لاہور کے گلی کوچوں میں شام آہستہ آہستہ اتر رہی ہے۔ اس شام کے اپنے رنگ ہیں سرخ، بنفشی اور سرمئی۔ ان رنگوں کو اجالتا اور مہکاتا ہوا ایک اور رنگ لاہور کے رومان کا ہے جو اس کی فضائوں میں رچ بس گیا ہے۔ کہتے ہیں لاہور محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب کا نام تھا جس کی دھوم دور دور تک تھی۔ لاہور کے دامن میں کتنی ہی عمارتیں ہیں جن کے ساتھ جڑی ہوئی تاریخ کی کہانیاں ہیں۔ انہیں میں سے ایک یہاں کا قدیم چائے خانہ پاک ٹی ہائوس ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک چائے خانہ تھا لیکن حقیقت میں یہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اس زمانے میں نگینہ بیکری اور عرب ہوٹل میں بھی شاعر اور ادیب بیٹھے تھے لیکن پاک ٹی ہائوس کی چھب ہی نرالی تھی۔
انگریز جب ہندوستان کے حکمران بنے تو اپنے ہمراہ انگلستان کے طور طریقے بھی لے کر آئے۔ ان میں سے ایک چائے بھی تھی جو ہندوستان کے لوگوں کے لیے ایک اجنبی مشروب تھا۔ رفتہ رفتہ یورپ کی طرح یہاں بھی چائے خانے کھلنے لگے۔ ان چائے خانوں پر ہر طرح کے لوگ آتے، چائے پیتے،گپ شپ لگاتے اور دل شانت کرتے۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کو ایک سال ہو چکا تھا۔ یہ 1940 کا سال تھا جب لاہور کے سکھ خاندان کے ایک فرد بُوٹا سنگھ نے لاہور میں چائے خانہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا‘ وہ لاہور کی مرکزی جگہ تھی۔ مال روڈ کے قریب نیلا گنبد کے ہمسائے میں یہ ایک دو منزلہ عمارت تھی۔ اس چائے خانہ کی پیشانی پر سیمنٹ سے 'انڈیا ٹی ہائوس‘ کے الفاظ لکھے گئے۔ جلد ہی یہ چائے خانہ ادیبوں اور شاعروں کا مرکز بن گیا۔ ملک کے مختلف حصوں سے اہلِ ذوق لاہور آتے تو اس چائے خانے میں ضرور آتے۔ چار سال یوں ہی گزر گئے۔ بوٹا سنگھ نے بڑے چائو سے اس چائے خانے کا آغاز کیا تھا لیکن اب اس کے شوق کی آنچ مدھم ہونے لگی تھی۔ تب گورنمنٹ کالج کے دو نوجوان بھائیوں سرتیج سنگھ لبھا اور کیسر سنگھ لبھا نے اس مدھم ہوتی روشنی کو تھام لیا۔ کبھی وہ یہاں گاہک بن کر آتے تھے‘ اب وہاں کے مالک بن گئے۔ دن مہینے اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ پھر تقسیم سے پہلے فسادات کا آغاز ہو گیا۔ لاہور میں ہندوئوں اور سکھوں کی اکثریت واہگہ کی سرحد کے اس پار چلی گئی۔ اسی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ شہر میں فسادات کے دوران لاہور کا یہ قدیم چائے خانہ بھی بند ہو گیا لیکن یہ بندش عارضی تھی۔ اس بارجالندھر سے لاہور آنے والے حافظ رحیم بخش نے انڈیا ٹی ہائوس کے چراغ کو دوبارہ جلایا۔ ایک بار پھر اس شمع کے پروانے واپس آنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ لاہور کی سب سے بڑی ادبی بیٹھک بن گیا۔ یہ چائے خانہ رحیم بخش کا محض کاروبار نہیں‘ اس کا عشق تھا اور عشق کی یہی لپک شہر بھر کے ادیبوں اور شاعروں کو وہاں لے جاتی۔ کیسے کیسے لعل و جواہر تھے جو یہاں آتے اور جن کی گفتگو سے یہاں کی شامیں سرشار ہوتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ کہ مختلف عقائد و نظریات کے لوگ بھی اس چائے خانہ کی چھت کے نیچے جمع ہوتے تھے۔ ناموں کی اس کہکشاں میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، احمد راہی، حفیظ جالندھری، جیلانی کامران‘ صوفی تبسم، سجاد باقر رضوی، اختر حسین جعفری، اشفاق احمد، ابن انشا، ناصر کاظمی، انتظار حسین، احمد مشتاق، احمد بشیر، اعجاز بٹالوی، قیوم نظر، اے حمید، منیر نیازی، استاد امانت علی، سید وقار عظیم، استاد دامن اور کتنے ہی اور شاعر اور ادیب شامل تھے۔
مختلف ٹولیوں کی مخصوص میزیں تھیں۔ کچھ پیدل یہاں تک پہنچتے، کچھ سائیکل پر سوار ہو کر آتے اور کچھ دور کے رہنے والے تانگے پر آتے۔ چائے کے دور چلتے اور دنیا بھر کے ادبی نظریات پر بحثیں ہوتیں۔ نئی تخلیقات کی مہورت سب سے پہلے یہاں ہوتی۔ حلقۂ اربابِ ذوق اور مجلس ترقیٔ ادب کے اجلاس یہیں پر ہوتے۔ یہ 1950 کا سال تھا جب چائے خانے کی پیشانی پر انڈیا کی جگہ پاک لکھا گیا۔ یوں اب یہ چائے خانہ انڈیا ٹی ہائوس سے پاک ٹی ہائوس بن گیا۔ نام کی تبدیلی سے چائے خانہ کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ آئی‘ ادیبوں کی ان منڈلیوں میں ایک منڈلی ناصر کاظمی، انتظار حسین اور احمد مشتاق کی تھی جو شام یہاں گزارتے اور رات گئے یہاں سے اٹھتے، مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے اور لارنس گارڈن آ بیٹھتے۔ وہ بھی کیسے دن تھے اور کیسی سحر انگیز شامیں جب شام ڈھلے کسی بانسری کی لے انہیں اپنی طرف بلاتی اور وہ کسی سحرزدہ معمول کی طرح پاک ٹی ہائوس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ احمد مشتاق نے اسی زمانے میں یہ شعر لکھا تھا۔
یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
رحیم بخش نے اس چائے خانے سے خوب وفا نبھائی۔ اس کے اس بعد ان کے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہائوس کی باگ ڈور سنبھالی۔ انہوں نے والد کی طرح یہاں آنے والوں کا محبت اور گرمجوشی سے استقبال کیا لیکن اب زمانہ کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔ ضروریات بڑھنے لگی تھیں۔ تمام تر کوشش اور محنت کے باوجود ان کی آمدنی ان کی ضروریات کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ انہوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ پاک ٹی ہائوس کا چراغ جلتا رہے لیکن ان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ یوں 2000 میں پاک ٹی ہائوس بند کر دیا گیا۔ پاک ٹی ہائوس کیا بند ہوا سول سوسائٹی کو ایک دھچکا لگا۔ لوگوں کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔ معاملہ عدالت میں چلا گیا‘ اور عدالت نے اسے کھولنے کے احکامات جاری کیے۔ لیکن 2006 میں ایک بار پھر پاک ٹی ہائوس بند ہوگیا۔ اب کے یہ بندش طویل تھی جو کئی برسوں پر پھیل گئی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اب یہ تاریخی چائے خانہ ہمیشہ کیلئے ماضی کا حصہ بن گیا ہے‘ لیکن 2012 میں ایک ان ہونی ہوئی جب اس وقت کی حکومت پنجاب نے پاک ٹی ہائوس کے دوبارہ اجرا کا فیصلہ کیا۔ چائے خانہ کی عمارت کی تزئینِ نو کی گئی۔ اسے نئے فرنیچر سے آراستہ کیا گیا‘ یوں پاک ٹی ہائوس کا چراغ پھر سے چلنے لگا۔
آج لاہور کی رنگ بکھیرتی شام ہے اور میں مال روڈ پر جا رہا ہوں۔ اچانک میرے قدم خود بخود پاک ٹی ہائوس کی طرف اٹھنے لگے۔ صدر دروازے سے داخل ہوا تو گاہکوں کی بھیڑ تھی۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر چلا گیا جہاں ایک کونے میں ایک مختصر سی لائبریری ہے۔ دوسرے کونے میں کسی تنظیم کا اجلاس ہو رہا تھا۔ میں چلتا ہوا اس جھروکا نما کھڑکی کے پاس چلا گیا جہاں سے بائیں طر ف مال روڈ نظر آ رہی تھی۔ کھڑکی کے بالکل سامنے پرانی کتابوں کے سٹال تھے۔ میں کھڑکی کے پاس رکھی میز پر بیٹھ گیا اور ایک کپ چائے کا آرڈر دیا۔ چائے پیتے ہوئے میں نے پلٹ کر دیوار کو دیکھا جہاں ناصر کاظمی کی فریم شدہ تصویر آویزاں تھی۔ وہی ناصر کاظمی پاک ٹی ہائوس جس کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ جہاں وہ دوستوں کو اپنی تازہ شاعری سناتا تھا اور جہاں اس کے ساتھیوں کے قہقہے گونجتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ نسل معدوم ہو گئی۔ لیکن زندگی رکتی نہیں۔ ہر دم رواں رہتی ہے۔ اب بھی پاک ٹی ہائوس کی رونق اسی طرح قائم ہے۔ میں نے دیوار پر لگی ناصر کاظمی کی تصویر کو پھر سے دیکھتا ہوں اور مجھے ناصر کا شعر یاد آ جاتا ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا