"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم کی سیاست

تعلیم کا قدامت پسند تصور علم کے جمود پر یقین رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تعلیم کا بنیادی مقصد جامد علم ‘ مہارتیں اور رویے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی کرنا ہے۔ تعلیم کے اس قدامت پسند تصور کی عمارت چند بنیادی مفروضوں پر کھڑی ہے ۔ ان مفروضوں کے مطابق طلبا محض سادہ تختی یا خالی برتن کی طرح ہوتے ہیں اور اساتذہ کا کام ان سادہ تختیوں پر لکھنا اور ان خالی برتنوں کو جامد علم سے بھرنا ہے۔تعلیم کے اس تصور میں طلبا کا کر دار غیر فعال (Passive) ہوتا ہے۔ وہ کلاس روم میں جو معلومات حاصل کرتے ہیں انہیں امتحانی پرچے میں دہرا کر اچھے نمبر حاصل کرلیتے ہیں۔تعلیم کے اس تصور میں طلبا کو تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پالو فریئر ے اسے ''علم کا بینکاری تصور‘‘ کہتاہے ۔
تعلیم کے اس قدامت پسند تصور میں سکول تین اہم کام سرا نجام دیتے ہیں: سب سے پہلے وہ دقیانوسی تصورات کی تعمیر میں حصہ دار ہوتے ہیں جو بعض غالب گروہوں کے حق میں ہیں۔ دوسرا‘ وہ ان دقیانوسی تصورات کو نوجوان نسل میں منتقل کر کے انہیں برقرار رکھنے میں مصروف ہیں۔ تیسرا‘ ایک اہم سماجی ادارہ ہونے کے ناتے وہ ان دقیانوسی تصورات کی توثیق کرتے اور انہیں قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک میں مرکزی دھارے (Main Stream) کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا قدامت پسند تصور رائج ہے جہاں یادداشت پر مبنی نظام Assessment کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے او ر پھر یہ امتحانی نظام تدریسی طریقوں کا تعین کرتا ہے۔ تعلیم کے اس رجعت پسندانہ تصور میں تعلیم کو غیر فعال (Passive) اور غیر سیاسی(Apolitical) سمجھا جاتا ہے۔
کیا تعلیم ایک غیر فعال(Passive)اور غیر جانبدار (Objective)تصور ہے؟ کیا یہ غیر سیاسی (Apolitical)ہے؟ انتونیو گرامچی (Antonio Gramsci)نے اپنی بنیادی کتاب ''جیل نوٹ بکس‘‘ (Jail Notebooks)میں تعلیم کے غیر فعال‘ غیر جانبدار‘ جامد اور غیر سیاسی اور دقیانوسی تصور کو رد کیا ہے۔ گرامچی کے نزدیک تعلیم ایک متحرک (Dynamic) ‘انتہائی سیاسی اور ہمیشہ بدلتا ہوا سماجی تصورہے۔ تعلیم سول سوسائٹی کے ایک آلے کے طور پر شناخت کی تعمیر (Construction of identity) اور ذہنوں کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تعلیم کے قدامت پسند تصور میں طلبا کا کردار غیر فعال ہوتا ہے۔ وہ کلاس روم میں جو بھی معلومات حاصل کرتے ہیں وہ امتحانی پرچے میں دہرا کر اچھے نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم اس قدامت پسند تعلیم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس عمل میں طلبا کو تنقیدی طور پر سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ معروف ماہرِ تعلیم پالو فریئر ے نے اسے علم کا بینکاری تصور قرار دیا ہے جہاں طلبا ڈپازٹری (Depository)بن جاتے ہیں اور اساتذہ ڈپازٹر(Depositor)کے طور پر کام کرتے ہیں۔تعلیم کے اس تصور میں طلبا کا کردار سوچنے کی مہارت استعمال کیے بغیر ذخائر وصول کرنے اور ذخیرہ کرنے تک محدود ہوتاہے۔
ڈسکورس (Discourse)کی مدد سے شناخت کیسے بنتی ہے؟ فرانسیسی دانشور فوکو (Foucault) طاقت‘ ڈسکورس اور سماجی حقیقت کے مابین سہ رخی تعلق کی نشاندہی کرکے اس کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کے بقول‘ طاقتور گروہ ڈسکورس کی تشکیل کرتے ہیں‘ اسے جواز فراہم کرتے ہیں اور اسے مقبول بنانے میں اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں۔ یہ تشکیل کردہ ڈسکورس (Constructed Discourse)ایک خاص قسم کی سماجی حقیقت کو جنم دیتاہے جو معاشرے کے طاقتور گروہوں کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔ جواباًیہ طاقتور گروہ ایک مخصوص تعلیمی نظام کی حمایت کرتے ہیں جو ان کے عقائد‘ اقدار اور اعمال کی توثیق کرتا ہے۔
پوسٹ مین اپنے مضمون ''خواندگی کی سیاست‘‘ (Politics of Reading) میں لکھتا ہے کہ تمام تعلیمی طریقے اس لحاظ سے سیاسی ہیں کہ وہ ایک ہی طرح کے انسان پیدا کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ پوسٹ مین کے مطابق کچھ معاشروں میں خواندگی کا واحد مقصد ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہے جو قواعد‘ ہدایات یا احکامات پر عمل پیرا ہو کر زیادہ طاقتور کے ایجنڈے کو مزید مضبوط کر سکیں۔ اس قسم کی خواندگی میں سوچنے کی مہارت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ تمام سامراجی طاقتوں نے تعلیم کو دوسری قوموںپر تسلط حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی معروف کتاب Orientalism میں بتایا ہے کہ کس طرح مغرب نے مشرق کا تصور اپنے تعصب سے تعمیر کیا۔ یہ تعمیر ڈسکورس کی مدد سے کی گئی ۔ ڈسکورس کی مدد سے ہی زور آور اقوام اپنے لیے اعلیٰ اور کمزور اقوام کیلئے ادنیٰ شناختیں تشکیل دیتی ہیں اور یہ باور کراتی ہیں کہ ان کا رہن سہن‘ ان کی زبان‘ ان کا ادب اور ان کا نظام تعلیم پسماندہ گروہوں سے بہتر ہے۔
ایوان ایلیچ (Ivan Illich) نے اپنی معروف کتاب ''ڈیسکولنگ سوسائٹی‘‘ (Deschooling Society) میں تعلیمی اداروں میں رائج تعلیمی عمل پر شدید تنقید کی ہے‘ جہاں غالب تدریسی طریقہ کار Transmission based Pedagogy ہے جو معاشرے کو ایکSchooled Society میں بدل دیتا ہے جہاں تنقیدی سوچ اپنی جگہ نہیں پاتی۔مائیکل ایپل (Michael Apple)نے اپنی کتاب ''نصاب اور نظریہ‘‘ (Curriculum and Ideology) میں سکولوں کو معاشرے میں عدم مساوات جاری رکھنے کا مرکز سمجھتاہے۔ مائیکل ایپل کے مطابق تعلیمی ادارے نہ صرف طلبا کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ معنی کو بھی اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ کئی ماہرینِ تعلیم نے تعلیم کے تنقیدی تصور (Critical Paradigm of Education)میں تعلیم کو طاقت اور سیاست سے جڑے ایک انتہائی متحرک تصورکے طور پر لیا ہے۔ تعلیم کے تنقیدی تصور میں تعلیم کا جوہر تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی افراد کی بہتری اور معاشرے میں طریقوں کو بہتر بنانے (Improved Practices) کیلئے ہے۔تعلیم کے اس تصورمیں تعلیم کا مقصد ترقی ہے۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ ترقی کا تصور صرف معاشی خوشحالی تک محدود نہیں ہے۔ جیسا کہ امرتیہ سین نے وضاحت کی۔ترقی کو آزادی کے لحاظ سے سمجھا جانا چاہیے ‘ سوچنے کی آزادی‘ اظہارِ رائے کی آزادی اور انتخاب کی آزادی۔ اس طرح کے نتائج کیلئے ہمیں تعلیم کی قدامت پسندانہ تعریف پرجو کہ Transmission based Pedagogy کے گرد گھومتی ہے‘ نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں تبدیلی کے ایک آلے کے طور پر تعلیم کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیم کے اس مقصد کو سمجھنے کے لیے جو انفرادی زندگیوں اور معاشرے کی تبدیلی پر مرکوز ہے‘ ہمیں درس و تدریس کے طریقوں سے دور اور تنقیدی تدریس کے استعمال کی طرف جانا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے طلبااور اساتذہ کے لیے ایک زیادہ فعال کردار اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے وہ علم جو ہماری زندگی سے جڑا ہوا ہو اور بڑے پیمانے پر انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو۔ یہ اسی طرح ممکن ہے اگر ہم ایک ایسا امتحانی نظام تشکیل دیں جو تنقیدی سوچ (Critical Thinking)اور تجزیاتی مہارتوں (Analytical Skills)کی حوصلہ افزائی کرے۔ تب ہی ہم ایک ایسے تعلیمی نظام کی تعمیرکر سکتے ہیں جو طلبا کی تربیت اس طرح کرے کہ وہ رہٹ پر گھومنے والے بند آنکھوں والے بیل بننے کے بجائے تنقیدی سوچ کی مہارت سے لیس ہوں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں فعال اور معنی خیز کردار ادا کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں