"SSC" (space) message & send to 7575

امرتا پریتم

راولپنڈی کے گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد میں نے ملازمت کا آغاز گورنمنٹ کالج منڈی بہاؤالدین سے کیا۔ وہ ایک خاموش سا قصبہ تھا جہاں کی زندگی سادہ اور لوگ بہت ملنسار تھے۔ یہ آج سے چار دہائیاں پہلے کی بات ہے ۔ اس بظاہر عام سے قصبے کی غیر معمولی تاریخ ہے اس کے ایک طرف مونگ کا وہ تاریخی ٹیلہ واقع ہے جہاں سکندرِ اعظم اور گجرات کے راجہ پورس کی لڑائی ہوئی تھی اور دوسری طرف چلیانوالہ کا تاریخی مقام ہے جہاں 1848ء میں انگریزوں کی فوج کو پنجابی فوج نے منہ توڑ جواب دیا تھا اور جس کے نتیجے میں فرنگی فوج کے سپہ سالار کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ منڈی بہاؤالدین کے گردونواح میں ابھی تک پرانی عمارتیں اور مندر اس زمانے کی یاد دلاتے ہیں جب یہاں ہندو ‘سکھ اور مسلمان رہتے تھے۔ جن کی اپنی اپنی عبادت گاہیں تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ منڈی بہاؤالدین میں ایک سکھ فیملی رہتی تھی راج بی بی اور اس کا خاوند کرتار سنگھ جو سکھ مذہب کا پرچارک تھا ۔ وہ کتابوں کا رسیا تھااور شاعری بھی کرتا تھا۔ یہ 1919ء کی بات ہے ۔یہ سال ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گاکہ اس سال جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ پیش آیاتھا جس میں جنرل ڈائرکے حکم پرہزاروں نہتے اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اسی سال منڈی بہاؤالدین کے چھوٹے سے قصبے میں راج بی بی اور کرتار سنگھ کے گھر میں ایک بچی نے جنم لیا۔ والدین نے اس کانام امرتاکور رکھا تھا۔ امرتا شروع سے ہی ایک مختلف بچی تھی۔ جو چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھتی اور ناانصافی پر چپ رہنے کے بجائے آواز بلند کرتی تھی۔ پنجاب کے اکثر گاؤں کے گھروں میں ایک کارنس ہوا کرتی تھی جہاں برتن ‘پلیٹیں اور گلاس ایک قطار میں سجاکر رکھے جاتے تھے۔ ننھی امرتانے دیکھا کہ اس کے گھر کی کارنس پر تین گلاس باقی سب برتنوں سے الگ ایک کونے میں رکھے ہیں۔ اس کی نانی نے اسے بتایا کہ یہ گلاس مسلمان مہمانوں کو پانی پلانے کے لیے ہیں کیوں کہ ہم انہیں ان گلاسوں میں پانی نہیں پلا سکتے جن میں ہم خود پانی پیتے ہیں۔ امرتا پریتم نے دل میں سوچا یہ تو ان گلاسوں سے ناانصافی ہے اس نے نانی سے کہا :میں انہی گلاسوں میں پانی پیوں گی جو الگ رکھے ہیں۔ جب یہ جھگڑا بڑھا اور والد کو خبر ہوئی تو اس نے امرتا کی بات سے اتفاق کیا اور پھر اس دن کے بعد سے سب گلاس اور برتن اکٹھے ہو گئے۔ امرتاکی عمر ابھی دس سال کی تھی کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اسے یوں لگا کہ وہ زندگی کی تپتی ہوئی دوپہر میں اکیلی ہے۔ اس کے سر سے والدہ کی شفقت کا سا ئبان چھن گیا ہے۔ والدہ کی وفات کے بعد وہ لاہور آگئے۔
لاہور ایک بڑا شہر تھا۔زندگی سے بھر پور۔ اب امرتا کی عمر سولہ برس کی تھی ‘اس زمانے میں لڑکیوں کی شادی جلدی کر دی جاتی تھی۔ امرتاکی شادی پریتم سنگھ سے کر دی گئی ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ منگنی اس وقت ہوئی تھی جب امرتا کی عمر صرف چار برس تھی۔ اب امرتا کور امرتا پریتم بن گئی تھی۔ اسی سال امرتاکی شاعری کی پہلی کتاب ''امرت لہراں‘‘منظرِ عام پر آئی ۔ یہ پنجابی نظموں کی کتاب تھی۔ سولہ برس کی عمر میں کسی لڑکی کی کتاب کا منظرِ عام پر آنا ایک انوکھی بات تھی۔
امرتا اور پریتم سنگھ کے گھر ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے بیٹے کا نام نوراج اور بیٹی کا نام کندلا رکھا گیا۔ پھر 1947ء کا سال آیا جب ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بہت سے خاندان بے گھر ہو گئے۔ امرتا پریتم بھی اپنے خاندان کے ساتھ پہلے ڈیرہ دون اور پھر دہلی چلی گئی۔ تقسیم کے دوران کتنے ہی لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور کتنے ہی بے گھر ہو گئے۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک روز امرتا دہلی سے واپس ڈیرہ دون جا رہی تھی‘ رات کا وقت تھا‘ٹرین کی کھڑکی سے باہر مناظر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔ کہیں درخت‘ کہیں میدان۔ رات کی تاریکی میں ہوا کا شور مل گیا تھا۔ اچانک امرتاکو معروف پنجابی شاعر وارث شاہ کا ایک مصرع یاد آگیا۔
''بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے‘‘
یہ مصرع وارث شاہ کی لافانی تحریر ''ہیر رانجھا ‘‘سے تھاجس میں وارث شاہ نے ہیر کے غم کو محسوس کر کے مجسم کر دیا تھا۔ امرتا پریتم کے ذہن میں فسادات کے دوران موت کے گھاٹ اُترنے والے کئی چہرے آ گئے ۔ ٹرین تیز رفتاری سے چل رہی تھی ۔ باہر تاریکی اور ہوا کا شور تھا اور امرتا کے ذہن میں وہ نظم اُتر رہی تھی۔ جس نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا تھا۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ کتوں قبراں وچوں بول
تے اَج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وین
اَج لکھاں دھیاں روندیاں‘ تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
یہ نظم سرحد کے دونوں طرف بسنے والے دلوں کی آواز تھی جس نے امرتا پریتم کی شہرت کو چار چاند لگا دیے ۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ سکھوں کے ایک حلقے کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ امرتانے نظم میں وارث شاہ کے بجائے گورونانک کو کیوں مخاطب نہیں کیا۔
کہتے ہیں شہرت کے ساتھ ساتھ مخالفت کے محاذ بھی کھل جاتے ہیں۔ امرتا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے کردار پر سوال اُٹھائے گئے۔ اور اس کی نظموں کو غیر اخلاقی کہا گیا۔ یہی زمانہ تھا جب پنجابی کے معروف شاعر موہن سنگھ اور امرتا پریتم کے تعلق کی باتیں ہونے لگیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ موہن سنگھ نے امرتا پر کئی نظمیں لکھی تھیں۔ اگر یہ محبت تھی بھی تو یک طرفہ۔ موہن سنگھ کی طرف سے۔ امرتاپریتم اپنی سوانح عمری ''رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ آخر ایک روز میں نے صاف صا ف موہن سنگھ کو بتا دیا۔
''موہن سنگھ جی! میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ کا احترام کرتی ہوں۔ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ موہن سنگھ نے جواب میں کچھ نہیں کہا‘ اور بعد میں ایک مختلف نظم لکھی جس میں میرے الفاظ دہرائے گئے تھے ''میں آپ کی دوست ہوں‘ میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘
اور ساتھ ہی اگلی سطر میں اُداس بھرے لہجے میں لکھا: ''میں اور کیا چاہتا ہوں‘‘
زندگی بھی عجیب تماشاہے دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کردار بدل جاتے ہیں ۔ امرتا کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ساحر سے اس کی محبت بھی یک طرفہ رہی ۔ یہ ایک شدت بھری محبت تھی۔ جس کا بیان امرتاکی سوانح عمری ''رسیدی ٹکٹ ‘‘میں جا بجا ملتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ساحر کی شاعری کی شہرت ہر طرف تھی۔ خاص کر اس کی نظم ''تاج محل‘‘ نوجوانوں میں بہت مقبول تھی۔ امرتاکی قیمتی چیزوں میں ''تاج محل ‘‘نظم بھی تھی۔ جو ساحر نے فریم کرا کے اسے دی تھی اور لاہور سے جاتے وقت امرتادوسری قیمتی چیزوں کے ہمراہ اسے اپنے ساتھ لے کر لاہور سے ہجرت کر کے ڈیرہ دون چلی گئی تھی۔ محبت میں کیسے ہم بچے بن جاتے ہیں۔ امرتا پریتم نے اپنے پاس وہ بیج سنبھال کر رکھا تھا جس کے ایک طرف ایشین رائٹرز کانفرنس اور دوسری طرف ساحر لدھیانوی لکھا تھا۔ اس کانفرنس میں ساحر نے اپنا بیج اُتار کر امرتا کے کوٹ اور امرتا کا بیج اُتار کر اپنے کوٹ پر لگا لیا تھا ۔کانفرنس ختم ہو گئی لیکن وہ بیج امرتا نے اپنی قیمتی چیزوں کے ہمراہ رکھ لیا۔ تنہائی کے لمحوں میں امرتا جب بھی اس بیج کو دیکھتی اسے وہ روشن اور مہربان دن یاد آ جاتا اور اس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں