"SSC" (space) message & send to 7575

مانچسٹر ، بارش اور میں …(آخری حصہ)

میں ہاسٹل کے کمرے سے نکل کر بارش کی پھوار میں بھیگنے کے لیے آکسفورڈ سٹریٹ پر آ گیا۔ مانچسٹر کی بارشیں اب میری زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔ مانچسٹر کی آکسفورڈ سٹریٹ پر بے مقصد گھوتے ہوئے اچانک مجھے سعدیہ کا خیال آیا۔ اس کا دیا ہو پتہ میرے پاس تھا۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ وِٹ ورتھ پارک میں اکادکا لوگ چوبی بنچوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ وِم سلو روڈ پرچلتے ہوئے میں دعاکر رہاتھا کہ سعدیہ گھر پر مل جائے۔ میں نے گھنٹی بجائی۔ ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ سعدیہ کا پوچھنے پر اس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے بڑھیا سے ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا ہے۔ میں نے دستک دی۔ 'کم اِن‘ اندر سے آواز آئی۔ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سعدیہ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں حیرت کی ایک لہر جاگی‘ پھر اس نے کمرے کی بے ترتیبی کو دیکھا اور جھینپتے ہوئے بولی: معاف کیجئے دراصل ہر اتوار کمرے کی صفائی کرتی ہوں‘ آج ذرا دیر ہوگئی۔ میں ایک کرسی پربیٹھ گیا۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا، مجھے یوں لگا جیسے لیک ڈسٹرکٹس کے پانیوں میں شفق اترآئی ہو۔ اس کی آنکھوں میں سرخی نمایاں تھی۔ میں نے کہا: شاید آپ رات سو نہیں سکیں۔ 'ہاں‘ اس کی آنکھیں امڈ آئیں۔ اس نے ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپتے ہوئے کہا: دراصل آج میرے پاپا کی برسی ہے۔ جیسے گلگت کی سڑک پر سفرکرتے ہوئے اچانک بھاری گلیشئر راستہ بندکر دے۔ مجھے یوں لگا‘ بولنے کی حس ختم ہوگئی ہے۔ گہری خاموشی نے کمرے کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہم دونوں نظریں جھکائے نہ جانے کب تک گم سم بیٹھے رہے۔ بہت دیر بعد اس نے آنکھیں اٹھاکر مجھے دیکھا اور بولی: آئی ایم ساری‘ دراصل پاپا کومجھ سے بہت پیارتھا‘ انہیں بچھڑے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا‘ لیکن کبھی کبھی ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی اور اس کی آنکھوں کی تہ و بالا جھیلیں پھر سے پُرسکون ہورہی تھیں۔ 'چائے پئیں گے یاکافی؟‘ وہ بولی۔ 'چائے پلیز‘ میں نے صورتحال کی گمبھیرتا کوکم کرنے کیلئے ہاں کر دی۔ اس نے الیکٹرک کیٹل میں پانی ابالا اور دوکپ چائے بناکر میز پررکھ دی۔ میں نے کتابوں کے ریک کو دیکھتے ہوئے کہا ''لگتا ہے آپ کو پڑھنے کا بہت شوق ہے‘‘۔ ''ہاں بس الا بلا پڑھتی رہتی ہوں‘‘ وہ بولی ''آپ کا پسندیدہ لکھنے والا کون ہے؟‘‘ میں نے گفتگوکوآگے بڑھاتے ہوئے کہا ''مجھے تو ہیمنگوے اچھا لگتا ہے‘ اس کے کردار مجھے اپنے جیسے لگتے ہیں‘ جو موت سے بھاگتے نہیں‘ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ ''پھر توآپ کو Farewell to Arms کی ہیروئن اچھی لگتی ہوگی‘ ہاں بالکل‘ کیتھرین کی بات کررہے ہیں ناں آپ‘ یاد ہے مرتے مرتے بھی اس نے یہی کہا تھاکہ وہ موت سے نفرت ضرور کرتی ہے لیکن اس سے ڈرتی نہیں‘‘۔ ''مجھے تو اس ناول کی بارشوں میں بھیگی ہوئی فضا نہیں بھولتی‘‘ میں نے کہا۔ 'ہاں‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا 'پاکستان میں بارشیں اچھی لگتی ہیں لیکن یہاں مانچسٹر میں تو مسلسل بارشوں سے تنگ آگئے ہیں‘۔ 'آپ کوگھرکی یادآتی ہوگی‘ میں نے پوچھا۔ 'گھرتو نہیں البتہ شہر کی یاد ستاتی ہے۔ پتہ ہے روز شام کوہم ریگل چوک جاتے تھے‘ سینما کے سامنے موتیے کے پھولوں والے سے ہار بنواتے تھے اور پھرچٹ پٹے دہی بھلے کھاتے تھے‘‘۔ میں نے کہا: آپ پڑھائی مکمل کرکے واپس وطن جائیں گی؟ ۔ ''پتہ نہیں‘‘ وہ پھر مہاتما بن گئی جولیاں کے کھنڈرات کے وسط میں آلتی پالتی مارے اور مجھے یوں لگا میں اس کے سامنے دوزانوں بیٹھ کر بھکشو بن گیا ہوں۔ گیان کا مسافر‘ شانتی کا متلاشی۔ پھر اکثر چھٹی کے دن شام پڑتے ہی میرے قدم خودبخود اس کے گھر کی طرف اٹھنا شروع ہوجاتے۔ایک شام میں آرنڈیل سینٹر گیا۔ یہ مانچسٹر کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر تھا۔ میں نے سوچا مارکس اینڈ سپنسر میں سعدیہ سے ملتا چلوں۔ اندر جاکے ہرطر ف دیکھا وہ کہیں نہ تھی۔ ایک کائونٹر سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ یہاں سے ایک مہینہ پہلے استعفا دے کر چلی گئی ہے۔ اس روزمیں خاص طورپراس کے گھرگیا لیکن اسے دیکھ کر جانے کیوں میں بھول جاتا تھا۔ پھربھی میں نے اس سے پوچھ ہی لیا: تم نے مجھے اپنے Resignation کے بارے میں بتایا کیوں نہیں؟ میری شکایت سن کر اس کی آنکھوں میں ہنسی نے ہلکورے لئے۔ ''افوہ تو آپ اس بات سے ناراض ہیں‘ وہاں سے نوکری چھوڑی کہیں اور کر لی بس اتنی سی بات ہے‘‘۔ ''چھوڑنے کی کوئی وجہ تو ہوگی‘‘۔ ''وجہ؟‘‘ اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ جاگی۔ ''ہمارا اصل باس تین مہینے کی چھٹی پر چلا گیاہے۔ اس کی جگہ ایک خاتون باس تھیں۔ بس ان سے مزاج کی مطابقت نہیں تھی‘‘۔ میں خاموش ہوگیا۔ وہ واقعی گہرے پانیوں کی مانند تھی۔ سطح پرخاموش اور پرسکون اور تہہ میں موجوں کا الٹ پھیر۔ ''اچھا چلیں چھوڑیں‘ اپنے Thesis کا بتائیں مکمل ہوگیا کہ نہیں؟‘‘ میں نے کہا ''بس اب بائنڈنگ رہتی ہے‘‘۔ ''اور پھر آپ کی چھٹی‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ''ہاں‘‘ میں اداس لہجے میں کہا۔ ''تو کیا آپ کو خوشی نہیں ہو رہی؟ آپ تو اپنوں کے پاس جا رہے ہیں‘‘ وہ حیران ہوکربولی۔ ''ہے تو‘ پر...‘‘ میرے لفظ ٹوٹ رہے تھے۔ اس دن میں چائے کے بغیرواپس آگیا۔ اگلے دو ہفتے مصروف گزرے۔ سارا سامان پیک کرنا تھا۔ جانے سے ایک ہفتہ پہلے میں نے سوچا سعدیہ سے مل لوں۔ شام کو اس کے گھر گیا تو پتہ چلا وہ کچھ دنوں کیلئے لندن گئی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی دلچسپ کہانی پڑھتے پڑھتے اس کا آخری صفحہ کھو گیا ہے۔ میں نے اس کے دروازے پر لگی Leave your message کی سلیٹ پر لکھا: ہوسکتا ہے یہ پیغام تمہیں اس وقت ملے جب یہاں سے جاچکا ہوں میں پاکستان جانے سے پہلے تمہیں ملنے آیا تھا۔ اتوار کی شام مانچسٹر سے لندن جائوں گا۔ اگلے روز ہیتھرو سے ڈائریکٹ فلائٹ ہے‘‘۔
اب مانچسٹر کے پکاڈلی ریلوے سٹیشن پر ٹیکسی سے اترتے ہوئے میں سوچ رہاتھا‘ سٹیشن سے ایک بار پھر ٹیلیفون کرکے سعدیہ کاپتہ کرلوں۔ شاید وہ لندن سے واپس آگئی ہو۔ ٹرین نے پلیٹ فارم نمبر2 سے جانا تھا جوگرائونڈ فلور پر تھا۔ میں نے سامان رکھا۔ سعدیہ کا نمبر ڈائل کرنے پر کسی نے ریسورنہیں اٹھایا۔ میں مایوس ہوکرٹرین کی طرف جاہی رہا تھا کہ نظر سیڑھیوں کے اوپر پلیٹ فارم نمبر13 پرپڑی جہاں لندن سے آنی والی ٹرین آکررکی تھی۔ میں نے دیکھا‘ سعدیہ اپنے بریف کیس کے ساتھ ایک بنچ پر بیٹھی تھی۔ شاید وہ ابھی ٹرین سے اتری تھی ۔ اچانک اس کی نظرمجھ پر پڑی۔ وہی شانتی بھری مسکراہٹ۔ ٹرین چلنے میں اب دومنٹ باقی تھے۔ سیڑھیوں سے پلیٹ فارم نمبر13 کافاصلہ صدیوں پرپھیل گیاتھا۔ مجھے یوں لگا میں جولیاں کے کھنڈرات میں چڑھائی پر چلتے چلتے ہانپنے لگا ہوں۔ پائوں تھکن سے شل ہورہے ہیں‘ کتنا لمبا سفر ہے شانتی کا؟ میں نے جولیاں کے کھنڈرات میں بلندی پر چلتے ہوئے گائیڈ سے پوچھاتھا۔ اس نے مڑ کر اپنی تیز چمکتی آنکھوں سے مجھے دیکھا تھا اور رسان سے کہا تھا ''کبھی ایک قدم اورکبھی ساری زندگانی‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں