"SSC" (space) message & send to 7575

نور الہدیٰ شاہ‘ادب اور مزاحمت

یہ اسلام آباد کی ایک مہکتی ہوئی رات تھی اور پروفیسرفتح محمد ملک صاحب کا گھر جہاں نور الہدیٰ شاہ ‘ حارث خلیق‘ رؤف کلاسرا اور طاہر ملک شریکِ محفل تھے ۔نور الہدیٰ شاہ روایتی عجز کے ساتھ ہماری باتوں کا جواب دے رہی تھی ۔ میں نے دیکھا جب بھی کوئی تعریفی جملہ کہتا تو نور الہدیٰ بات بدل دیتی اور میں سوچ میں پڑ جاتا کیا یہ وہی نور الہدیٰ ہے جس نے اپنے قلم سے شمشیر کا کام لیا تھا ‘ ادب کو مزاحمت کا پرچم بنا لیا تھا اور فرسودہ روایتوں کے بت توڑ ڈالے تھے ۔مجھے80 ء کی دہائی کا زمانہ یاد آگیا ۔ وہ بھی کیا دلربا زمانہ تھا میں گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کر چکا تھا اور راولپنڈی کے ایک قدیم اور تاریخی کالج گورنمنٹ کالج اصغر مال میں پڑھا رہا تھا ۔ شاید وہ 1983ء کا سال تھا جب میں نے اصغر مال کالج چھوڑ کر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں ملازمت کا آغاز کیا تھا ۔ انہی دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی پر ایک نئے ڈرامے کا آغاز ہونے جا رہا تھا جس کا نام ''جنگل‘‘ تھا اور اس کی لکھاری کا یہ پہلا ڈرامہ تھا ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ توچینلز کی بھرمار تھی اور نہ ہی ڈراموں کا ہجوم۔ ٹی وی پر صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا جس پر ہفتے میں ایک ڈرامہ چلتا تھا جس کا سب بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔یہ زمانہ بڑے ڈرامہ نگاروں کا زمانہ تھا جن میں اشفاق احمد‘بانو قدسیہ حسینہ معین ‘ فاطمہ ثریا بجیااور امجد اسلام امجد شامل تھے جن کے ڈراموں نے قبولیتِ عام کی سند حاصل کر لی تھی۔ ان مقبول ناموں میں نور الہدیٰ شاہ کا نام بالکل نیا تھا۔ نورالہدیٰ نے پی ٹی وی کی فرمائش پرڈرامہ لکھ تو دیا تھا لیکن اس کے دل میں اضطراب کی ایک لہر ڈوبتی اور ابھرتی رہی۔ کیا اس کاڈرامہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکے گا؟ کیا ڈرامے کے اتنے قد آور ناموں میں وہ اپنی جگہ بنا سکے گی ؟
اس نے کراچی میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر پھیلی ہوئی دھوپ کو دیکھا۔ تب اسے لاہور کے زندگی سے دھڑکتے گلی کوچے یا د آگئے۔ اس کے ساتھ ہی لاہور کے وہ شب و روز جو اس نے شہرِ بے مثال میں گزارے تھے۔ اس نے کرسی پر سر ٹکاکر آنکھیں بند کر لیں اور لاہور میں بِتائے ہوئے دن آنکھیں جھپکتے ہوئے اس کے پہلو میں آ بیٹھے‘ جب اس کے والد سرکاری ملازم تھے اور لاہور میں تعینات تھے جہاں نور الہدیٰ کا سارا بچپن گزرا ۔ لگ بھگ پندرہ برس وہ لاہور کی آغوش میں پلی بڑھی۔ یوں اردو اور پنجابی سے اس کی آشنائی ہوگئی لیکن اپنی مادری زبان سندھی پڑھنے اور لکھنے میں دشواری تھی ۔اسے بچپن کے وہ نٹ کھٹ دن یاد آ گئے اور اس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک طویل عرصے تک وہ گھر کا تنہا بچہ تھی اس لیے ماں باپ کے پیار کا مرکز تھی۔ اس کے کھیل بھی دلچسپ تھے۔ گڑیوں سے کھیلنے کے بجائے اسے درختوں پر چڑھنا‘ پتنگوں کے پیچھے بھاگنا اور ہاکی کھیلنا پسند تھا۔ والدہ کو شعر و ادب سے دلچسپی تھی اور وہ شاہ لطیف کا کلا م اکثر گنگناتی رہتیں۔انہوں نے گانے کی باقاعدہ تربیت تو حاصل نہیں کی تھی لیکن انہیں سُرتال کا بخوبی علم تھا ۔ قدرت نے ا نہیں آواز بھی خوب دی تھی ‘وہ اپنی مدھر لے میں جب شاہ لطیف کی کافی پڑھتیں تو یوں لگتا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو ۔ان کا تعلق ایک فیوڈل خاندان سے تھا‘ یوں وہ ان روایات کا احترام بھی کرتی تھیں لیکن دوسری طرف ان کے اندر شعر و ادب کا ذوق ان کے روح کے پرندے کو ہر لحظہ کھلی فضائوں میں پرواز کی دعوت دیتا رہتا۔ ان کی گفتگو میں ڈرامے کا آہنگ تھا۔ ان کی باتیں جیسے گھڑے گھڑائے مکالمے ہوتے۔ یوں گھر کے ماحول نے نور الہدیٰ کو لکھنے کی طرف مائل کیا ۔ایک بار سکول میں اس نے اپنی نوٹ بک پر ایک نظم لکھی اور بھول گئی۔ ایک روز سکول میں ٹیچر بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی اچانک اس کی نظرنظم پر پڑی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا تو نور الہدیٰ ڈر گئی۔ٹیچر نے سہمی ہو ئی نورالہدیٰ کو دیکھا تو ہنس پڑی اور پیار سے اس کے گال تھپتھپاتے ہوے کہا: تم نے بہت اچھی نظم لکھی ہے‘یہ داد نورالہدیٰ کے لیے ایک بہت بڑا انعام تھی۔وہ دن اور اس استاد کی محبت بھری داد کی خوشبو نورالہدیٰ کی زندگی میں ہمیشہ مہکتی رہے گی۔وقت دبے پاؤں گزر رہا تھا۔ لاہور کی ادبی فضائیں غیر محسوس طریقے سے اس کی ذہنی پرورش کر رہی تھیں۔اس وقت اس کی عمر صرف بارہ سال ہو گی جب اس نے ناول لکھنے کی ٹھانی۔یہ ایک رومانوی ناول تھا۔والد صاحب کی نظر اس ناول پر پڑی تو انہیں بیک وقت حیرت ‘مسرت اور پریشانی ہوئی ۔انہوں نے بیٹی کو پیار سے سمجھایا کہ ناول تو خوب صورت ہے لیکن یہ تمہاری عمر سے بڑا ناول ہے۔اس طرح کی تحریرکے لیے تمہیں کچھ عرصہ اور انتظار کرنا ہوگا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ نورالہدیٰ کی یہ ساری تحریریں اُردو میں تھیں۔سندھی جو اس کی مادری زبان تھی اس کا پڑھنا اور لکھنا اسے دشوار لگتا تھا۔ان دنوں ان کے گھر میں ایک سندھی اخبار آتا تھا۔نورالہدیٰ کے والد نے کہا :نورالہدیٰ تمہیں سندھی اخبار پڑھنا چاہیے۔کم ازکم اخبار کی ہیڈ لائنز پڑھ لیا کرو۔یوں اس کا سندھی زبان اور سندھی ادب کے مطالعے کا سفر شروع ہوا۔
پندرہ سال لاہور کی فضاؤں میں رہنے کے بعد جب وہ والدین کے ساتھ حیدر آباد آئی تو یہاں دنیا ہی مختلف تھی۔والدہ کا تعلق ایک فیوڈل خاندان سے تھا جہاں روایات کا کڑا پہرہ ہوتا ہے۔ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا‘لوگ انہیں ملنے کیلئے آتے‘ پاؤں چھوتے اور پھر فرش پر بیٹھ جاتے۔نورالہدیٰ کیلئے یہ سب کچھ نیا تھا۔لیکن اس کی دنیا اس کی کتابیں تھیں۔اب اس نے سندھی زبان میں کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔اس کی پہلی ہی کہانی نے ادبی دنیا کو چونکا دیا۔اس کا موضوع اور اسلوب سب سے منفرد تھا ‘اور پھر وہ وقت بھی آگیاجب نورالہدیٰ کی کہانیوں کی کتاب''جلاوطن ‘‘ منظرعام پر آئی اور سندھ کے ادبی منظر نامے پرنورالہدیٰ کی ایک معتبر سندھی افسانہ نگار کے طور پر پہچان ہوئی۔شہرت کے معاملے میں نورالہدیٰ خوش قسمت واقع ہوئی‘ بائیس تئیس سال کی عمر میں سندھی ادب میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنا اس کے لیے بھی حیر ت کی بات تھی کہ نورالہدیٰ نے سندھی لکھنا اور پڑھنا دیر سے سیکھا تھا۔ ''جلاوطن‘‘ کی کہانیوں میں سماجی حد بندیوں اور ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت تھی‘ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔یوں نورالہدیٰ کی تحریریں سندھی معاشرے میں ایک جرأت مند آواز بن کر ابھریں اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں۔گھر سے باہر تو مقبولیت کا یہ عالم تھالیکن گھر کے اندر کا معاملہ مختلف تھا۔ جب لوگ اس کی کہانیاں ماں کو لاکر دکھاتے تو ماں خوش ہونے کے بجائے پریشان ہو جاتی اور کبھی کبھار تو رو دیتی۔اس کی بڑی وجہ ماں کا جاگیردارانہ پس منظر تھا۔ماں جانتی تھی کہ جرأت مندانہ اور روایات سے باغی تحریریں لکھنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ پھر اسے پی ٹی وی سے ایک ڈرامہ سیریز لکھنے کی پیش کش ہوئی۔اس نے چیلنج سمجھ کر اسے قبول کر لیا۔یہ 1983ء کا سال تھا۔انہی دنوں ہم نے ٹی وی پر ایک نئے ڈرامے کا اشتہار دیکھا جس کا نام ''جنگل‘‘ تھااور جس کی لکھاری سندھ کی نورالہدیٰ شاہ تھیں۔ڈرامے کی دنیا میں یہ ایک نیا نام تھا۔ان دنوں ہفتے میں ایک ڈرامہ ہی ہماری تفریح تھی۔ہم سب ''جنگل‘‘ کی راہ تکنے لگے ۔آخر وہ دن ہی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ آج ''جنگل‘‘ ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہونے جا رہی تھی۔آج چھبیس سالہ نورالہدیٰ کے امتحان کا دن تھا۔اس امتحان کے نتیجے نے اس کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں