"SSC" (space) message & send to 7575

رشید امجد اور ست رنگے پرندے کی تلاش… (2)

رشید امجد کو زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ایک دن اُسے خبر ملی کہ اس کا افسانہ ''ادب لطیف‘‘ میں شائع ہو گیا ہے۔ اس خوشی میں اعجاز راہی بھی شامل تھا جس نے رشید امجد کو افسانہ لکھنے پر مائل کیا تھا۔ کیسا اتفاق ہے کہ سالوں کے اُلٹ پھیر کے بعد وہی اعجاز راہی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں میرا کولیگ بن گیا تھا۔ کولیگ سے بڑھ کر ایک عزیز دوست۔ وہ بہت ملنسار‘ شفیق اور ذہین شخص تھا۔ وہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور میں انگریزی میں پڑھاتا تھا۔ اتفاق سے یہ دونوں شعبے ایک ہی بلاک میں تھے لہٰذا اکثر اعجاز راہی سے ملاقات رہتی۔ سوچتا ہوں 60ء کی دہائی میں اعجاز راہی کو کیا خبر تھی کہ وہ رشید امجد کے روپ میں اردو ادب کو ایک ایسے افسانہ نگار سے متعارف کرا رہا ہے جو اردو افسانے کے کینوس پر علامت‘ تجرید‘ استعارے اور تمثیل کے ایسے دلرُبا رنگ ابھارے گا کہ جدید اُردو افسانے کی روایت کا اہم نمائندہ بن جائے گا۔ 60ء کی دہائی میں علامت کے جادو نے اس سے پیشتر ہندوستان میں سریندر پرکاش‘ بلراج منرا اور پاکستان میں ڈاکٹر انور سجاد کو اپنا اسیر بنا رکھا تھا لیکن رشید امجد نے علامت میں بھی اپنا الگ اسلوب تراشا۔ اس کی ڈکشن اپنے دوسرے علامت نگاروں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ اس کے افسانوں کی کچھ سطریں تو نثری نظم کا نمونہ لگتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ رشید امجد کے ہاں شعری زبان آرائش و زیبائش سے زیادہ معنوی دبازت اور تہہ دار امکانات کیلئے ہوتی تھی۔ رشید امجد پامال راستوں کا مسافر نہ تھا‘ اس نے گھڑے گھڑائے موضوعات‘ کرداروں‘ ڈکشن اور پلاٹ سے بغاوت کی۔ جب بھی کوئی تخلیق کے مروجہ ڈھانچے سے باہر نکل کر اپنی راہ تراشتا ہے اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رشید امجد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کے ہاں علامت اور تجرید میں ابلاغ کہیں گم ہو جاتا ہے لیکن حقیقت میں رشید امجد کے بیشتر افسانوں میں علامت اور تجرید افسانے کی قرات کے عمل کو زیادہ با معنی اور خوش رنگ بناتی ہے اور قاری جب معنی کی تہوں کو دریافت کرتا ہے تو اسے ایک خاص طرح کی مسرت اور سرشاری محسوس ہوتی ہے جسے ہم Intellectual delight کہہ سکتے ہیں۔ بعض اوقات رشید امجد کے افسانوں میں کرداروں کے کوئی نام نہیں ہوتے‘ کوئی 'ا‘ ہے تو کوئی 'ج‘۔ اسی طرح روایتی پلاٹ کا Sequence بھی شعوری طور پر اتھل پتھل نظر آتا ہے۔ رشید امجد دراصل اس معاشرے کی نقش گری کر رہا تھا جس کا ظاہر اس کے باطن سے مختلف تھا۔ وہ اسی باطن کے دھندلے منظر اپنے قارئین کو دکھانے کیلئے علامت اور تجرید کا سہارا لیتا تھا۔ رشید امجد نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے افسانوں میں مختلف نوع کے تجربے کئے۔ ان کی پہلی کتاب ''بیزار آدم کے بیٹے‘‘ کے بعد ان کا تخلیقی وفور مختلف راستے تراشتا رہا۔ ان کے افسانوی مجموعوں ''کاغذ کی فصیل‘‘، ''ریت پر گرفت‘‘، ''سہ پہر کی خزاں‘‘ ، ''پت جھڑ میں خود کلامی‘‘ ، ''بھاگے ہے بیابان مجھ سے‘‘، ''عکسِ بے خیال‘‘، ''دشتِ خواب‘‘، ''ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ''گم شدہ آواز کی دستک‘‘ اور ''ایک عام آدمی کے خواب‘‘ میں یہ سارے بدلتے ہوئے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب راولپنڈی اور اسلام آباد دو جڑواں نہیں بلکہ ایک ہی شہر تصور کئے جاتے تھے۔ رشید امجد کے راولپنڈی کے ہم عصروں میں منشا یاد‘ مظہرالاسلام ‘ خالدہ حسین‘ اعجاز راہی‘ وقار بن الٰہی‘ احمد دائود اور احمد جاوید شامل تھے۔ بعد میں محمد حمید شاہد اور مرزا حامد بیگ‘ جو اسلام آباد/ راولپنڈی میں مقیم تھے‘ بھی اس کہکشاں میں شامل ہو گئے جس نے افسانے کی روایت کو باثروت بنایا۔
ان دنوں ایک بے کنار جذبہ تھا جو رشید امجد کو بے چین رکھتا تھا۔ کالج سے گھر اور پھر شام کو ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ مختلف ٹھکانوں پر محفلیں جمتی تھیں۔ کبھی داتا‘ کبھی شالیمار‘ کبھی شمع‘ کبھی شنگریلا اور کبھی سینڈ ہلز ہوٹل۔ شام کی ان محفلوں میں دنیا جہاں کے موضوعات زیرِ بحث آتے۔ پھر رات گہری ہونے لگتی اور سب تھک ہار کر اپنے گھروں کو روانہ ہوتے‘ اور اگلی صبح پھر وہی روٹین۔ سوچتا ہوں انہیں لکھنے کا وقت کب ملتا ہو گا؟ اس زمانے میں شاعروں اور ادیبوں میں بھی گروپس بنے ہوتے تھے لیکن رشید امجد طبعاً ایک درویش تھا جس کا دامنِ دل سب کے لیے کشادہ تھا۔ اس زمانے میں حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس تواتر سے ہوتے تھے۔
ادھرکچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ادب اور نظریہ کو جدا نہیں سمجھتے تھے۔ انہیں میں میرا عزیز دوست اور اردو کا نامور شاعر یوسف حسن بھی تھا۔ یوسف حسن اور میں 1980ء کے اوائل میں گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال میں پڑھاتے تھے۔ اُس کا شعبہ اردو تھا اور میرا انگلش۔ کیا خوبصورت شاعر تھا اور کیسا انمول انسان جو آخری دم تک اس انقلابی نظر یے پر قائم رہا جس کے ساتھ اس کے اور معاشرے کے بہت سے کمزور لوگوں کے خواب جڑے تھے۔ ان دنوں یوسف حسن نے ایک نئی تنظیم ''حلقۂ اربابِ غالب‘‘ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ رشید امجد صاحب ان دنوں تنظیموں کے اجلاس میں جاتے تھے۔ ان کا مزاج ایک صوفی کا تھا جو صلح کل پر یقین رکھتا تھا۔
وقت رُکتا نہیں چلتا رہتا ہے۔ سر سید کالج کا عہد ختم ہو گیا اور رشید امجد صاحب سے روز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا۔ ہاں کبھی کبھار صدر میں آتے جاتے ان سے ملاقات ہو جاتی۔ پھر میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش میں داخل ہو گیا جہاں اُن دنوں معروف دانشور خواجہ مسعود صاحب پرنسپل تھے اور اساتذہ میں آفتاب اقبال شمیم‘ سجاد شیخ‘ سجاد حیدرملک‘ نصراللہ ملک اور توصیف تبسم جیسے نام شامل تھے۔ ایک روز میں نے سجاد شیخ صاحب سے کہا کہ کیوں نہ ایک محفل رشید امجد صاحب کے ساتھ رکھی جائے۔ انہیں دنوں ان کی افسانوں کی نئی کتاب ''ریت پر گرفت‘‘ آئی تھی۔ سجاد شیخ صاحب نے ہمیشہ کی طرح حوصلہ افزائی کی۔ مجھے وہ دن اور اس سے جڑی تفصیلات آج بھی یاد ہیں اس روز رشید امجد صاحب نے اپنی نئی کتاب سے ایک افسانہ سنایا تھا۔ میں نے رشید امجد صاحب کے افسانوں پر ایک مضمون ''آئینے کا قصور‘‘ پڑھا تھا۔ انہوں نے آخر میں حاضرین کے سوالات کے جواب دیے پھرچائے آ گئی۔ چائے کے دوران بھی مکالمہ جاری رہا۔ اُس روزہماری ایم اے انگلش کی کلاس نے جی بھر کر رشید امجد صاحب سے باتیں کیں۔
''لیمپ پوسٹ‘‘ کے ''ادب لطیف‘‘ میں چھپنے کے بعد رشید امجد کے افسانے کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ رشید امجد کا تخلیقی وفور اب اپنے ظہور کے لیے نئے رستے تراش رہا تھا۔ رشید امجد نے اپنا پہلا افسانہ ''لیمپ پوسٹ‘‘ جو 1960ء میں ''ادب لطیف‘‘ میں شائع ہو چکا تھا‘ کو نئے اسلوب میں لکھا اور اسے ''اوراق‘‘ کو بھیجا جو ڈاکٹر وزیر آغا کی زیرِ ادارت شائع ہوتا تھا‘ یوں 1965 میں ''لیمپ پوسٹ‘‘ کا دوسرا ورژن ''اوراق‘‘ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر وزیر آغا ''اوراق‘‘ کے مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی شاعراور نقاد تھے۔ ان کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا تھا جو نہایت پڑھے لکھے‘ کتابوں کے رسیا‘ مشرق و مغرب کے علوم سے واقف اور فلسفیانہ سوچ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی جوہری نگاہوں نے رشید امجد کی شکل میں اس ہیر ے کو پہچان لیا تھا جس نے آنے والے دنوں میں اپنے فن کی تابانی سے افسانے کی دنیا کو چکا چوند کرنا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں