"SSC" (space) message & send to 7575

شاہ مراد

شاہ مراد کا ذکر میں نے کثرت سے اپنے بچپن کے دنوں میں سنا‘ لیکن اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کا شمار اردو کے اولین شاعروں میں ہوتا ہے اور یہ کہ تصوف میں ان کا کیا مقام ہے۔ وہ تو میرے لیے بس ایک دلچسپ کردار کا درجہ رکھتے تھے جن کا تذکرہ میری والدہ ہم بہن بھائیوں سے کیا کرتی تھیں۔ شاہ مراد سے والدہ کی نسبت خاندانی تھی۔ ہماری نانی اردو کے معروف شاعر اور ادیب محترم نعیم صدیقی کی بہن تھیں۔ نعیم صدیقی صاحب کا بچپن بھی خانپور کی اسی گلی میں گزرا جہاں شاہ مراد کا گھر تھا۔ چکوال کا یہ علاقہ دھنی کہلاتا ہے، جہاں 1627 میں صوفی بزرگ اور شاعر شاہ مراد خان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ جو چکوال شہر سے بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مغل بادشاہ شاہجہان کا دور تھا۔ ہر طرف فارسی زبان کا چرچا تھا۔ شاہ مراد کے والد مولوی جان محمد کے چھ بیٹے تھے۔ ان میں سے صرف شاہ مراد تصوف اور شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔ شاہ مراد کی پیدائش کا قصہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی کہانی میں نے اپنی والدہ کی زبانی کئی بار سنی تھی‘ اور جب بہت بعد میں مجھے خانپور میں شاہ مراد کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا تو راستے میں ''چکی‘‘ کے مقام پر لگے ایک بورڈ پر اس کہانی کو ایک بار پھر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کہتے ہیں‘ شاہ مراد کی پیدائش سے قبل معروف بزرگ سیدن شاہ کا ڈیرہ ''چکی‘‘ کے مقام پر تھا‘ جہاں ان کے مریدوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ روایت ہے کہ جس روز شاہ مراد پیدا ہوئے سیدن شاہ صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اب میرے یہاں سے جانے کا وقت آ پہنچا ہے کیونکہ اس جگہ کا مالک آ گیا ہے۔ اس روز انہوں نے اپنے ساتھیوں کو گاؤں کی طرف بھیجاکہ وہ پتہ لگائیں‘ کس کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ان کے ساتھی رات کے وقت مختلف گھروں کی خبر لینے چلے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک گھر میں روشنی تھی اور اندر سے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ قاضی جان محمد کا گھر تھا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ قاضی صاحب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ جب ان کے ساتھیوں نے سیدن شاہ شیرازی صاحب کو یہ خبر سنائی تو انہوں نے کہا: وارث پیدا ہوگیا ہے۔ انہی سیدن شاہ صاحب کا مزار چوا سیدن شاہ میں واقع ہے۔
شاہ مراد سے منسوب بہت سی روایات ہیں جن کا تذکرہ میں نے اپنی والدہ سے کئی بار سنا۔ شاہ مراد کا ایک تعارف ایک صاحب کشف صوفی بزرگ کا ہے اور دوسرا تعارف ایک ایسے شاعر کا‘ جنہیں فارسی، اردو اور پنجابی پر عبور حاصل تھا اور جن کے ہاں ان تینوں زبانوں میں شاعری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ عام خیال تھاکہ اردو غزل کے پہلے شاعر ولی دکنی ہیں لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ شاہ مراد‘ ولی سے تقریباً چار دہائیاں پہلے شاعری کا آغاز کرچکے تھے‘ لیکن سترہویں صدی کے اس اہم شاعر کی زندگی اور شاعری لوگوں کی نظروں سے اس لیے اوجھل رہی کہ وہ اس زمانے کے ہندوستان میں طاقت کے مراکز سے دور پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے گاؤ ں میں رہتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھاکہ شاعری کے قلمی نسخے دستیاب تھے۔ یوں ایک طویل عرصے تک ادب کے ایوانوں میں شاہ مراد کا تذکرہ نہیں ملتا۔ شاہ مراد کے کلام کی باقاعدہ اشاعت 1908 میں ہوئی جب نعیم صدیقی صاحب کے والد قاضی سراج الدین صاحب نے شاہ مراد کا کلام ''گلزار شاہ مراد‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ تب ادبی حلقے شاہ مراد کے کلام کی تازگی، بوقلمونی اور وارفتگی دیکھ کر چونک اٹھے۔ شاہ مراد کے حوالے سے ابتدائی تحقیق میں جناب انور بیگ کا نام نمایاں ہے۔ میرے اصغرمال کالج کے رفیق کار جناب ماجد صدیقی صاحب نے بھی شاہ مراد کے کلام کے حوالے سے کتاب مرتب کی تھی۔ یہ کتاب لوک ورثہ نے شائع کی تھی۔ ماجد صدیقی ان دنوں شعبہ اردو میں پڑھاتے تھے۔ کئی بار اصغر مال کالج کے مین گیٹ کے سامنے چائے کے ڈھابے پر بیٹھ کر میں نے ماجد صدیقی سے شاہ مراد کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کی۔ شاہ مراد ایک طرف صاحبِ حال صوفی بزرگ اور دوسری جانب شاعری کے میدان کے شہسوار تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کے تصوف کے رنگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
تصوف کی کچھ باتیں دنیاوی منطق کے دائروں میں نہیں آتیں۔ کہتے ہیں کہ شاہ مراد کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی کہ لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ خانپور کے ارد گرد کے علاقے چکوال، جہلم، روات، گوجر خان کے رہنے والے روحانی طور پر شاہ مراد کے زیرِ اثر تھے۔ کہتے ہیں ان دنوں علاقے میں شادی کے موقع پر عقیدت کے اظہار کے طور پر دلہن کی ڈولی کو پہلے شاہ مراد کے تکیے پر لایا جاتا۔ بعد میں پنجابی کے معروف صوفی شاعر میاں محمد بخش نے اپنی کتاب سیف الملوک میں شاہ مراد کی اور اس وقت کی روایت کا ذکر یوں کیا:
شاہ مراد جنے دے کتھے سخن مراداں والے
محبوباں دے گھنڈ لہاون واہ مستاں دے چالے
شاہ مراد کی شاعری پر نظر ڈالیں تو فارسی، اردو اور پنجابی شاعری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں‘ جن میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ شاہ مراد کا فارسی کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
جانِ من از عشق تو‘ من در جہاں دیوانہ ام
ہر زماں بر شمع رو از سوزِ دل پروانہ ام
شاہ مراد کی شاعری میں معنی آفرینی بھی ہے اور نغمگی اور موسیقی بھی۔
دن رات پیا بن سوتی ہوں، دو نین ہنجوں بھر روتی ہوں
مکھ لال شراب سے دھوتی ہوں تب رونا مجھ دستور ہوا
اسی غزل کے ایک شعر میں وہ حسین بن منصور حلاج کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ منصور حلاج ایک استعارے کے طور پر ان کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔
جس سر اناالحق جان لیا، تس خون جگر کا چھان لیا
سر کہہ کر جیو قربان کیا، وہ چڑھ سولی منصور ہوا
تصوف کی دنیا میں مادی اشیا دولتِ درد کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔ شاہ مراد کے اس شعر میں ان کی زندگی کا پورافلسفہ سمٹ آیا ہے:
دِکھو کیا فقر کا جامہ عجیب اپنا سیا ہے میں
بہا دل اشرفی دے کر پرم ریزہ لیا میں نے
شاہ مراد کے ہاں دیگر صوفی شعرا کی طرح وسیع المشربی کا درس ملتا ہے۔ تصوف کے ایک مقام پر وہ عبادت کے مظاہر سے اگلی منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دراصل مالک حقیقی سے وصال کی منزل ہے۔
نہ مسجد جا، نہ کر سجدہ، نہ رکھ روزہ، نہ رہ بھوکا
وضو دا پھوڑ دے کوزہ، فنا کے جل میں نہاتا جا
شاہ مراد کی شخصیت میرے بچپن کی یادوں کا اہم حصہ ہے جن کے بہت سے قصے میری والدہ تواتر سے ہمیں سنایا کرتی تھیں ان قصوں میں شاہ مراد کا ذکر ہوتا، ان کی دو بیٹیوں کاکو بیگم اور سرداراں بیگم کا ذکر ہوتا، خان پور کے گلی کوچوں میں رہنے والے قاضی سراج الدین کا تذکرہ ہوتا اور پھر قاضی سراج صاحب کے صاحبزادے نعیم صدیقی اور ان کی بہن فاطمہ بی بی کا ذکر ہوتا جو میری نانی تھیں۔ آج یونہی بیٹھے بٹھائے والدہ کی یاد آگئی تو ان سے سنی ہوئی کئی کہانیاں ذہن میں لو دینے لگیں۔ انہیں میں سے ایک کہانی شاہ مراد کی تھی، وہی شاہ مراد جو تصوف اور شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں