سندھ کی سحر انگیز سرزمین سے میرا تعارف تب ہوا جب میں نے 1996ء میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔ کراچی میں تین سالہ قیام کے دوران میں دوبار حیدر آباد گیا لیکن یہ سرکاری دورے اتنے مختصر اور مصروف ہوتے تھے کہ ٹھیک سے شہر دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ کراچی میں تین سال رہنے کے بعد میں اسلام آباد آگیا۔ اس دوران کئی بار مجھے سندھ جانے کا اتفاق ہوا۔ تب مجھے سندھ کی خوبصورتی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
لیکن یہ اس سے بہت پہلے کی بات ہے۔ 1983ء کا سال تھا جب میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پڑھانا شرو ع کیا۔ اسی دوران سندھ سے تعلق رکھنے والے جی اے الانہ صاحب ہمارے وائس چانسلر بن کر آئے۔ الانہ صاحب کو تاریخ‘ ثقافت اور آثار کی conservation کا جنون تھا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب میں نے الانہ سے پہلی بار سندھولوجی (Sindhology) کا ذکر سنا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے۔ ان کی باتوں میں اکثر انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی کا ذکر آتا توان کی آنکھوں میں محبت کی چمک جاگ اٹھتی تھی۔ اس دور پر تین دہائیاں بیت گئیں۔ جی اے الانہ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد منوں مٹی کے نیچے جا سوئے اور روزگار کی تلاش مجھے لاہور لے آئی۔ تب ایک دن سندھ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج اینڈ لٹریچر کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ اس دعوت میں انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر طارق عمرانی صاحب کا محبت بھرا اصرار بھی شامل تھا۔ میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن کے پردے پر جی اے الانہ کی تصویر ابھری‘ جیسے وہ مجھے کہہ رہے ہوں ''انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی دیکھنے کی چیز ہے‘‘۔ میں نے جامشورو جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کراچی سے حیدر آباد کا سفر تقریباً دو گھنٹے کا ہے۔ میں نے سیٹ کی پشت سے سر لگا کر آنکھیں بند کر لیں اور سندھ یونیورسٹی کی تاریخ کے ورق میری چشمِ تصور میں کھلنے لگے۔ یہ پاکستان کی قدیم درسگاہ ہے۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو ملک میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں‘ مغربی پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی اور مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ یونیورسٹی۔ متحدہ ہندوستان میں سندھ یونیورسٹی بمبئی یونیورسٹی سے منسلک تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کراچی میں یونیورسٹی آف سندھ کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا اور حیدرآباد کو سندھ کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ 1951ء میں یونیورسٹی کو حیدر آباد منتقل کی گیا جہاں اس کیلئے ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی۔ اسی دوران دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ ٹھنڈی سڑک کے کنارے واقع سندھ یونیورسٹی کے اس پرانے کیمپس میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی کوششوں سے ''سندھ اکیڈمی‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ یہ سندھ کی تاریخ اور ثقافت کی دریافت‘ حفاظت اور تشہیر کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ پہلا قدم کتنی منزلوں کو سر کرے گا۔ 1964ء میں سندھ اکیڈمی کے ایڈوائزری بورڈ نے فیصلہ کیا کہ اکیڈمی کو انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی میں بدل دیا جائے۔
اب یونیورسٹی میں نئے شعبے کھلنے اور طلبا کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر زیادہ جگہ کی ضرورت تھی‘ اس کیلئے حیدر آباد سے تقریباً پندرہ کلومیٹر دور جامشورو کا انتخاب کیا گیا۔ شاید اس جگہ کے انتخاب کی ایک وجہ اس کی شہر کے ہنگاموں سے دوری بھی تھی۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی‘ جو پرانے کیمپس میں صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا‘ کیلئے نئے کیمپس میں ایک کشادہ عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا جس کا سنگِ بنیاد 1972ء میں رکھا گیا۔ عمارت کی تعمیر میں کئی سال لگے آخرکار 1978ء میں انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی کو نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ آنکھیں بند کئے میں تصور کی انگلی تھامے نہ جانے کتنی ہی دیر تاریخ کی پگڈنڈیوں پر چلتا رہتا کہ جہاز میں ہونے والی انائونسمنٹ مجھے خیال سے حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ جہاز اب کراچی کے جناح ایئرپورٹ پر اتر رہا تھا۔ میں کراچی آتا ہوں تو یہاں بتائے ہوئے ماہ و سال پھر سے جاگ اٹھتے ہیں جب میں نوے کی دہائی میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ ایئرپورٹ پر مجھے لینے کیلئے یونیورسٹی کا ڈرائیور شوکت کھڑا تھا۔ راستے میں ہم باتیں کرتے رہے اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ راستے میں سڑک کے کنارے ایک ریستوران پر چائے پینے کیلئے رکے۔ یہ ایک وسیع و عریض ریستوران تھا جس کے کشادہ صحن میں رنگین چارپائیاں بچھی تھیں۔ ہم چائے پی کر تازہ دم ہو گئے اور دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ رات قیام یونیورسٹی کے فارن فیکلٹی ہاسٹل میں تھا۔ یہاں میرے پرانے دوست آ گئے ان میں مہران یونیورسٹی کے شوکت لوہار اور سندھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر غلام علی بریرو‘ ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر عبدالفتح سومرو شامل تھے۔
اگلے روز یونیورسٹی کے ہال میں کانفرنس کا آغاز ہو رہا تھا جس میں میرا کلیدی خطاب تھا۔ یہ ہر لحاظ سے کامیاب کانفرنس تھی۔ یہاں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر طارق سمرانی‘ ڈاکٹر غزل شیخ‘ ڈاکٹر سمیرا سمرانی اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب صدیق کلہوڑو سے ملاقات ہوئی۔ کانفرنس میں سندھ کے مختلف شہروں سے طلبا اور ریسرچرز شرکت کر رہے تھے۔ افتتاحی سیشن میں میرا مقالہ تھا جس کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ سیشن کے بعد جب سب لوگ چائے پینے میں مصروف تھے تو میں خاموشی سے انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی پہنچ گیا۔ حال ہی میں مرتضیٰ سیال صاحب نے انسٹیٹیوٹ میں بطور ڈائریکٹر اپنی ذمہ داریا ں سنبھالی ہیں۔ وہیں پر وحید جتوئی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انسٹیٹیوٹ کی عمارت ایک وسیع و عریض کمپائونڈ میں واقع ہے جس کے سامنے خوبصورت سر بلند درخت ہیں اور پانی کا خوبصورت فوارہ ارد گرد کے ماحول کوخوش رنگ بنا رہا تھا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی کے تین بلاکس ہیں۔ ایک بلاک میں انتظامی دفاتر ہیں‘ ایک بلاک ریسرچ لائبریری کیلئے ہے جہاں نادر کتب اور مخطوطے رکھے ہیں جن سے سندھ کی تاریخ اور ثقافت کے مختلف پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ مرکزی بلاک میں آرٹ گیلریز اور میوزیم ہے۔ اس بلاک کا صدر دروازہ انتہائی پُر شکوہ ہے۔ عمارت میں اسلامی اور بدھ طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ عمارت میں استعمال ہونے والی خوب صورت ٹائلز ہالہ سے لائی گئی تھیں۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھولوجی کے مقاصد میں سندھ کے بارے میں تحقیق کا فروغ اور کتابیں‘ تحقیقی مقالے اور مخطوطے شامل ہیں۔ یہاں کی زمین کے حوالے سے‘ ادب‘ ثقافت اور زبانوں کے بارے میں معلومات کا حصول بھی انسٹیٹیوٹ کا ایک اہم مقصد ہے۔
میوزیم میں گھومتے ہوئے میں سندھ کے مختلف ادوار میں لوگوں کے رہن سہن سے آگاہی حاصل کر رہا تھا۔ یہاں کی تہذیب‘ ثقافت‘ معیشت‘ اور زراعت تصویروں اور مجسموں کی صورت میں محفوظ تھی۔ چلتے چلتے ہم ایک اور گیلری میں داخل ہوئے جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ادیب‘ شاعر‘ ماہرین تعلیم‘ اور فنِ کار شامل ہیں۔ اب ہم گیلری کے اس حصے میں ہیں جہاں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر صاحبہ کا وہ خط رکھا ہے جو انسٹیٹیوٹ میں کتابوں کی آتش زدگی کے بعد لکھا گیا۔ گیلری میں گھومتے ہوئے اچانک مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں پچھلے زمانوں میں لوٹ آیا ہوں جہاں میرے سامنے سندھ کی تاریخ کے سارے ورق جگمگا رہے ہیں۔ سندھ کی خوبصورت دھرتی کا سحر آہستہ آہستہ مجھے پنے حصار میں لے رہا ہے اور دریائے سندھ کی مٹی کی مہک دھیرے دھیرے میرے جسم و جاں میں اتر رہی ہے۔