"SSC" (space) message & send to 7575

دریائے سندھ اور اکبر کا قلعہ اٹک

بعض اوقات کچھ اشیا ہماری دسترس میں ہوتی ہیں لیکن ہم ان سے مل نہیں پاتے۔ شاید یہ احساس کہ یہ تو ہماری دسترس میں ہیں‘ جب چاہا مل لیں گے‘ ہماری ملاقات کو مؤخر رکھتا ہے ‘کچھ ایسا ہی معاملہ د ریائے سندھ پر واقع اٹک کے قدیم تاریخی قلعے کا تھا۔ اُن دنوں میں صوابی کے علاقے ٹوپی میں واقع ایک معروف تعلیمی ادارے‘ غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ میں پڑھاتا تھا‘ وہیں کیمپس پر ہمارا گھر تھا‘ قلعہ اٹک ہمارے ہمسائے میں تھا لیکن وہاں چار سالہ قیام کے دوران میری اٹک کے قلعے تک رسائی نہ ہو سکی۔ پھر میں لاہور چلا گیا جہاں مجھے LUMS میں ملازمت کی دعوت ملی تھی۔ برسوں بعد جب میں اسلام آباد آیا تو ایک دن اچانک مجھے اٹک کے قلعے کا خیال آیا ‘بالکل ایسے ہی جیسے کسی چیز کو ایک جگہ رکھ کر بھول جائیں اور پھر اچانک اس کا خیال لو دینے لگے۔
آج کل یہ قلعہ پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے پاس ہے۔ عزیزم ڈاکٹر ابوبکر نے میرا شوق دیکھ کر قلعے کے اندر جانے اور دیکھنے کا اہتمام کیا۔ وہ فروری کے اواخر کا ایک روشن تھا سردیوں کی مہربان صبح ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور ہم دریائے سندھ کی طرف رواں تھے ۔وہی دریائے سندھ جس کے کنارے پر ہنڈ کا قصبہ ہے۔ وہی ہنڈ جو ایک قدیم سلطنت کا دارالحکومت تھا‘ اسی مقام پر رک کر یونان کے سکندر اعظم نے دریائے سندھ کے اُس پار ٹیکسلا کے شہر کو دیکھا تھا۔ اسی دریائے سندھ کے کنارے تک چنگیز خان کا خون آشام لشکر جلال الدین خوارزم شاہ کا تعاقب کرتے ہوئے پہنچا تھا اور خوارزم شاہ نے دریائے سندھ کی تلاطم خیز موجوں میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ یہیں سے مغل سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ ظہیرالدین بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں اور پھر اکبر تخت پر بیٹھے تھے۔ اکبر مغل سلطنت کا تیسرا حکمران تھا لیکن کم عمری میں ہی اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ کم سن اکبر کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور بیرم خان کو اس کا نگران بنایا گیا۔ یہی اکبر تھا جس نے بعد میں مغلیہ سلطنت کو عسکری اور معاشی لحاظ سے عروج تک پہنچا دیا۔ اکبر کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دریائے سندھ حملہ آوروں کی گزرگاہ ہے اور اگر ان حملہ آوروں کا راستہ روکنا ہے تو دریائے سندھ کے کنارے ایک مضبوط قلعے کی تعمیر ضروری ہے۔ دریا کے کنارے کی زمین پر قلعے کی گہری بنیادیں اٹھانا آسان نہ تھا لیکن اکبر کے جفاکش سپاہیوں نے ان ہونی کو ہونی میں بدل کر دکھا دیا۔ قلعے کی تعمیر کی نگرانی کے لیے اکبر کے وزیر خواجہ شمس الدین خوافی کو مقرر کیا گیا۔ قلعے کی تعمیر کا آغاز 1581ء میں ہوا اور دوسال کے مختصر عرصے میں دریائے سندھ کے کنارے عظیم الشان قلعہ تعمیر کر لیا گیا۔ قلعہ کیا تھا ایک عجوبہ تھا جو فنِ تعمیر کا شاہکار تھا۔ اکبر مطمئن تھا کہ اس قلعے نے دریائے سندھ پر حملہ آوروں کی گزرگاہ پر نظر رکھنے کے لیے مؤثر مچان بنا دی تھی جس کی فصیلوں کے دید بانوں سے دور دور کے منظر صاف نظر آتے تھے۔
سلطنت مغلیہ کے عہد کا سورج جب نصف النہار پر تھا اس کی شان و شوکت میں اور چیزوں کے علاوہ قلعہ اٹک کا بھی کردار تھا کہ اس نے بیرونی حملہ آوروں کا راستہ روک رکھا تھا۔ 1605ء میں قلعے کے خالق اکبر بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔ ادھر درانیوں کی اس قلعے پر عرصے سے نظر تھی۔ پھر 1738ء کا سال آ گیا جب نادر شاہ درانی نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور اٹک کے قلعے پر قبضہ کر لیا اوراس کے ساتھ ہی شمالی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو گیا۔ اب درانیوں کے عروج کا زمانہ تھا اور اٹک کا قلعہ ان کی جنگی مہمات میں معاونت کرتا تھا۔ یوں یہ قلعہ اس خطے میں طاقت اور اقتدار کے استحکام کا استعارہ بن گیا۔ مرہٹوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا۔ ان کی نظریں بھی اٹک قلعے پر لگی تھیں۔ یہ 28 اپریل کا دن تھا اور 1758ء کا سال جب مرہٹہ فوج نے رگھوناتھ کی زیر قیادت اٹک قلعے پر حملہ کیا اور درانیوں کی فوج سے سخت لڑائی کے بعد اٹک کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ یہ مرہٹوں کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی‘ لیکن اٹک قلعے پر ان کا قبضہ صرف تین سال تک رہا۔ درانیوں کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی کہ اٹک کا قلعہ ان سے یوں چھن جائے۔ 1761ء میں درانیوں اور روہیلہ کی مشترکہ فوج نے قلعے پر حملہ کیا اور مرہٹہ فوج کو شکست دے کر قلعے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ درانیوں نے اگلے پچاس سال تک اس قلعے کو اپنے پاس رکھا۔ اس دوران قلعے نے ان کی اور انہوں نے قلعے کی خوب حفاظت کی۔ پھر 1813ء کا سال آپہنچا اس دوران رنجیت سنگھ کی قیادت میں پنجاب میں سکھوں کی ایک مضبوط سلطنت ابھری جس نے مختصر وقت میں سارے علاقے میں اپنی دھاک بٹھا دی اور ارد گرد کی چھوٹی ریاستوں کو زیرنگیں کرنے کے بعد 13 جولائی 1813ء کو انہوں نے اس وقت کی بڑی طاقت درانیوں کو للکارا۔ چھچھ کے میدان میں فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں سکھوں کی فوج نے درانیوں کو شکست دے کر اٹک کے قلعے پر اپنا جھنڈا لہرا دیا۔ یہ اس خطے میں ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ پھر یہ قلعہ ایک طویل عرصے تک رنجیت سنگھ کی سلطنت کا مقدر رہا جس کی سرحدیں پشاور اور کشمیر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ 1849ء میں فرنگیوں نے سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کیا اسی کے ساتھ اٹک کا قلعہ بھی فرنگیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1947ء میں آزادی کا سورج طلوع ہوا اور پاکستان وجود میں آیا تو اس قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے لگا۔
آج میں اس تاریخی قلعے کے درودیوار کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جو کتنے ہی معرکوں کا مرکز رہا۔ یہ قلعہ مغلوں کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ قلعے کے چار دیو ہیکل دروازے ہیں: دہلی گیٹ‘ لاہوری گیٹ‘ کابلی گیٹ اور موری گیٹ۔ ان بلند و بالا دروازوں پر خوبصورت نقش کاری کی گئی ہے۔ ہمارا گائیڈ ہمیں قلعے کے مختلف حصوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔ اب میں قلعے کی فصیل پر کھڑا ہوں‘ سامنے وہ پھانسی گھاٹ ہے جہاں حکومت کے باغیوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں پھانسی کے بعد مردہ جسموں کو سندھ کے پر شور پانیوں میں بہا دیا جاتا تھا۔ پھانسی گھاٹ دیکھ کر میرے بدن میں جھرجھری سی آئی‘ میں نے گائیڈ سے کہا کہ آگے چلتے ہیں۔ اب ہم قلعے کے شاہی حمام دیکھ رہے ہیں جو زیر زمین ہیں لیکن جہاں روشنی کا پورا انتظام ہے۔ قلعے کی وسعت اتنی ہے کہ سب جگہوں کو پیدل چل کر دیکھنا نا ممکن ہے۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے آخر ہم کابلی دروازے سے باہر نکلتے ہیں تو سامنے دریا کا پاٹ نظر آتا ہے۔ اونچے نیچے راستوں پر چلتے ہوئے اب ہم اُن سیڑھیوں پر پہنچ گئے ہیں جن کے ساتھ دریا کا پانی بہہ رہا ہے۔ قلعے کے مختلف حصوں کو دیکھنے کے بعد میں تھک گیا ہوں اورآلتی پالتی مار کر ان سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہوں۔ اب میرے سامنے دریائے سندھ کا پانی ہے جس کی لہروں پر سردیوں کی نرم چمکتی دھوپ کا عکس ڈول رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں ان پانیوں کو کتنی نگاہوں نے دیکھا ہوگا جو اَب ہمیشہ کی نیند سو رہی ہیں۔ مضبوط قلعے کی پختہ فصیلیں وقت کے ساتھ ساتھ شکستگی کا نمونہ بن گئی ہیں۔ طاقت اور اقتدار کا کھیل کتنا عارضی ہے۔؎
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات‘ کارِ جہاں بے ثبات

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں