گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد زندگی کی لہر مجھے راولپنڈی سے بہت دور لے گئی۔ میں نے اپنے لیے انگریزی زبان و ادب کا انتخاب کیا تھا‘ اسی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم اے اور پھر کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورانٹو سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی۔ پاکستان واپس آ کر میں نے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھانا اور اس کے ہمراہ اخبارات میں انگریزی میں لکھنا شروع کر دیا۔ کبھی کبھار رشید امجد صاحب کی خبر مل جاتی تھی۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ رشید امجد نے میرا جی پر پی ایچ ڈی کر لی ہے۔ پی ایچ ڈی میں ان کے سپروائزر خواجہ محمد ذکریا تھے۔ وہی خواجہ ذکریا جن کے اور کارناموں میں ایک کارنامہ مجید امجد کے کلام کی تدوین اور بڑے پیمانے پر ان کے کلام کو متعارف کرانا ہے۔ میری یادوں کی چلمن میں وہ شام ابھی تک لو دے رہی ہے جب میں لاہور سے راولپنڈی آیا تھا۔ اس روز رشید امجد صاحب کے گلستان کالونی والے گھر میں خواجہ ذکریا صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ اس شام ہم دیر تک ٹوپی رکھ کی روشوں پر چہل قدمی کرتے رہے تھے۔ اس دوران کتنے ہی ادبی موضوعات زیر بحث آئے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ادب نظریاتی نعرہ بازی کی زد میں آ گیا تھا۔ ادیبوں کی محفلوں میں سیاسی گروہ بندیاں بن گئی تھیں۔ رشید امجد کا فن اور نظریے کا تصور مختلف تھا۔ اپنی پہلی کتاب ''بیزار آدم کے بیٹے‘‘ کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں ''میں نظریاتی عقیدے کے خلاف نہیں‘ میرے ان افسانوں میں بھی ایک نظریاتی عقیدہ موجود ہے لیکن میں محض نظریاتی نعرہ بازی کو ادب نہیں سمجھتا کہ تخلیقی عمل سے گزرے بغیر کوئی چیز ادب نہیں بنتی۔ میں فنی تخلیق پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔ رشید امجد کے افسانے دیکھیں تو وہ کرافٹ کا اعلیٰ نمونہ لگتے ہیں۔ لگتا ہے یہ ہنر انہوں نے وراثت میں پایا تھا۔ رشید امجد کے والد بھی تو ایک نقاش تھے۔ وہ قالینوں کے ڈیزائنر تھے۔ قالینوں پر نت نئے نقش ابھارنا ان کا فن تھا۔ یہی نقاشی کا فن رشید امجد کے حصے میں بھی آیا۔ کہتے ہیں‘ رشید امجد کے افسانوں میں عام آدمی کے خواب ملتے ہیں۔ اس کے موضوعات بھی ارد گرد کی زندگی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ایک ادیب کی آنکھ اپنے ارد گرد وہ کچھ دیکھتی ہے جو کسی اور کی نظر نہیں دیکھ پاتی‘ لیکن ادیب کا اصل امتحان اپنے پڑھنے والوں کو بھی اس کیفیت سے آشنا کرنا ہوتا ہے۔ ہاں تو میں رشید امجد کے موضوعات کا ذکر کر رہا تھا۔ ان موضوعات میں ایک موضوع جو بھیس بدل بدل کر رشید امجد کے افسانوں میں آتا رہا وہ شناخت کا تھا۔ شناخت جو جامد نہیں بلکہ سیال (Fluid)شے ہے۔ جو ایک معروضی (Relative) اصطلاح ہے۔ گُم ہوتی شناخت رشید امجد کا ایک اہم موضوع تھا۔ شناخت کی اذیت کی یہ صلیب اس کے گلے میں اس وقت پڑی تھی جب وہ سات برس کا تھا اور جب اس کے والدین اسے سری نگر سے لے کر راولپنڈی آ گئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ کیسے بدل گیا تھا۔ کہاں وہ خوش حال زندگی جب وہ تانگے میں سوار ہو کر انگلش میڈیم سکول میں جایا کرتا تھا اور کہاں عسرت کا یہ عالم کہ سر چھپانے کو ڈھنگ کی جگہ بھی میسر نہ تھی۔ پل بھر میں پہچان ایک مدار سے دوسرے مدار میں داخل ہو کر اجنبی ہو گئی تھی۔ پہچان کا ایک حوالہ رشید امجد کا اپنی ماں کے ساتھ گہری وابستگی بھی تھا‘ لیکن کبھی کبھار رشید امجد کا جی چاہتا کہ ماں سے کہے ''اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے‘‘۔ مجھے رشید امجد کا افسانہ ''ڈوبتی پہچان‘‘ یاد آ رہا ہے جس میں افسانے کا مرکزی کردار قبرستان میں اپنی ماں کی قبر نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔ پھر ایک کھوئی ہوئی پہچان راولپنڈی کے پرانے محلے کی تنگ و تاریک لیکن با رونق گلیوں کی تھی‘ جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے اور سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ یہ پہچان اس وقت دھندلا جاتی ہے جب نئے گھر کی تعمیر کی خواہش ہمیں شہروں سے دور مختلف سوسائٹیوں میں لے آتی ہے‘ جہاں زندگی خاموش اور بے تعلق ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ رشید امجد کے افسانوں کا مرکزی کردار پہچان کے ایک موڑ پر پہنچتا ہے تو وہاں سے تلاش کا ایک اور سفر شروع ہو جاتا ہے‘ کبھی پہچان کی تلاش اسے خارج کی دنیا میں لے جاتی ہے۔ اور کبھی باطن کے ان پُر پیچ راستوں پر جہاں تک رسائی آسان نہیں ہوتی۔ یوں لگتا ہے ایک خواب ہے جو اسے بے چین رکھتا۔ ایک شناخت ہے جو مکمل نہیں ہو پا رہی۔ لیکن اس سارے عمل میں امید کی ایک رو زیرِ زمیں چل رہی ہوتی ہے۔ یہی امید، ارتقا اور تحرک رشید امجد کی اپنی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ کبھی اس کا دل اس گم شدہ ثقافت کے لیے بے چین نظر آتا ہے جس کے رنگوں سے اس کی شخصیت کی تشکیل ہوئی تھی۔ کبھی تشخص، پہچان، اور شناخت کا ست رنگا پرندہ ایک جھلک دکھاتا ہے اور پھر وقت کی بہتی ہوئی دھند میں کھو جاتا ہے اور کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ اس ست رنگے پرندے کے رنگ اور چمک صرف اسی کو دکھائی دیتے ہیں۔
عمر کے آخری حصے میں رشید امجد کی تلاش کا سفر اسے حواس کی دنیا کے اس پار لے گیا جہاں مادی دنیا کی Reasoning کا م نہیں آتی۔ اب رشید امجد نے داڑھی رکھ لی تھی۔ یوں لگتا تھا وہ بچپن کی اس دنیا میں واپس چلا گیا ہے جب اس کی ماں پُراسرار تاریک مزاروں پر چراغ جلانے جاتی تھی اور جب وہ پہروں چاند کو دیکھ کر وظائف پڑھا کرتا تھا۔ اب اس کے افسانوں میں اس درویش کا کردار ابھر کر سامنے آ گیا جو برسوں سے اس کے اندر بس رہا تھا۔ یہ مرشد رشید امجد کی ایک فنی ضرورت بن کر افسانے میں وہ باتیں کرتا ہے جو رشید امجد خود کرنا چاہتا ہے لیکن کر نہیں پاتا۔ رشید امجد کا بچپن اور اس کی زندگی کا آخری پہر بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں زمانوں میں وہ ما بعدالطبیعاتی دنیائوں کی آغوش میں زندگی کی حقیقت ڈھونڈتے نظر آتا ہے۔
آج رشید امجد کے جانے کی خبر سنی تو دھک سے رہ گیا۔ مجھے وہ اجلا اور روشن دن یاد آ گیا جب میں سر سید کالج میں فرسٹ ایئر کی کلاس B-1 میں لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھا اردو نثر کے استاد کا انتظار کر رہا تھا‘ جس کا نام رشید امجد تھا۔ وقت کی طنابیں جیسے کھنچ گئی ہیں۔ 1973 کا وہ سال اور 2021 کا یہ سال آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں ایسا کیونکر ہوتا ہے؟ پھر مجھے رشید امجد کے افسانے میں اس کے ایک کردار شیخ کی سطریں یاد آ جاتی ہیں ''وقت ایک دریا کی مانند ہے‘ جس کی لہروں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ وہ دیکھنے میں الگ الگ نظر آتی ہیں۔ ماضی کی گود سے حال، حال کی گود سے مستقبل اور مستقبل کی گود سے پھر ماضی طلوع ہوتا ہے۔ ایک دائرہ ہے جس کا ایک مرکز ہے اور اس مرکز کی کوئی زبان نہیں‘‘۔ مجھے یوں لگا جیسے رشید امجد سے چار دہائیاں پہلے ملاقات کا وہ لمحہ پھیل کر صدیوں پر محیط ہو گیا ہے اور جس میں ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئے ہیں۔