"SSC" (space) message & send to 7575

عبیداللہ سندھی، تاجِ برطانیہ اور مزاحمت… (3)

افغانستان کی سرحد پار کرتے ہی عبیداللہ سندھی اور ان کے ساتھی حکام کی نظر میں آ گئے۔ ان کے پاس سفری دستاویزات کی عدم موجودگی نے شکوک و شبہات میں اضافہ کر دیا تھا‘ لیکن انہوں نے اپنا اعتماد برقرار رکھا اور درخواست کی کہ انھیں قندھار تک پہنچا دیا جائے تو وہ حکومت کو پورے طریقے سے مطمئن کر دیں گے۔ ان کی درخواست منظور کر لی گئی۔ قندھار میں ان سے مزید تفتیش کی گئی بالآخر حکام ان کے جوابات سے مطمئن ہو گئے۔ خوش قسمتی سے قندھار میں ان کے چند شناسا لوگ مل گئے جن کی قندھار کے حکام سے جان پہچان تھی۔ انہی کے توسط سے عبیداللہ سندھی کی ملاقات نائب الحکومت سے ہوئی جنھوں نے انھیں نہ صرف عزت و احترام سے قندھار رہنے کی اجازت دی بلکہ ان کی خواہش پر ان کے کابل کے سفر اور کابل میں قیام کا بندوبست بھی کیا۔ یہ قدرت کی خاص مہربانی تھی کہ ایک اجنبی علاقے میں انھیں رفقاء میسر آ گئے تھے۔ کچھ دن قندھار میں قیام کرنے کے بعد عبیداللہ سندھی اور ان کے ساتھیوں کے لیے حکومت کی طرف سے کابل کے سفر کا اہتمام کیا گیا۔ وہ 1915ء کا سال تھا اور اکتوبر کی پندرہ تاریخ جب عبیداللہ سندھی اور ان کے ساتھی کابل پہنچے۔ اس وقت ان کے تصور میں بھی نہیں تھاکہ انھیں ایک طویل عرصے تک یہاں رہنا ہوگا‘ اور مقامی اور بین الاقوامی سیاست کا حصہ بننا ہو گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترک خلافت بچانے کے لیے ہندوستان کے عوام میں حد درجہ جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ ہندوستان کے جوانوں نے ترکی کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے نوجوان افغانستان میں حراست میں لیے گئے تھے‘ اور رہائی کے بعد یہیں رہ کر عملی طور پر ترکوں کی مدد کر رہے تھے۔ ان دنوں افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان کی بادشاہت تھی۔ رفتہ رفتہ عبیداللہ سندھی اور ان کے رفقاء کی رسائی امیر حبیب اللہ خان کے دربار تک ہو گئی۔ عبیداللہ سندھی کو کابل بھیجنا شیخ الہند مولانا محمودالحسن کے اس منصوبے کا حصہ تھا کہ ہندوستان پر انگریزوں کی غاصبانہ حکومت کے خلاف ملک میں اور ملک سے باہر مزاحمت بڑھائی جائے۔ عبیداللہ سندھی کو یہ کام بہت حکمت اور تدبر سے کرنا تھا۔ سب سے پہلے انھیں امیر حبیب اللہ خان کا اعتماد جیتنا تھا اور ملکی سطح پر اپنے سیاسی وجود کو منوانا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ یہ نوجوان پڑھے لکھے تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ انھیں ایک ایسی تنظیم کے نظم میں پِرویا جائے جہاں ان کی سیاسی، علمی اور عسکری تربیت ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے ''جنوداللہ الربانیہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ رفتہ رفتہ یہ تنظیم مؤثر ہو گئی تھی اور اس کے تحت حکومتِ افغانستان کی اجازت سے، ہندوستان، ایران، اور ترکمانستان میں وفد بھیجے گئے۔ اُدھر ہندوستان کی فرنگی حکومت ان کے معمولات سے بے خبر نہ تھی۔ وہ اور ان کے ساتھی سی آئی ڈی کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور آہستہ آہستہ ان کا کام مشکل ہونے لگا۔ ایک طرف تو یہ چیلنج تھے اور دوسری طرف عالمِ غیب سے مدد آنے لگی تھی۔ اسی زمانے میں ایک اور مزاحمتی کردار حاجی تورنگ زئی کا تھا‘ جو فرنگیوں کے لیے دہشت کا سامان بنے ہوئے تھے۔ حاجی تورنگ زئی شیخ الہند مولانا محمودالحسن کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے بہت سے پیروکاروں نے ''جنوداللہ‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسی طرح جماعتِ مجاہدین کے امیر شیخ عبدالکریم بن امیر مولانا ولایت علی عظیم آبادی سے ملاقات کر کے تعاون کے راستے تلاش کیے گئے۔ عبیداللہ سندھی اس بات سے باخبر تھے کہ انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کے تمام فرقوں اور ہندوستان کی تمام قوتوںکو متحد ہونا ہو گا۔ اس سلسلے میں انھوں نے عملی کوششیں بھی کیں۔ عبیداللہ سندھی نے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد کے لیے خاص طور پر زور دیا۔ اس سب کا مقصد ایک تھا: ہندوستان کی انگریزوں کے غاصبانہ قبضے سے رہائی۔ افغانستان میں جمع ہندوستانی نوجوانوں کی کثیر تعداد کے لیے ایک تعلیمی مرکز کا قیام ضروری تھا۔ اس کے لیے تجویز ہوا کہ کابل میں ''ہندوستانی یونیورسٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس تجویز کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں، اور افغانستان کے باشندوں کو اتحاد کی لڑی میں پرونا تھا۔ لیکن یہ انتہائی اہم منصوبہ ہندو مسلم اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا‘ اور ہندوستانی یونیورسٹی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ عبیداللہ سندھی نے ہمت نہ ہاری۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کی کامیابی کا راز مسلمان اور ہندو حریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کابل میں انڈین نیشنل کانگریس کی ایک شاخ قائم کی جائے۔ یہ خیال عمل میں ڈھل گیا تو انھوں نے ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس سے الحاق کی درخواست کی جسے قبول کر لیا گیا۔ یہ تاجِ برطانیہ کی عمل داری سے باہر انڈین نیشنل کانگریس کی پہلی شاخ تھی جس کے صدر عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے۔ یہ ایک اہم کامیابی تھی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ مزاحمت کے عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا جائے اور یہ افغانستان میں ایک عبوری ہندوستانی حکومت کا قیام تھا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں جرمنی، ترکی اور افغان حکام کی اشیرباد شامل تھی۔ اس عبوری ہندوستانی حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاب تھے‘ جن کا بھرپور ساتھ مولانا برکت اللہ نے دیا۔ عبیداللہ سندھی اس عبوری ہندوستانی حکومت کی کابینہ کے وزیر بن گئے۔ اس عبوری حکومت کا قیام دنیا بھی کے لیے ایک صاف اور واضح پیغام تھا کہ ہندوستانی عوام ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کو نہیں مانتے اور ان کی نمائندہ حکومت ہندوستان کی عبوری حکومت ہے۔
اِدھر عبیداللہ سندھی افغانستان میں مزاحمت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اُدھر شیخ الہند محمودالحسن حجاز میں ہندوستان کی آزادی اور ترکی میں خلافت بچانے کے لیے سرگرم تھے۔ انھی دنوں ''ریشمی رومال‘‘ تحریک کا شور اُٹھا‘ یہ دراصل وہ خطوط تھے جو فرنگی حکومت کے خلاف لکھے گئے تھے‘ جن کی عبارت ریشمی رومال پر تحریر کی گئی تھی‘ اور جن میں بنیادی کردار شیخ الہند مولانا محمودالحسن کا تھا۔ بد قسمتی سے یہ خط خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہ سراسر فرنگی حکومت سے بغاوت کا اعلان تھا۔ مولانا محمودالحسن کو 1917ء میں حجاز سے گرفتار کر کے مالٹا بھیج دیا گیا۔ جہاں انھیں تین سال قید رکھنے کے بعد مارچ 1920ء میں رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ ہندوستان آئے۔
اب وہ کمزوری اور نقاہت کی گرفت میں تھے‘ لیکن شیخ الہند نے آخر دم تک ہار نہ مانی۔ ہندوستان آ کر انھوں نے جمعیتِ علمائے ہند کی بنیاد ڈالی اور اسی طرح معروف تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھا اور ''نظارۃالمعارف القرانیہ‘‘ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا حصہ بنا دیا۔ اکتوبر 1920ء میں جب شیخ الہندکا انتقال ہوا‘ عبیداللہ سندھی کابل میں تھے۔ شیخ الہند کے انتقال کی خبر سُن کر ماضی کے دن رات ان کی آنکھوں میں روشن ہو گئے۔ برطانوی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے عبیداللہ سندھی کے لیے اب کابل میں مزید کام نا ممکن ہو گیا تھا۔ کابل میں آئے ہوئے انھیں سات سال اور سات مہینے ہو چکے تھے لیکن اب یہاں مزید کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد عبیداللہ سندھی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کابل چھوڑ دیں گے مگر ہندوستان کی آزادی کے خواب سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے کسی اور جگہ چلے جائیں گے‘ جہاں وہ آزادی کے خوابوں میں رنگ بھر سکیں‘ لیکن ایسی جگہ کون سی ہو گی؟ وہ خود ہی اپنے آپ سے سوال کرتے اور کوئی جواب نہ پاتے۔ اچانک ایک دن ان کی آنکھوں میں ایک دیار کا تصور جھلملانے لگا اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں