ناول ''اُداس نسلیں‘‘ نے ایک عالم کو چونکا دیا تھا۔ ان سے میری آخری طویل ملاقات کراچی کے ادبی فیسٹیول میں ہوئی تھی۔ ہم سب فقیر خانہ کے مہمان تھے۔ وہی ''فقیر خانہ‘‘ جو تاریخ کا طلسم کدہ ہے۔ جہاں وقت جیسے تھم گیا ہے۔ یوں لگتا ہے پنجاب کی تین صدیوں کے شب و روز یہاں سستا رہے ہیں۔