پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کی تاریخ غیر مشاورتی فیصلوں سے عبارت ہے ۔ ان فیصلوں کے پیچھے نہ توپیشہ ورانہ منصوبہ بندی ہوتی ہے اور نہ ہی متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ ایسے غیر دانش مندانہ فیصلوں سے تعلیمی عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کی ایک مثال 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹوکانجی اور مشنری تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ تھا۔ اس اچانک فیصلے نے پاکستان میں تعلیمی نظام کے تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا ۔پاکستان کے چندمشہور تعلیمی ادارے اس پالیسی کا شکار ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا معیارزوال پذیر ہوتا گیا۔ غیر مشاورتی تعلیمی فیصلے کی ایک اور مثال جنرل ضیاالحق کے دورِ حکومت کی ہے۔ صدر ضیاالحق نے79 19ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے تمام سکولوں میں ذریعۂ تعلیم کے لیے اردو کا استعمال لازمی قراردے دیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حکم کو انگریزی میڈیم سکولوںکو بھی نافذ کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔ ان سکولوں سے کہا گیاکہ وہ انگلش میڈیم کی اصطلاح استعمال کرنے سے باز رہیں۔ اس اچانک اور آمرانہ فیصلے سے تعلیمی حلقے ششدر رہ گئے۔ یہ ایک غیر فطری اور غیر دانش مندانہ فیصلہ تھا جس کی تعلیمی حلقوں میں شدید مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آخر کاراس فیصلے کو واپس لینا پڑا۔
بد قسمتی سے ہمارے فیصلہ ساز تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے اورایک کے بعد ایک غیر دانش مندانہ فیصلے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح کے ایک مثال پنجاب میں شہباز شریف کے دور میں دانش سکولوں کے قیام کا فیصلہ تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کا تعلیم نظام پہلے ہی کئی طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔دانش سکولوں کے قیام سے پاکستان کے پہلے سے بٹے ہوئے تعلیمی نظام میں عدم مساوات کی ایک اور پرت کو شامل کر لیا گیا۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر پنجاب کے کچھ علاقوں میں دانش سکول بنائے گئے ان کی عمارات پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن یہ ایک سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کاش یہ اربوں روپے کی رقم دانش سکولوں کی عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرنے کے بجائے عام سرکاری سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے پر صرف کی جاتی۔
غیر مشارتی اور غیر دانشمندانہ فیصلے کی تازہ ترین‘مثال ہائر ایجوکیشن کمیشن کا پی ایچ ڈی کی ایک نئی پالیسی کا اچانک اعلان ہے۔ اس اعلان کے حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آخری لمحے تک یونیورسٹیوں کو اس پالیسی کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا ۔ نوٹیفکیشن پر لکھی جانے والی تاریخ 19 جنوری 2021ء تھی اور یونیورسٹیوں کو یکم جنوری 2021ء سے اس پالیسی پر عمل درآمد کرنا تھا۔اس پالیسی کے ساتھ ایچ ای سی کی طرف سے سخت انتباہ بھی کیا گیا تھا کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں کی تعمیل کرنے کی خلاف ورزی یا ناکامی کسی ضابطے کی کارروائی کا باعث بن سکتی ہے۔ تعلیمی حلقے یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایچ ای سی کیسے یہ توقع کر سکتی ہے کہ پیشگی اطلاع اور ضروری تیاری کے بغیر یہ پالیسی یونیورسٹیوں میں لاگو ہو جائے گی۔ یہ غیر مشاورتی اور غیر دانش مندانہ فیصلے کی ایک عمدہ مثال ہے جہاں سٹیک ہولڈرز کو مشاورت کے قابل نہیں سمجھاگیا۔
آئیے! پی ایچ ڈی کی نئی پالیسی میں مجوزہ اہم تبدیلیاں دیکھیں۔
پہلی بڑی تبدیلی پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے کے لیے درکارتعلیمی سالوں کی ہے۔ پرانی پالیسی میں پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے درخواست دینے کے لیے 18 سال کی تعلیم لازمی تھی۔ یہ شرط دنیا کی بیشتر یونیورسٹیوں کے مطابق تھی۔ پرانی پی ایچ ڈی پالیسی میں طلبہ پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے درخواست دینے سے پہلے اپنا ایم فل یا ایم ایس کرتے تھے ۔ اس طرح انہیں ریسرچ کے مضامین پڑھنے اور تحقیقی مقالہ لکھنے کا موقع ملتا تھا ۔ یہ تعلیمی پس منظر پی ایچ ڈی پروگرا م میں مدد گار ہوتا تھا۔ نئی پالیسی کے مطابق بی ایس ڈگری ہولڈرز 16 سال کی تعلیم کے ساتھ پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لے سکتے ہیں۔نئی پی ایچ ڈی پالیسی کے مطابق عملی طور پر ایم ایس اور ایم فل کے پروگرام کو بے کار بنا دیا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ غیر حقیقت پسندانہ خواہش ہے کہ محض سولہ برس کی تعلیم کے ساتھ بی ایس ڈگری ہولڈرز پی ایچ ڈی پروگرامز کی توقعات پر پورے اتر سکتے ہیں۔ نئی پی ایچ ڈی پالیسی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ بی ایس ڈگری ہولڈرز کو اکثرغیر ملکی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لینے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی جہاں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے کے لیے 18 سال کی تعلیم لازمی ہے۔
بی ایس ڈگری ہولڈر جو پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں ان کو 48 کریڈٹ آورز کا کورس ورک کرنا ہوگا۔ امیدوار کے کسی دوسرے ڈسپلن سے آنے کی صورت میں ان کریڈٹ آورز کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ پی ایچ ڈی پروگرام میں اس طرح کے طویل کورس کا کام ایک عام رواج نہیں ہے۔ پرانی پی ایچ ڈی پالیسی میں پوری توجہ تحقیق پر مرکوز تھی اور کورس کا کام صرف 18کریڈٹ آورز تک ہی محدود تھا۔نئی پالیسی کے مطابق پی ایچ ڈی پروگرام کسی ریسرچ پروگرام کے بجائے ایک تدریسی پروگرام میں بدل جائے گا۔نئی پی ایچ ڈی پالیسی میں مجوزہ پی ایچ ڈی پروگرام کی مدت تین سے آٹھ سال ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ تین برس میں سکالرز کیسے 48 کریڈٹ آورزکورسز پڑھنے کے علاوہ تحقیق پر مبنی مقالہ بھی لکھ سکتے ہیں۔نئی پی ایچ ڈی پالیسی میں تجویز کردہ ایک اور تبدیلی یہ ہے کہ پی ایچ ڈی میں ایک خاص ڈسپلن میں داخلے کے لیے بی ایس بھی اسی ڈسپلن میں ہو۔اس مجوزہ تبدیلی سے ایک طرف توپی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے درخواست دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوگااور دوسری طرف پی ایچ ڈی پروگراموں کا معیارمتاثر ہوگا۔
نئی پی ایچ ڈی پالیسی میںایک اور اہم تبدیلی مقالہ کی evaluation کے بارے میں ہے۔ پچھلی پالیسی کے برخلاف جس کیلئے تکنیکی طور پر ترقی یافتہ بیرونی ممالک کے ماہرین سے دو مثبت رپورٹس کی ضرورت تھی نئی پی ایچ ڈی پالیسی میں evaluation کیلئے مقالہ بیرونِ ملک بھیجنا اب لازمی نہیں ہوگا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق مقالہ کیevaluation پاکستان میں مقیم دو ماہرین کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور اگر سکالر ایک X کیٹیگری کے جریدے میں اپنا تحقیقی مقالہ شائع کرنے کا انتظام کرتا ہے تو مقالہ کی evaluation صرف ایک ماہرکرسکتا ہے جس کا تعلق پاکستان سے بھی ہوسکتا ہے۔ نئی پی ایچ ڈی پالیسی میں مجوزہ تبدیلیاں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے بجائے اس میں مزیدتنزلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ہائر ایجوکیشن کیشن کی طرف سے جنوری میں یہ اعلان کیا گیا تھاکہ یہ پالیسی فوری طور پرنافذالعمل ہے۔اس فیصلے پرجامعات کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا۔ ماہرینِ تعلیم نے اس پالیسی کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کی لیکن ایچ ای سی کے اربابِ اختیار نے چپ سادھ لی۔ غیر یقینی کی یہ کیفیت کئی ماہ جاری رہی ۔ آخرکار سات ماہ گزر جانے کے بعد15 جولائی کو اچانک گہری نیند میں سوئی ہوئی‘ایچ ای سی نے انگڑائی لی اور ایک مختصر نوٹیفکیشن کے ذریعے جامعات کو بتایا کی پی ایچ ڈی کی پالیسی کا نفاذ 2022ء تک مؤخر کردیا گیا ہے۔ ایچ ای سی کے حکام کو معلوم ہونا چاہیے کہ دو سال بعد بھی یہ پالیسی اتنی ہی کمزور ہو گی جتنی کہ اب ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ستر برس گزرنے کے باجود تاریخ کا یہ اہم سبق نہیں سیکھا کہ غیر مشاورتی تعلیمی فیصلے تعلیمی عمل کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے تعطل کا شکار کر دیتے ہیں۔