عبیداللہ اور ان کے ساتھیوں کے لیے کابل چھوڑنا اتنا آسان نہ تھا۔ سات برس ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ یہاں گزرے ہوئے دنوں کی یادیں ان کے پاؤں پکڑ رہی تھیں‘ لیکن ان کا جانا اب ٹھہر گیا تھا۔ اگلی منزل کون سی ہو؟ ایک طویل سوچ بچار کے بعد عبیداللہ سندھی کے دماغ میں معاً ایک خیال جگمگا اُٹھا۔ کیوں نہ روس کی سرزمین کو آزمایا جائے۔ اسی خیال کے تحت انھوں نے روس کے ایک وکیل سے بات کی اور پھر وہ اور ان کے ساتھی دریائے جیحوں کے پار اُتر گئے۔ یہ ایک اجنبی دیار تھا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے ہمراہ وہ نوجوان بھی تھے جو ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے اور جو فرنگی سامراج کے خلاف مزاحمت کے لیے اپنے گھر بار اور تعلیم چھوڑ کر آ گئے تھے۔ ان سب کے لیے روس ایک نئی دنیا تھی۔ عبید اللہ سندھی روس کے نظام کی انقلابی سوچ سے متاثر ہوئے۔ وہ انتہائی کثیر المطالعہ تھے اور غور و فکر کے بعد اپنی سوچ کی تشکیل کرتے تھے۔ کیسی کیسی کتابیں ان کی سوچ میں رنگ بھرتی گئی تھیں۔ ان سب کتابوں کے مطالعے اور ان پر غور و فکر نے ان کی سوچ کے افق وسیع کر دیے تھے‘ لیکن ان کی سیاسی سوچ میں ارتعاش اس وقت پیدا ہوا جب انھوں نے الیاس برنی کی کتاب 'علم المعیشت اور ہندوستان کی معاشی حالت‘ پڑھی۔ ان کتابوں کے مطالعے نے انھیں سماج میں اقتصادیات کی اہمیت اور اشتراکی انقلاب کے بارے میں مزید جاننے کا شوق بڑھا دیا اور وہ سوچنے لگے‘ کیا ایسا عملی طور پر ممکن ہے؟ ان کے ساتھیوں میں بہت سے اس نظام کے حامی تھے۔ ان کے ہمراہ آئے ہوئے بہت سے نوجوانوں‘ جو ہندوستان میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئے تھے‘ نے یہاں کے انقلابی کالج میں داخلہ لے لیا تھا لہٰذا ہر شام کو بحث و مباحثہ کی محفلیں ہوتیں‘ جن میں عبید اللہ سندھی بھی حصہ لیتے۔ وہ آہسہ آہستہ اجتماعیت کے اس نظام کے حامی بن گئے جو شاہ ولی اللہ کے فلسفۂ انقلاب کے نزدیک تر تھا۔ انھوں نے روس کے نظام کو بہت قریب سے دیکھا اور دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ کسی دوسرے ملک کے بجائے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرتکز کریں گے اور اس انقلابی فلسفے کو ہندوستان کے باشندوں کے ذہنوں میں راسخ کریں گے‘ جس کے حوالے شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ جب عبید اللہ سندھی نے روس کے کچھ دانش وروں سے شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کا تذکرہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ افکار جو مارکس سے منسوب ہیں‘ شاہ ولی اللہ نے ان انقلابی افکار کا اظہار مارکس سے سو سال پہلے کر دیا تھا۔ روس میں قیام کے دوران عبید اللہ سندھی کی ملاقاتیں حکومت کے اہم باشندوں سے بھی ہوئیں‘ لیکن ان تذکروں میں کوئی حقیقت نہیں کہ ان کی ملاقات لینن سے ہوئی۔ عبید اللہ سندھی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں لینن بیمار تھا اور وہ اپنے قریبی دوستوں اور عزیزوں کو بھی نہیں پہچانتا تھا۔ روس میں سات ماہ کا یہ قیام اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس دوران عبید اللہ سندھی کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی آئی اور ان کے فلسفۂ سیاست میں سماجی بھلائی اور انقلاب کا تصور نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ عبید اللہ سندھی ہندوستان کے باشندوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا چاہ رہے تھے‘ لیکن ہندوستان کی فرنگی حکومت میں وہ اور ان جیسے انقلابی سوچ کے حامل افراد قابلِ گردن زدنی تھے۔ وہ سوچنے لگے‘ اگر ہندوستان نہیں تو ترکی کا سفر کیا جائے تا کہ قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔ ترکی اور افغان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد انھوں نے جولائی 1923ء میں ترکی جانے کا قصد کیا۔ یہیں پر ان کی ملاقات ترکی کے انقلاب پسند رہنماؤں سے ہوئی جن میں عصمت پاشا اور رؤف بِک شامل ہیں۔ ان دنوں ترکی تبدیلیوں کی زد میں تھا۔ ترکی میں معاشرے کی سطح پر تبدیلیوں کا ادراک ان کے لیے آسان ہو گیا تھا کیوں کہ انھوں نے روس کے نظام کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہ سوچ اور یہ طرزِ مشاہدہ ہندوستان کے بیشتر رہنماؤں کے پاس نہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس تبدیلی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ترکی میں قیام کے دوران انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال کا گہرا مطالعہ کیا‘ جس کا حاصل یہ تھا کہ بادشاہوں کی وراثت پر مبنی زوال پذیر قوت پر اعتماد کرنے کے بجائے مسلمانوں کی نجات اس میں ہے کہ وہ انقلابی اصولوں کی پیروی کریں۔ عبید اللہ سندھی کو اب نئی منزلیں بُلا رہی تھیں۔ وہ 5 جون 1926ء کو استنبول سے اٹلی اور پھر سوئٹزرلینڈ کے لیے روانہ ہو گئے۔ اب ان کی اگلی منزل حجاز مقدس تھی۔ 15 اگست 1926ء کو وہ حجاز کی سرزمین پر پہنچے۔ انھیں اس بات کا افسوس ہوا کہ وہ حج کے بعد یہاں پہنچے تھے اور ہندوستان سے آنے والے حجاج کرام واپس جا چکے تھے۔ حجاز کی سرزمین پر درس و تدریس کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہو گیا۔ حجازِ مقدس میں ان کا قیام بارہ برس پر پھیلا ہوا تھا۔ ان دوران انھوں نے مقامی علماء سے کسبِ فیض کیا‘ اور خود درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخر کار انھیں ہندوستان واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ یہ 1939ء کا سال تھا جب وہ ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے۔ انھیں اپنے وطن‘ اپنے گھر بار اور اپنے پیاروں سے دور رہتے ہوئے تقریباً پچیس برس گزر گئے تھے۔ وہ مارچ کا مہینہ تھا جب وہ ہندوستان کی سرزمین پر پہنچے تھے۔ جگہ جگہ ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے لیکن یہ والہانہ پن اس وقت آہستہ آہستہ کم ہونے لگا جب عبید اللہ سندھی نے اپنے انقلابی خیالات کا بے باک اظہار کرنا شروع کر دیا‘ اور سیاست کے فرسودہ ڈھانچے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اس انقلابی سوچ نے سیاسی جماعتوں اور ان کے درمیان فاصلے پیدا کر دیے۔ ان کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد ا ب غیر فعال ہو گئی تھی۔ یوں لگتا تھا 25 سال کی غیر حاضری کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی غیریت دیکھ کر عبید اللہ سندھی نے اپنی جماعت بنانے کا اعلان کیا جس کا نام ''جمنا نربدا سندھ ساگر‘‘ تھا لیکن شاید زمانہ آگے نکل گیا تھا یا شاید عبید اللہ سندھی زمانے سے آگے نکل گئے تھے۔ ہر دو صورتوں میں نتیجہ تنہائی تھا۔ عبید اللہ سندھی کے آخری پانچ برس‘ حیرت افسوس اور مایوسی کے سال تھے۔ انھوں نے پیرانہ سالی کے باوجود کئی مراکز کا اجرا کیا لیکن اب نہ تو وہ پہلے جیسی طاقت تھی نہ ہی پیروکاروں کا جوش و خروش۔ کبھی کبھی انھیں اپنی زندگی کے گزرے ہوئے روز و شب یاد آ جاتے تو ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ کیسے کیسے خواب تھے جو انھوں نے اپنی قوم کے لیے دیکھے تھے۔ کیسی کیسی رکاوٹیں تھیں جن سے وہ ٹکرا کر آگے بڑھ گئے تھے۔ کیسی کیسی قربانیاں تھیں جو ایک صبحِ نو کے لیے انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے رضاکارانہ پیش کی تھیں۔ کبھی کبھی وہ حیران ہوتے کہ ان کی ایک زندگی میں کتنی ہی مختلف زندگیوں کے رنگ بھر گئے ہیں۔ اب ان کی صحت جواب دے رہی تھی آخر کار وہ 21 اگست 1944ء کو اس عالمِ فانی سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی عمر بھر کی جدوجہد رائیگاں نہیں گئی تھی۔ ان کی رحلت کے ٹھیک تین سال بعد اگست ہی کے مہینے میں ہندوستان فرنگیوں کے قبضے سے آزاد ہو گیا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی کے اس رُوپہلی چہرے کے پیچھے عبید اللہ سندھی اور ان جیسے کتنے ہی حریت پسندوں کی قربانیوں کے چراغ جل رہے ہیں۔