میاں محمد بخش سے میری آشنائی اس وقت ہوئی جب میں پوٹھوہار کے ایک گائوں کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر ننگے پائوں بھاگتا پھرتا تھا۔ وہ میرے بچپن کا زمانہ تھا جب دن طویل، بہت طویل ہوا کرتے تھے یا شاید مجھے ایسا لگتا تھا۔ گائوں کے کھیت، گائوں کے کنویں، گائوں کی بھٹیاں، گائوں کا میلہ، گائوں کی آٹا پیسنے کی چکی، گاؤں کی گدلے پانی کی بن، گائوں کی کچے تیل کی گھانی اور گائوں سے شہر جانے والی ایک پرانی بس۔ یہ تھی ہماری کل کائنات۔ لیکن اس کائنات کا ایک اور اہم جزو گائوں کی وہ چوپالیں ہوتی تھیں جن میں پوٹھوہاری بیت، ماہیے اور ٹپے گائے جاتے تھے۔ اِنہیں چوپالوں میں میاں محمد بخش کی ''سیف الملوک‘‘ کو اس کی مخصوص طرز میں پڑھا جاتا تھا۔ گائوں کے چوپالوں میں اکثر سیف الملوک کی گونج سنائی دیتی:
سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے، حسن، جوانی، سدا نہ صحبت یاراں
ان دنوں ابھی ٹی وی کا دور شروع نہیں ہوا تھا اور ریڈیو بھی خال خال لوگوں کے پاس تھا۔ ریڈیو پر پوٹھوہاری پروگرام میں ایک گلوکار وادی حسین اپنی خوبصورت آواز میں سیف الملوک سنایا کرتا تھا۔ ہمارے گائوں کے گھر میں والد صاحب کی کتابوں کے ذخیرے میں میاں محمد بخش صاحب کی ''سیف الملوک‘‘ بھی تھی۔ والد صاحب کو شاعری سے شغف تھا اور وہ پنجابی، اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے وہ ''سیف الملوک‘‘ کے رسیا تھے۔ یوں میرے ارد گرد کے ماحول میں ''سیف الملوک‘‘کی خوشبو چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ اس خوشبو کا ساتھ عارضی نہیں عمر بھر کا ہو گا۔ آج اسی خوشبو کی انگلی پکڑ کر میں اس دلرُبا وادی میں جا رہا ہوں‘ جہاں اس گلِ سرسبد نے آنکھ کھولی تھی جسے دنیا میاں محمد بخش کے نام سے جانتی ہے۔
اسلام آباد سے دینہ کا فاصلہ تقریباً 93 کلومیٹر ہے آج فروری کا خوشگوار دن ہے اور راستے سے گزرتے ہوئے سڑک کے دونوں طرف تازہ پھلوں کی دکانیں سجی ہیں۔ سڑک پر ٹریفک معمول سے کم ہے کیونکہ آج ہفتے کا دن ہے اور زیادہ تر سرکاری ادارے بند ہیں۔ دینہ سے بائیں ہاتھ منگلا کینٹ کی طرف جانے والی سڑک پر مڑیں تو سڑک زیر تعمیر ہے۔ اس سڑک پر آگے جا کر بائیں ہاتھ ہمارے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت نہر چل رہی ہے۔ پھر ایک مقام پر ایک بورڈ نظر آتا ہے۔ بائیں ہاتھ پر ایک سڑک میرپور کو جا رہی ہے۔ ہم سیدھی سڑک پر کھڑی شریف کی طرف جا رہے ہیں۔ میاں محمد صاحب نے سیف الملوک میں اپنی قیام گاہ کا محل وقوع یوں بیان کیا ہے؎
جہلم گھاٹوں پربت پاسے، میرپورے تھیں دکن
کھڑی ملک وچ لوڑن جہڑے طلب بندے دی رکھن
راستے میں کچھ تنگ لکڑی کے پل آتے ہیں جن پر ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ بہت قدیم برگد کے درخت بھی نظر آتے ہیں جنہیں سڑک بناتے ہوئے کاٹا نہیں گیا۔ ان درختوں کے تنے اور جڑیں دیکھ کر ان کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ اونچے نیچے ٹیلوں، پہاڑیوں اور سرسبز وادیوں کی سرزمین ہے جہاں، ٹاہلی، کیکر اور شہتوت کے ہرے بھرے درخت ہیں۔ پہاڑی چشموں کا پانی ہے اور ننھے منے خود رو خوش رنگ پھول کھلے ہیں۔ بہار کے موسم میں یوں لگتا ہے جیسے وادی میں چراغ جل اٹھے ہوں۔ اس خطے میں ایسی کتنی ہی وادیاں ہیں۔ انہیں میں سے ایک وادی ''کھڑی‘‘ کی ہے۔ کھڑی کی وادی پیرا شاہ غازی کا مسکن تھی‘ جو اپنے زمانے کے معروف صوفی بزرگ تھے۔ اسی نسبت سے اس وادی کو کھڑی شریف کہا جاتا ہے۔ میں گاڑی سے باہر سر بلند درختوں کی قطار کو دیکھتا ہوں اور پھر آسمان کی وسعت پر نگاہ ڈالتا ہوں اور سوچتا ہوں پیرا شاہ غازی نے فکر و ذکر کے لیے کتنی مناسب جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ پیرا شاہ غازی کی وفات کے بعد ان کے محبوب شاگرد میاں دین محمد سجادہ نشین ہوئے۔ ان کے بعد میاں شہباز، پھر جیون علی اور پھر میاں شمس الدین نے سجادہ نشینی کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیں میاں شمس الدین کے تین بیٹوں میں میاں بہاول بخش، میاں محمد بخش اور میاں علی بخش شامل تھے۔ میاں شمس الدین کی رحلت کے بعد ان کے بڑے بیٹے میاں بہاول بخش سجادہ نشین بنے اور پھر یہ منصب میاں محمد بخش کے حصے میں آیا‘ وہی محمد بخش جو تصوف اور شاعری میں آفتاب بن کر چمکے اور جن کی ''سیف الملوک‘‘ کی خوشبو آج انگلی پکڑ کر مجھے اسلام آباد کے جھمیلوں سے دور کھڑی شریف کی پُر بہار وادی میں لے جا رہی ہے۔
''سیف الملوک‘‘ پڑھنے کی خواہش میرے دل میں شروع سے ہی تھی‘ لیکن پنجابی رسم الخط میں پڑھنا میرے لیے آسان نہ تھا۔ یہ پنجاب کے شہروں میں رہنے والے بیشتر پنجابیوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے‘ نہ ہی ان سے پنجابی میں گفتگو کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ سکول میں پنجابی زبان سیکھنے کے مواقع میسر نہیں۔ مشکل تو ہوئی لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور کوشش کر کے سیف الملوک پڑھ ڈالی۔ کتاب کیا ہے ایک شہرِ طلسمات ہے جس کے سحر میں پڑھنے والا گرفتار ہو جاتا ہے۔ ایک شیش محل ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگوں کی جھلمل نظر آتی ہے۔ مصنف نے اس کا نام ''سفرالعشق‘‘ رکھا ہے۔ یہ تلاش کا ایک ایسا سفر ہے‘ جس میں خواہشوں اور امیدوں کی روشنیاں بھی ہیں اور مایوسیوں اور غموں کی آندھیاں بھی۔ یہ مصر کے شہزادے سیف الملوک کی کہانی ہے جس نے اپنے خزانے میں ایک دن ایک خوب صورت لڑکی کی تصویر دیکھی اور پھر خواب میں وہی چہرہ دیکھا۔ یہ بدیع الجمال تھی‘ جس کی ایک جھلک نے شہزادے سیف الملوک کو بے چین کر دیا تھا۔ وہ اس کو پانے کی آرزو میں شاہی محل چھوڑتا ہے اور پھر تلاش کا یہ سفر اسے کتنے ہی کٹھن راستوں پر لے جاتا ہے۔ راستے کی آزمائشوں اور مایوسیوں کے اندھیروں میں بدیع الجمال کا چہرہ ماہتاب کی طرح چمکتا ہے اور وہ اس کی چاندنی کے تعاقب میں چلتا چلا جاتا ہے۔ محبت قربانی مانگتی ہے۔ عشق کا دعویٰ اپنی ذات کو مٹانے کا تقاضا کرتا ہے۔ دراصل یہ سفرالعشق عشقِ حقیقی کے پانے کی طلب کا سفر ہے جس کے سامنے ساری دنیا کی آسائشیں فرومایہ ہیں۔
یوں یہ اوپر کی سطح پر سیف الملوک اور بدیع الجمال کی محبت کی کہانی ہے اور زیریں سطح پر تصوف کی ایک دل رُبا داستان ہے۔ اس کہانی میں ہم انسانوں کے لیے کیسے کیسے سبق ہیں۔ دانائی اور حکمت کے دریچے ہیں کہ وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔کلام میں درد ایسا کہ پڑھنے والے کا دل گداز کر دے۔ کلام میں یہ اثرآفرینی یونہی نہیں آتی۔ اس کے لیے شاعر کو خونِ دل میں انگلیاں ڈبونا پڑتی ہیں۔
اچانک میں حال کی دنیا میں آ جاتا ہوں‘ ہماری گاڑی ٹیڑھے میڑھے راستوں پر رواں دواں ہے۔ دو رویہ درختوں کی قطاریں تیزی سے گزرتی جا رہی ہیں اور پھر مجھے کھڑی شریف کے دربار کی سفید عمارت نظر آنے لگی۔ وہی دربار‘ جس کی ابتدا پیرا شاہ غازی سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا میاں محمد بخش کے دور میں ہوئی‘ اب میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ گاڑی سے اتر کر میں دربار کی طرف چلنے لگا۔ میرے ہمراہ وہی مانوس خوشبو تھی جس سے میں اپنے بچپن میں آشنا ہوا تھا‘ آج میں اس خوشبو کے مسکن کے قریب آ گیا تھا۔ آج کے دن کے لیے میں نے ایک عمر انتظار کیا تھا۔ (جاری)