زندگی رنگ برنگ کے منظروں کا مجموعہ ہے۔ کبھی خوشی، کبھی اداسی، کبھی شور، کبھی سکوت، کبھی حیرت، کبھی مایوسی، کبھی ہجر، کبھی وصال۔ رنگ رنگ کے ان منظروں میں ایک آواز میرے ساتھ ساتھ رہی۔ لتا کی دل موہ لینے والی آواز۔ اس آواز سے میری آشنائی میرے سکول کے دنوں میں ہوئی جب میں راولپنڈی کی لال کُرتی میں ایک پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ تفریح کے وقت ہم دوست لال کُرتی بازار چلے جاتے۔ ان دنوں لال کرتی میں تصویر محل سینما ہوا کرتا تھا جہاں فلموں کے قدِ آدم پوسٹرز لگے ہوتے تھے۔ ان دنوں نئی آنے والی فلم کی مارکیٹنگ تانگوں کے ذریعے کی جاتی تھی۔ تانگے کے پیچھے ایک بڑا پوسٹر ہوتا اور تانگے سے مائیک پر آنے والی فلم اور اس کی کاسٹ کا اعلان کیا جاتا۔ لال کرتی کے بازار میں مختلف دکانوں سے ریڈیو پر بلند آواز میں گانے چل رہے ہوتے۔ انہی گانوں میں لتا کی من موہنی آواز بھی ہوتی۔ ایک روز ہم دوست تفریح کے دوران لال کرتی بازار میں گھوم رہے تھے کہ ایک دکان پر لتا اور رفیع کا گیت ''سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا‘‘ سنا۔ اب اس بات کو کتنے ہی برس بیت گئے ہیں لیکن ابھی تک اس گیت کی مہک میرے ساتھ ہے۔ مدتوں بعد میں جب یونیورسٹی آف مانچسٹر میں پڑھ رہا تھا تو اپنے ہاسٹل کے ایک دوست راجو کی زبانی یہ گیت سنا جس سے مجھے اپنے پرائمری سکول کا زمانہ یاد آ گیا۔
سکول کی چھٹیوں میں ہم اپنے گاؤں چلے جاتے جو راولپنڈی کے نواح میں تھا۔ وہیں ہمارے گاؤں کے ایک شوقین مزاج زمیندار کے گھر نیا نیا گراموفون ریکارڈ آیا تھا۔ وہ سرِ شام میز پر سفید رنگ کا سرخ جھالر والا میز پوش بچھاتا اور اس پر مشین رکھ کر گراموفون ریکارڈ بجاتا۔ ہم بچے یہ دیکھ کر حیران ہوتے کہ سوئی جب ریکارڈ پر چلتی ہے تو کیسے اس سے سُر برآمد ہوتے ہیں۔ وہیں میں نے پہلی بار لتا کا گیت ''باغوں میں بہار ہے‘‘ سنا۔ گراموفون ریکارڈ پر گیت سننے کا اپنا ہی لُطف تھا۔ بعد میں گراموفون ریکارڈ سننے کا شوق راولپنڈی کے کالج روڈ پر واقع ایک کیفے میں پورا ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کر رہا تھا۔ یہ کیفے گورڈن کالج سے متصل کالج روڈ پر تھا۔ یہاں پر شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے ملتی تھی۔ یہاں کی خاص بات چائے کے ہمراہ گیتوں کا فرمائشی پروگرام تھا۔ ہم کاغذ کی چِٹ پر اپنی پسند کا گیت لکھ کر دیتے اور کیفے کا مالک انتہائی مہارت سے ریکارڈ کے ڈھیر سے مطلوبہ ریکارڈ نکال لیتا۔ اس کیفے میں بیٹھ کر ہم نے سب سے زیادہ جس گیت کو فرمائش پر سنا وہ لتا کا ''پنکھ ہوتے تو اُڑ آتی رے‘‘ تھا۔ اس گیت کا آغاز ہی بہت خوبصورت ہوتا تھا گیت کے بول حسرت جے پوری نے لکھے تھے اور موسیقار رام لال تھے۔ مجھے یاد ہے کیفے کے باہر ایک بوسیدہ درخت کے نیچے لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھے جب ہم یہ گیت سنتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے ہمیں بھی پَر لگ گئے ہیں اور ہم بلند آسمان پر تیرتے بادلوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں۔ ان دنوں ہم دوست شام کو انٹر کانٹی نینٹل سے متصل سکواش کورٹ کے ساتھ واقع فہیم گل کے گھر جمع ہوتے تھے۔ فہیم گل کے والد اور بھائی اس سکواش کورٹ کے منتظم تھے۔ فہیم گل بعد میں پاکستان کی قومی ٹیم میں سکواش کوچ بھی رہا۔ ایک بار وہ بیرون ملک ایک ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے گیا تو واپسی پر اپنے ساتھ ایک بڑا ڈیک لے کر آیا جس کے ہمراہ بڑے بڑے سپیکر تھے۔ مجھے یاد ہے اس ڈیک پر جو پہلا گیت ہم نے سنا وہ لتا کی آواز میں تھا۔ گیت کے بول تھے ''لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘‘۔ لتا کے اس گیت نے ہم سب پر سحر طاری کر دیا تھا۔
فہیم کے گھر اس کے ڈیک پر ہم نے بہت سے گانے سنے اور موسیقی کی ان جزئیات کو سمجھا جنہیں عام ٹیپ ریکارڈ کی آواز میں سمجھنا مشکل تھا۔ گورڈن کالج سے ایم اے کرنے کے بعد میں نے ایک مقامی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا تھا‘ اس لیے زم زم کیفے کی محفل ختم ہو گئی تھی لیکن فہیم گل کے سکواش کورٹ والے گھر کبھی کبھار جانا ہوتا جہاں سب دوست اکٹھے ہو جاتے۔ انہیں دنوں لتا کا ایک گیت آیا تھا جس کی شاعری‘ موسیقی اور گائیکی اپنی مثال آپ تھی۔ یہ گیت معروف ڈائریکٹر کمال امروہی کی فلم ''رضیہ سلطان‘‘ کا تھا۔ اس کے گیت نگار جاں نثار اختر تھے اور موسیقی خیام کی تھی۔ گیت کے بول تھے ''اے دلِ ناداں آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے‘‘۔ یہ گیت فہیم کے ڈیک پر سننے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ خاص کر جب ''یہ زمین چپ ہے آسماں چپ ہے‘‘ کے بعد موسیقی کا وقفہ آتا اور دور کہیں دھڑکن کی آواز سنائی دیتی اور پھر گیت ان بولوں سے شروع ہوتا ''پھر یہ دھڑکن سی چار سو کیا ہے‘‘۔ بعد میں لتا سے ایک انٹرویو میں جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے ہزاروں گیت گائے ہیں ان میں آپ کا پسندیدہ گیت کون سا ہے تو لتا نے بلا توقف کہا میرا: پسندیدہ گیت ''اے دلِ ناداں‘‘ ہے۔
انہی دنوں ایک فلم ''سلسلہ‘‘ نے اپنی کہانی اور گیتوں سے سب کو چونکا دیا تھا۔ اس فلم کا یہ گیت ''دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کو جاوید اختر نے لکھا تھا اور آواز لتا کی تھی۔ یاد رہے کہ جاوید اختر، جان نثار اختر کے بیٹے ہیں جنہوں نے ''اے دلِ ناداں‘‘ جیسا خوبصورت گیت تحریر کیا تھا۔ اسی فلم میں لتا نے ''یہ کہاں آ گئے ہم‘‘ جیسا مدھر گیت بھی گایا تھا۔ اور پھر ''کبھی کبھی‘‘ فلم میں خیام کی موسیقی میں لتا کا مکیش کے ساتھ گیت ''کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ سدا بہار گیت بن گیا۔ پھر مجھے دوستوں کی ان محفلوں سے اس وقت دور جانا پڑا جب میں کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی آف ٹورانٹو چلا گیا۔ ٹورانٹو میں میری ملاقات کچھ اور پاکستانی طالب علموں سے ہوئی جو پاکستان سے یہاں پڑھنے کے لیے آئے تھے‘ ان میں فاروق، ہارون اور نصیر شامل تھے۔ ہم کبھی کبھار ایک دوسرے کے کمرے میں جمع ہوتے اور گپ شپ لگاتے۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک رات ہم فاروق کے کمرے میں بیٹھے تھے، ہاسٹل سے باہر لگاتار برف گر رہی تھی اور ہم کمرے کے اندر پرانے گیت سن رہے تھے۔ انہیں گیتوں میں ایک گیت پاکیزہ فلم کا تھا جسے لتا کی آواز نے امر بنا دیا تھا۔ گیت کے بول تھے ''ٹھارے رہیو‘‘۔ بہت بعد کراچی کی ایک محفل میں‘ میں نے شکیل عادل زادہ سے پوچھا یہ ''ٹھارے رہیو‘‘ مطلب کیا ہے؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ''ٹھارے رہیو‘‘ کا مطلب ''ٹھہرے رہو‘‘ ہے۔ اس روز ٹورانٹو کی یخ بستہ رات میں ہم نے لتا کی آواز میں پاکیزہ فلم کے سارے گیت سنے، ہر گیت ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ اس روز میں رات گئے فاروق کے ہاسٹل سے نکلا تو ٹورانٹو کی سرد شمالی ہواؤں نے میرا استقبال کیا۔ میں نے جیکٹ کی زِپ اوپر تک بند کر لی اور بلور سٹریٹ پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ پرانی برف آئینے کی طرح شفاف ہوتی ہے اور اس پر پھسلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ رات کے اس پہر بھی برف کے گالے اتر رہے تھے اور مجھے اس موسم میں چارلس سٹریٹ تک پیدل جانا تھا۔ (جاری)