مارچ کامہینہ اسلام آباد میں خوبصورت پھولوں ‘ نئی کونپلوں اور درختوں پر سبز پتوں کا موسم ہوتا ہے۔مارگلہ کی پہاڑیوں سے ہوا چلتی ہے تو اس میں بہار کے سارے رنگ شامل ہوجاتے ہیں۔یہ بھی مارچ کا ایک ایسا ہی دن ہے۔ ابھی ابھی مجھے خبر ملی ہے رشید امجد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ میں کچھ دیر کیلئے ساکت ہو جاتا ہوں۔ لوگوں کیلئے رشید امجد ایک سر بلند افسانہ نگار ‘ ایک محقق اور ایک ماہرِ تعلیم تھے لیکن میرا اور ان کا رشتہ استاد ا ور شاگرد کا تھا جب وہ راولپنڈی کے سرسید کالج میں پڑھاتے تھے اور میں میں نیا نیا فرسٹ ائیر میں داخل ہوا تھا۔ میرا سیکشن B1تھا ٹائم ٹیبل دیکھا تو پتا چلا کہ باقی ہر مضمون کیلئے تو ایک ایک استاد ہے لیکن اردو ہمیں دو اساتذہ پڑھائیں گے۔ اردو شاعری فاروق علی شاہ صاحب اور اردو نثر رشید امجد صاحب۔کیسا عجیب اتفاق تھا کہ فاروق علی شاہ صاحب لال کُرتی کے ایف جی ٹیکنیکل ہائی سکول میں بھی میرے ار دو کے استاد رہے تھے۔ پھر ان کی تقرری سرسید کالج میں ہو گئی۔پہلے دن سب مضامین کے اساتذہ سے تعارف ہوا۔ اس روز اُردو نثر کی کلاس نہیں تھی اس لیے تجسس رہا کہ رشید امجد صاحب کون ہیں۔ اگلے روز دن کے آخرمیں جب باقی مضامین کے ٹیچرز اپنی کلاسز لے چکے ہماری اردو نثر کی کلاس تھی۔
مجھے 1973ء کا وہ روشن دن ابھی تک یاد ہے۔ ہماری نظریں دروازے پر لگیں تھیں۔پھر دروازہ کھلا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا تڑنگا شخص اندر داخل ہوا۔ یوں لگتا تھا اسے اپنا قد سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے ‘شاید اسی لیے اس نے اپنے کندھوں کو آگے کی طرف جھکایا ہوا تھا۔ میں نے دل میں سوچا یقینایہ ہمارے اردو نثر کے استاد ہوں گے۔ کلاس میں نئے ٹیچر کو آتے دیکھ کر خاموشی ہو گئی۔ پھر ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا ‘باقی اساتذہ کے بر عکس کرسی پربیٹھنے یا کھڑاہو کر لیکچر دینے کے بجائے وہ ایک میز پر بیٹھ گئے اور اپنی لمبی ٹانگوں کو پھیلا کر پائوں سامنے رکھے ڈیسک کی ٹانگوں پر ٹکا دیے۔ ہم سب نئے نئے کالج میں آئے تھے ہم نے اس سے پہلے کسی استاد کوکلاس روم میں اتنی بے تکلفی اور اتنے غیر رسمی انداز میں بیٹھا نہیں دیکھا تھا۔ابھی ہم اسی شاک میں تھے کہ وہ بولے :میرا نام رشید امجد ہے اور میں آپ کو اُردو نثر پڑھائوں گا۔ان کی گفتگو میں تصنع تھی نہ بناوٹ۔ لہجے میں تحکم تھا نہ تعلّی۔کلاس کیا تھی جیسے عام بات چیت ہو رہی ہو۔ میں بڑے شوق سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں رشید امجد میرے پسندیدہ استاد بن گئے۔وہ بطورِ استاد اپنے طالبعلموں کیلئے ایک حقیقی منٹور (Mentor) تھے۔ پیچیدہ سوالات کو آسان مثالوں سے سمجھا کر بات واضح کرتے۔ ایک بار ''اسلوب‘‘کی اصطلاح کو سمجھانے کے لیے انہوں نے کمہار (Potter) کی مثال دی کہ جس طرح ایک کمہار برتن پر اپنی طرز کے بیل بوٹے بناتاہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں اسی طرح ہر لکھنے والے کا ایک جداگانہ اسلوب ہوتا ہے۔یہ ایسی مثال تھی کہ فرسٹ ایئر کے طلبہ کیلئے سمجھنا بہت آسان تھا۔ وہ ایک اچھے استاد تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت نفیس اور شفیق انسان بھی تھے۔ کلاس کے بعد بھی میں ان کے پاس چلا جاتا۔ 1974ء میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم بن گیا تھا جب ان کا پہلا افسانوی مجموعہ '' بے زار آدم کے بیٹے‘ ‘آیا۔ میں نے وہ افسانے پڑھے تو بہت مختلف لگے۔ یوں لگتا تھا کہ افسانے لکھنے والا اپنے ارد گرد سے اکتایا ہوا ہے۔ یہ نا راضی ان کے افسانوں میں یہاں وہاں نظر آتی تھی۔ اس زمانے میں فوٹوسٹیٹ مشین اتنی عام نہیں ہوئی تھی مجھے یاد ہے ایک بار انہوں نے اپنا ایک افسانہ ''اوراق‘‘ کو بھیجنا تھا، مجھے کہنے لگے: یار! تمہاری لکھائی اچھی ہے ذرا یہ افسانہ تو کاپی کر دو۔ ''یار‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ چھوٹا ہو یا بڑا‘ دوستوں اور شاگردوں میں ہر کسی کو یوں ہی مخاطب ہوتے تھے۔ میں نے بڑے شوق سے وہ افسانہ اپنی لکھائی میں لکھا جسے اوراق کو بھجوا دیا گیا۔
اسی دوران وہ ہمارے کالج کے رسالے ''سر سیدین ‘‘کے مدیر بن گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس رسالے کو اُس بلندی پر لے گئے کہ اس کے شمارے اُردو ادب کی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ وہ فاروق علی شاہ صاحب کے ہمراہ لائبریری میں بیٹھ کر دیر تک رسالے پر کام کرتے۔یوں ان کی زیر ادارت پاکستانی ادب کی چھ جلدیں تیار ہوئیں جو آج بھی تحقیق کیلئے اہم حوالے کا کام دیتی ہیں۔ انہوں نے یہ روایت بعد میں بھی قائم رکھی جب وہ NUML میں تھے وہاں انہوں نے ''دریافت‘‘ کے نام سے تحقیقی رسالہ شروع کیا جواپنے معیارکی وجہ سے جلد ہی اُردو کے اہم تحقیقی مجلوں میں شمار کیا جانے لگا۔ نمل کے بعد جب وہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی گئے تو وہاں بھی '' معیار‘‘ کے نام سے تحقیقی رسالے کو ایک اہم دستاویز میں بدل دیا۔پھر مزاحمتی ادب پر ان کا وقیع کام ہمیشہ یاد رہے گا۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے رشید امجد صاحب کے اندر ایک معمار بستا تھا۔سر سید کالج کے بعد انہوں نے پاکستان کے دو اہم جامعات میں شعبہ اُردو کی بنیاد رکھی اور ان شعبوں کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح وہ اپنے شاگردوں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے بلکہ عملی طور پر ان کی مدد کرتے۔ اس وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اردو کے شعبے میں اہم عہدوں پر فائز متعدد افراد ان کی شفقت اور ان کی معاونت کی وجہ سے وہاں تک پہنچے۔
خیر یہ تو بہت بعد کی باتیں ہیں‘ میں تو اپنے فرسٹ ایئر کے استاد رشید امجد کا ذکر کر رہا تھا۔ کالج میں ان سے ملنے کے لیے شہر کے ادیب بھی آتے تھے۔ ایک ایسی ہی محفل میں جب ان کے دوست چائے پی کر جا چکے اور میں اور رشید امجد صاحب تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے پوچھا ـ: سر! افسانہ کیسے لکھا جاتا ہے؟انہوں نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولے: یار! یوں سمجھ لو افسانہ عام چیزوں میں نیا پن دیکھنے کا نام ہے۔ یہ Concrete سے Abstract کی طرف کا سفر ہے۔ پھر ان کی نظر میز پر پڑی چائے کی پیالی پر پڑی جو اوندھی پڑی تھی۔انہوں نے چائے کی پیالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دیکھو! اس پیالی پر بھی افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔ پھر وہ ہنس کر بولے: یار بات یہ ہے کہ دراصل موضوع سے زیادہ خیال اہم ہوتا ہے۔ رشید امجد کے افسانہ لکھنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے‘ وہ بتایا کرتے تھے کہ کالج سے پہلے وہ راولپنڈی کی 501 ورکشاپ میں ٹائم کیپرتھے۔ورکشاپ میں ان کے ہمراہ اعجاز حسین بھی کام کرتا تھا جو کہانیاں لکھا کرتا تھا۔اس نے رشید امجد کو بھی اس راہ پر لگا دیا۔ورکشاپ میں کام کرنے والے اعجاز حسین نے بعد میں اردو افسانے میں اعجاز راہی کے نام سے اپنی پہچان بنائی اور اردو افسانے کا ایک درخشندہ نام بنا۔ یہ 1960ء کا ذکر ہے جب رشید امجد نے افسانہ لکھنے کی ابتدا کی۔ ہر نئے لکھاری کی طرح رشید امجد کی خواہش تھی کہ اس کا افسانہ بھی کسی ادبی رسالے میں شائع ہو۔ اس نے بہت محنت سے اپنا پہلا افسانہ ''لیمپ پو سٹ‘‘ لکھا اور اسے مرزا ادیب کے رسالے ''ادبِ لطیف ‘‘کو بھیج کر بے تابی سے جواب کا انتظار کرنے لگا۔اس جواب پر اس کے ادبی مستقبل کا دارومدار تھا۔(جاری )