بچپن کے دنوں کو یاد کروں تو والد محترم کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ بہت سی خوبیاں ان کی شخصیت میں اکٹھی ہوگئی تھیں شاعری، خطابت، حکمت اور کتابت۔ اس زمانے میں یہی سکالرشپ کے بنیادی اجزا تھے۔ والد صاحب کی خوش نویسی ان کی شخصیت کی خاص پہچان تھی۔ جب لکھتے‘ یوں لگتا کاغذ پر تصویریں بن رہی ہیں۔ خوش نویسی کا یہ سرمایہ ہم بہن بھائیوں کوورثے میں ملا۔ والد صاحب کو خوش نویسی کی دولت کہاں سے ملی‘ اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ اکثر اس کا احوال ہمارے والد صاحب ہمیں فخر سے بتایا کرتے تھے۔ ان کی خوش نویسی کا رازان کے استاد عبدالمجید پرویں رقم تھے۔ پرویں رقم اپنے زمانے کے معروف ترین خوش نویس تھے‘ جن کی شاگردی میں انہوں نے اس فن کو سیکھنے میں کئی برس صرف کئے۔ پرویں رقم کا نام لیتے ہوئے ان کے چہرے پر عقیدت اور فخر کے رنگ ایک ساتھ جھلملاتے۔
وہ اکثر لاہور میں ان برسوں کی داستان سناتے جب وہ پرویں رقم کے پاس لاہور میں رہتے تھے اور فنِ خوش نویسی کے مرحلے عبور کررہے تھے۔ وہ بتایا کرتے کہ وہ ان کے لڑکپن کا زمانہ تھا اور اس وقت کا لاہور یوں تھا جیسے فرانس کا شہر پیرس۔ لاہور برِصغیر میں ادب، ثقافت، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کا مرکز تھا۔ ادب اور آرٹ میں جوبھی تحریکیں اٹھتیں ان کا منبع لاہور ہوتا۔ لاہور کتابوں کی اشاعت کا بھی سب سے بڑا مرکزتھا۔ کیا کیا نابغۂ روزگار لوگ تھے جو لاہور کے گلی کوچوں میں بستے تھے۔ کیسے کیسے مراکز تھے جہاں اہل دانش بیٹھا کرتے اور دنیا جہاں کے موضوعات پرگفتگو ہوتی۔ لاہور میں دوسرے فنون کی طرح کتابت کے بھی کئی مراکز تھے جنہیں بیٹھکیں کہتے تھے۔ انہیں بیٹھکوں میں ایک عبدالمجید پرویں رقم کی تھی جہاں دنیائے کتابت کا آفتاب رہتا تھا جس نے خطِ نستعلیق کو فن کی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اس میں نت نئی جدتیں پیدا کرکے خطِ نستعلیق کو چار چاند لگا دیے۔ پرویں رقم کون تھے؟ وہ کیسے خوش نویسی کے میدان کے شہسوار بنے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ان کا خاندانی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ خوش نویسی کا فن ان کے خاندان میں پشت در پشت چلا آ رہا تھا۔ اُن کے دادا، والد اور بھائی بھی خوشنویس تھے۔ یوں خوش نویسی کی روایت اس خاندان کے لہو میں شامل تھی۔ پرویں رقم اسی خاندان کے وارث تھے۔ یوں وہ خوش نویسی کے ا سرارورموز سے بخوبی آگاہ تھے۔ پرویں رقم کے خلاق ذہن نے خوش نویسی کے فن کو مزید نکھارنے اور اجالنے کے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی ان خوابوں میں رنگ بھرنے میں صرف کردی۔ پھر ایک دن ایسا آیاکہ یہ خوشنما رنگ مہکنے لگے اورہر طرف ان کے نام کا چرچا ہونے لگا۔ لاہور کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں اس نوجوان خطاط کا نام گونجنے لگا جس نے خوشنویسی کے فن کو ایک نئی معراج عطا کی تھی۔ اس زمانے میں غلام رسول مہر دنیائے صحافت کا ایک معتبر نام تھے۔ انہوں نے نوجوان خوشنویس عبدالمجید کیلئے پرویں رقم کا لقب تجویز کیا۔ کہتے ہیں کچھ ناموں کا اثر انسانوں کی شخصیت پراثر انداز ہوتا ہے۔ پروین بھی ایک ایسا ہی نام تھا۔ پروین کا مطلب ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ ستارے جو آسماں کی بلندیوں پر جھلملاتے ہیں۔ ستارے جو روشنی کے استعارے ہوتے ہیں۔ عبدالمجید پرویں رقم بھی اپنے نام کی طرح شہرت کی بلندیوں پر پہنچے اور ناموری کے آسمان پر ستاروں کی طرح جگمگاتے رہے۔
وہ بتایا کرتے کہ پرویں رقم صرف خوش نویس ہی نہیں ایک صاحب عمل مسلمان تھے۔ وہ تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ وہ بلاناغہ برِصغیر کے مایہ ناز بزرگ علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر جاتے اور وہاں باوضو بیٹھ کر ذکر میں مصروف رہتے۔ داتا گنج بخش سے انہیں خاص عقیدت تھی۔ یہاں کے ماحول میں انہیں خاص سکون ملتا تھا۔ کیسا اتفاق ہے کہ داتا گنج کے لوح مزار پرتحریر ''مرکز تجلیات: عبدالمجید پرویں رقم کے قلم کا اعجاز ہے۔ یوں پرویں رقم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی داتا گنج کے مزار میں ان کی موجودگی کا احساس قائم ہے۔
والد صاحب ہمیں اکثر پرویں رقم کی شاگردی میں بِتائے ہوئے دنوں کی کہانی سناتے۔ ان کی شخصیت اور فن کے گوشوں پر بات کرتے۔ وہ بتایا کرتے کہ پرویں رقم کی تحریروں میں قلم کے دائرے اتنے مکمل ہوتے کہ یوں لگتا جیسے کسی نے پرکار سے یہ دائرے بنائے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فنِ خوشنویسی کو ایک بھرپور تخلیقی عمل بنا دیا تھا۔ وہ کوئی لفظ ایک بار لکھتے تو کوشش ہوتی کہ کسی جگہ پر قلم دوبارہ نہ لگایا جائے بالکل اس طرح جیسے ایک ماہر فنکار اپنی بنائی ہوئی تصویر پر دوبارہ مُوئے قلم کا استعمال اپنے فن کی ہتک سمجھتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شہرت کے آسمان پر علامہ اقبال کی شاعری کا آفتاب چمک رہا تھااور برصغیر میں ان کی شاعری کا چرچا گھر گھر تھا۔ تب اپنی کتابوں کی کتابت کیلئے علامہ اقبال کی نگاہِ انتخاب لاہور کے نوجوان خوش نویس عبدالمجید پرویں رقم پر پڑی۔ یہ نوجوان پرویں رقم کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ والد صاحب ہمیں بتاتے تھے کہ ایک بار ان کے استاد پرویں رقم نے علامہ اقبال کی کتاب کا پروف دکھانے کیلئے انہیں علامہ صاحب کے پاس بھیجا۔ والد صاحب کے ذہن میں علامہ اقبال کا ایک دیومالائی تصور تھا۔ وہ اقبال کی کوٹھی پر پہنچے تو چوکیدار نے ایک چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں‘ میں وہاں پہنچا تو دیکھا علامہ اقبال ایک بنیان اور دھوتی میں ملبوس ایک تکیے کا سہارا لئے چارپائی پر نیم دراز تھے اوراُن کے سامنے حقہ رکھا تھا۔ یہ منظر آخردم تک والد صاحب کے ساتھ رہا۔ وہ ہمیں اکثر یہ واقعہ سناتے اورکہتے کہ ان کی زندگی میں یہ تابندہ لمحہ پرویں رقم کی وجہ سے آیا۔ علامہ اقبال کی شاعری اورپرویں رقم کی خوش نویسی نے مل کر اقبال کی کتابوں کے لفظوں کو زندہ کردیا۔ اقبال شاعری کے بارے میں حساس تھے اور چاہتے تھے کہ اس کی پیشکش بھی دلآویز ہو۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پرویں رقم کے دستِ ہنر مند کے ہمیشہ معترف رہے۔ پرویں رقم کی خوش نویسی کے قصے دورونزدیک پھیل گئے تھے۔ کام کی بہتات تھی لیکن پرویں رقم صرف منتخب کام کرتے۔ ان کے کام کرنے کے اوقات مقرر تھے۔ وہ مقدار سے زیادہ معیار کے قائل تھے۔ ایک دن انہیں یوں محسوس ہواکہ خوش نویسی میں ان کا دل نہیں لگ رہا۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ سے وہ کتابت ترک کردیں گے۔ ا س طرح کے لمحات ہر فنکار کی زندگی میں آتے رہتے ہیں جن کی وجوہات کا صرف انہیں علم ہوتا ہے۔ جب پرویں رقم کے اس فیصلے کا علم علامہ اقبال کو ہوا تو وہ دھک سے رہ گئے۔ تب انہوں نے پرویں رقم کو کہلا بھیجاکہ اگر وہ کتابت چھوڑیں گے تو میں شاعری چھوڑ دوں گا۔ یوں پرویں رقم کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا اور انہوں نے دوبارہ خوش نویسی کا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں چھوڑا تھا۔
کہتے ہیں شہابِ ثاقب کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ وہ کچھ دیر کیلئے آسمان پر نمودار ہوتا ہے اسے روشنیوں میں نہلا دیتا ہے اور پھر چھپ جاتا ہے۔ پرویں رقم کی زندگی بھی شہابِ ثاقب کی طرح تھی۔ مختصر اور روشن۔ وہ اپریل کی کوئی تاریخ تھی اور 1946 کا سال‘ جب آسمانِ خوش نویسی کا یہ شہابِ ثاقب روشنی بکھیرتا ہوا ہمیشہ کیلئے خلاؤں میں گم ہو گیا۔