سامراجی طاقتوں کی حکمت عملی میں بنیادی نکتہ مفتوح قوموں کی شناخت کو دھندلانا ہوتا ہے۔ حکومت کے تمام ذرائع کے استعمال سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے پیغام کو راسخ کیا جاتا ہے۔ فاتح قوم کی شناخت کو اجالا اور سنوارا جاتا ہے اور مفتوح قوم کی شناخت کو ندامت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اس مسلسل اور متواتر پیغام کی اثرپذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مفتوح قومیں اس شناخت کو حقیقی سمجھنا شروع کردیتی ہیں جو فاتح قوم ان کیلئے تشکیل دیتی ہے۔ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران ایک پیغام تواتر سے ہمیں ذہن نشین کرایا گیا کہ انگریزوں کے راج سے پہلے ہندوستان میں گنوار لوگ بستے تھے اور یہاں تعلیم کا کوئی نظام نہیں تھا۔ میں نے اپنے پچھلے کالم 'برطانوی راج اور دیسی تعلیم‘ میں لکھا تھا کہ کیسے ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ Stereotype پھیلائی گئی کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی برکات میں سے ایک نعمت انگریزوں کا دیا ہوا تعلیمی نظام ہے اور یہ کہ اس سے پہلے ہندوستان میں جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہاں تعلیم کا کوئی مؤثر نظام نہیں تھا‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے پہلے مدراس‘ بمبئی اور بنگال میں مقامی سکولوں کا ایک مؤثر اور مضبوط نیٹ ورک موجود تھا۔
اس کالم میں ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی دخل اندازی سے پہلے کے پنجاب میں رائج تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پنجاب ہندوستان کے دوسرے حصوں سے مختلف تھا کیونکہ اس پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط طویل عرصے کے بعد 1849 میں ہوا۔ کئی سو برس پیشتر بھی پنجاب میں تعلیم کے کئی ذرائع کام کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک تعلیم کا ذاتی نظام تھا‘ جس میں صاحب حیثیت خاندان اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے انہیں اپنے گھروں میں تعلیم دلاتے تھے جس کیلئے انہوں نے اتالیق مقرر کیے ہوئے تھے۔ یہ اتالیق مختلف مضامین اور زبانیں پڑھانے کے علاوہ اپنے شاگردوں کو آداب و اطوار بھی سکھاتے تھے۔ اس طرح سکولوں میں جانے والے بچوں کے علاوہ طلبا کی ایک بڑی تعداد گھروں میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ پنجاب میں تعلیم اور اساتذہ کے لیے تعظیم اور ادب کا کلچر تھا۔ گاؤں کے متمول لوگ اساتذہ اور سکولوں کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ کچھ سکولوں میں بچے بچیاں اکٹھے پڑھتے تھے لیکن بعض جگہوں پر لڑکیوں اور لڑکوں کے تعلیمی ادارے مختلف تھے۔ پنجاب میں تعلیمی نظام کا سب سے جامع جائزہ معروف ماہر تعلیم اور لسانیات لائٹنر(Leitner) نے لیا ہے۔ لائٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی پرنسپل تھے اور پنجاب یونیورسٹی کے قیام میں بھی ان کا بنیادی کردار تھا۔ ان کی کتاب History of Indigenous education in Punjab پنجاب میں رائج مقامی تعلیمی نظام کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ کتاب میں ایک جامع سروے کے ذریعے معلومات حاصل کی گئی ہیں جن میں سکولوں کے مقام، ہیڈ ماسٹر کی اہلیت، اساتذہ کی تعداد، اساتذہ کی ماہانہ آمدنی، سکولوں میں پڑھائے جانے والے مضامین اور سکولوں میں استعمال ہونے والی کتابوں کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے پنجاب میں رائج تعلیمی نظام عوام کے ساتھ ثقافتی اور سماجی رشتوں میں بندھا ہوا تھا۔ لائٹنر کے مطابق ''یہاں کوئی مسجد مندر یا دھرم شالہ ایسا نہ تھا جس کے ساتھ کوئی مدرسہ یا سکول نہیں تھا۔ ان مدرسوں میں طلبا زیادہ تر مذہبی تعلیم کے لیے آتے تھے۔ یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب کے تعلیمی نظام میں خاندان‘ سکول اور مذہب کے سماجی اداروں میں قریبی ربط تھا۔ اس زمانے میں سکولوں کی نوعیت کیا تھی؟ وہ کیسے کام کیا کرتے تھے؟ سکولوں کی درجہ بندی میں زبان کا کیا کردار تھا؟ کیا مذہب نے سکولوں کو الگ کرنے میں کردار ادا کیا؟ ان سوالات کے جوابات سکولوں کے مختلف اقسام (categories) کا مطالعہ کرنے سے مل سکتے ہیں جس کے لیے لائٹنر کی کتاب سے مدد لی جا سکتی ہے۔
لائٹنر نے اپنی کتاب میں پنجاب کے سکولوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ سکولوں کی ایک قسم مکتب کہلاتی تھی جو بنیادی طور پر مسلمانوں کے ادارے تھے‘ جن میں فارسی کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ مکتب دوسرے فرقوں کے طلبا کے لیے بھی کھلے ہوئے تھے۔ دوسری قسم مدرسہ کی تھی۔ مدارس میں عربی زبان ذریعہ تعلیم تھی۔ یہاں پر بنیادی تعلیم سے اعلیٰ سطح تک تعلیم دی جاتی تھی۔ سکولوں کی تیسری قسم پاٹھ شالہ تھی جہاں ذریعہ تعلیم سنسکرت تھی۔ یہاں بھی بنیادی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک تعلیم دی جاتی تھی۔ سکولوں کی چوتھی قسم گورمکھی سکول تھے جہاں گورمکھی ذریعہ تعلیم تھی۔ ان سکولوں میں زیادہ تر سکھ بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کیسے مذہب، زبان اور مقاصد نے ان سکولوں کو تقسیم کر رکھا تھا۔ اسی طرح مختلف زبانیں مثلاً فارسی، اردو، سنسکرت اور گورمکھی مختلف سماجی گروہوں کے لیے شناخت کا ذریعہ بن گئی تھیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے، پنجاب میں کمیونٹی کی سطح پر تعلیم کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ اس وقت سکولوں میں جانے والے طلبا کی تعداد کتنی تھی؟ اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لائٹنر کے مطابق طلبا کی کم سے کم تعداد تین لاکھ تیس(3,30,000) ہو گی۔ ان طلبا کو لکھنا، پڑھنا اور حساب سکھایا جاتا تھا۔ کچھ سکول صرف بنیادی تعلیم پر توجہ دیتے تھے اور کچھ اعلیٰ تعلیم دیتے تھے۔ ذرائع تعلیم میں فارسی، سنسکرت اور گورمکھی زبانیں شامل تھیں۔
لاہور تدریسی اداروں کے حوالے سے تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ 1852 کی سٹیٹمنٹ آف سیٹلمنٹ رپورٹ (Statement of Settlement Report) کے مطابق ضلع لاہور میں 1860 سکول تھے۔ لائٹنر کے مطابق صرف لاہور میں 576 سکول تھے جن میں 4225 طلبا زیر تعلیم تھے۔ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی سکول قائم تھے۔ سٹیٹمنٹ آف سیٹلمنٹ رپورٹ (1852) کے مطابق ہوشیار پور کے ضلع میں 1965 کی مردانہ آبادی کے لیے ایک سکول تھا۔ ان سکولوں میں نصاب اور درسی کتب سکول کی نوعیت اور طلبا کی ذہنی درجہ بندی کے مطابق ہوتی۔
لائٹنر اپنی کتاب میں پنجاب کے سکولوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر دیوبندکے شعبہ عربی میں گرامر، ادب، علم البیان، فلسفہ، فلکیات، قانون، منطق، ریاضی، اور جیومیٹری پڑھائے جاتے تھے۔
لائٹنر کی کتاب اس غلط فہمی کا مدلل جواب ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں جہالت کی تاریکی تھی اور یہاں سب لوگ گنوار بستے تھے۔ یہ کتاب سائنسی طریقہ کار کے مطابق اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق نتائج پیش کرتی ہے اور صاف لفظوں میں بتاتی ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان آنے سے پہلے بھی یہاں سکولوں کا ایک موثر اور مضبوط نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔ ان سکولوں کی فیس برائے نام تھی اور تعلیم عام لوگوں کو گاؤں کی سطح پر دستیاب تھی۔ سکولوں میں مختلف زبانوں میں مضامین پڑھائے جاتے تھے اور نسلی گروہوں کے لیے علیحدہ علیحدہ سکول تھے۔ ان سکولوں میں رائج نصاب کا مقصد طلبا کو علم، مہارت اور اقدار کی تعلیم دینا تھا۔