"SSC" (space) message & send to 7575

کرتارپور: گرونانک کی سدا بہار سلطنت

کہتے ہیں محبت ایک سحر ہے جو غیر محسوس طریقے سے اپنے اطراف کو حصار میں لے لیتا ہے اور جس میں من و تو کی تمیز نہیں رہتی۔ محبت کا یہ سحر میں نے کرتار پور میں بابا گرونانک کے گوردوارے میں دیکھا۔ سنگِ مرمر سے بنے اس گوردوارہ کی دودھیا عمارتیں‘ اور ان کے وسط میں وسیع و عریض صحن ہے۔ اس صحن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے زائرین کا ہجوم بابا گرونانک کی محبت کا اسیر ہے۔ وہی بابا گرونانک جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ''نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا‘‘۔ بابا گرونانک کی تعلیمات میں ایک خدا کا تصور تھا۔ ان کا پیغام محبت تھا اور ان کے چاہنے والوں میں سکھ، ہندو اور بدھ مت کے لوگ شامل تھے۔
پچھلے ہی ہفتے میں اور میرا بیٹا صہیب لاہور سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ ننکانہ صاحب گئے تھے۔ اس قصبے میں گرونانک 1549ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صہیب کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں رہتا ہے۔ کتابوں کا رسیا ہے اور تاریخ میں اسے خاص دلچسپی ہے۔ آج کل وہ کچھ دنوں کیلئے پاکستان آیا ہوا ہے۔ پرانی جگہوں پر جانا ہم دونوں کا شوق ہے۔ آج ہماری منزل گوردوارہ گرونانک ہے جو پاک بھارت سرحد سے صرف چار کلومیٹر دور کرتارپور میں واقع ہے۔ یہ مارچ کا مہینہ ہے۔ پنجاب کا حسن بہار میں اور نکھر جاتا ہے۔ لاہور سے کرتارپور کا فاصلہ اڑھائی گھنٹے کا ہے۔ موٹروے کا سفر ہموار اور خوشگوار ہے؛ البتہ موٹروے سے مریدکے/ نارووال کی طرف مڑیں تو سڑک اتنی ہموار نہیں۔ دائیں بائیں کھیت اور اکا دکا دکانیں اور ریستوران نظر آتے ہیں۔ ہم آپس میں باتیں کرتے ہوئے جارہے ہیں۔ اب ہمیں دور دنیا کے سب سے بڑے گوردوارے کی سفید دودھیا عمارت نظر آرہی تھی۔
استقبالیہ کے قریب ہی انسپکٹر شاہد ہمارے منتظر تھے جو گوردوارہ کے دورے میں ہمارے گائیڈ تھے۔ استقبالیہ میں شناختی کارڈ اور تصویر بنوانے کے بعد ہمیں گلے میں پہننے کیلئے سرخ رنگ کے Name Card دئیے گئے۔ بھارت سے آنے والے یاتریوں کیلئے Name card کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعدہم گوردوارے کی حدود میں داخل ہو گئے۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا‘ درشن ڈیوڑھی کی خوبصورت عمارت ہمارے سامنے تھی۔ یہ ایک پُرشکوہ عمارت ہے۔ عمارت کے اندر داخل ہو کر ہم دائیں طرف واقع ایک کانفرنس روم میں گئے‘ جہاں ہمیں گوردوارہ کی مختصر تاریخ سے آگاہ کیا گیا۔ گوردوارے کی ابتدائی عمارت مہاراجہ پٹیالہ نے 1920ء میں تعمیر کرائی تھی۔ تب اس کا رقبہ صرف 4 ایکڑ تھا۔ اس وقت یہ ایک خاموش اور پُرسکون بستی تھی جہاں دور و نزدیک سے بابا نانک کے چاہنے والے آتے۔ گوردوارہ کا رقبہ توسیع کے بعد اب 104 ایکڑ پر محیط ہے۔ اس میں 42 ایکڑ پر عمارتیں ہیں اور 62 ایکڑ کا حصہ کھیتی صاحب کہلاتا ہے جہاں وہی فصلیں اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں جو بابا گرونانک کے زمانے میں کاشت کی جاتی تھیں اور جن کی کاشت میں بابا گرونانک خود حصہ لیتے تھے۔ یوں کرتارپور کا یہ گوردوارہ اب دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ بن گیا ہے۔ توسیع کا یہ منصوبہ تقریباً ایک سال میں مکمل ہو گیا۔ کہتے ہیں توسیع کے اس عمل میں دریائے راوی پر 800 میٹر لمبے پُل کی تعمیر تھی جس میں مشکل کام دریا کا رُخ موڑنا تھا اور یہ سارا کام مون سون کی بارشوں سے پہلے مکمل کرنا تھا‘ لیکن تعمیر کی ذمہ دار ٹیم نے سخت محنت سے یہ مشکل کام مقررہ وقت میں مکمل کر لیا گیا اور اب ہندوستان سے پاکستان میں واقع بابا گرونانک کے گوردوارے تک ایک ایسی راہداری ہے جہاں سے ہندوستان میں بسنے والے بابا کے پرستار بہ آسانی یاترا کیلئے آسکتے ہیں۔ اس سفر میں انہیں ویزہ لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ سرحد کے قریب پاکستانی بارڈر ٹرمینل ہے جہاں پر اِمیگریشن سینٹر ہے۔ یہیں پر کرنسی ایکسچینج کا انتظام ہے۔ گوردوارہ کے درشن کے لیے بیس ڈالر کا ٹکٹ ہے۔ اس ٹرمینل سے گوردوارہ کا فاصلہ صرف 3.5 کلومیٹر ہے۔ ہندوستان سے آنے والے یاتری چاہیں تو گوردوارہ تک پیدل آسکتے ہیں اور چاہیں تو ان بسوں پر گوردوارہ تک کا سفر کر سکتے ہیں جو یہاں ہر وقت تیار کھڑی ہوتی ہیں۔ گوردوارہ پہنچ کر درشن ڈیوڑھی کی عمارت نظر آتی ہے۔ گوردوارہ میں درشن ڈیوڑھی کے نام سے دو ایک جیسی عمارات ہیں ایک درشن ڈیوڑھی سے پاکستانی داخل ہوتے ہیں اور دوسری درشن ڈیوڑھی سے غیرملکی۔
ہم نے درشن ڈیوڑھی سے داخل ہوکر کانفرنس روم میں گوردوارہ کی تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اب ہمیں گوردوارہ کے اندر جانا تھا۔ درشن ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک بڑی میز پر گوردوارہ کے ماسٹر پلان کا ماڈل نظر آتا ہے‘ جس میں گوردوارہ کے مختلف حصوں کو دکھایا گیا ہے۔ ہر مقدس مقام کی طرح یہاں بھی سب لوگ سر ڈھانپے ننگے پاؤں چل رہے ہیں۔ ہمارے سامنے سنگِ مرمر کی سفیدی کی وسعت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے اردگرد لوگوں کی بھیڑ ہے جس میں مختلف رنگوں، نسلوں اور مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ دائیں طرف برآمدے میں چلتے ہوئے اب ہم گوردوارہ کے مقدس تالاب کی طرف جا رہے ہیں۔ اس تالاب کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ مردوں اور دوسرا حصہ عورتوں کیلئے۔ مردوں کا تالاب اوپر سے کھلا اور عورتوں کا تالاب اوپر سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس تالاب کے پانی کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔
مقدس تالاب کو دیکھنے کے بعد اب ہم لنگر خانہ کی طرف جا رہے ہیں۔ لنگر خانہ کا تصور ہر بزرگ کی درگاہ سے وابستہ ہے جہاں دور و نزدیک سے آنے والے لوگوں کو مفت کھانا میسر ہوتا ہے۔ بابا گرو نانک کی زندگی میں بھی عام لوگوں کیلئے لنگر جاری رہتا تھا‘ جہاں دورونزدیک سے لوگ آتے تھے۔ گوردوارہ کا لنگرخانہ ایک وسیع ہال پر مشتمل ہے‘ جہاں چٹائیوں کی صفیں بچھی ہیں جن پر زائرین بیٹھے ہیں۔ میں اور صہیب بھی ایک چٹائی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں ہندوستان سے آئے ہوئے زائرین بیٹھے ہیں۔ لنگرخانہ میں سیواداروں کی مستعد ٹیم ہے جو زائرین کی خدمت پر مامور ہے۔ ہمارے سامنے پلیٹیں رکھ دی گئیں۔ آج کے مینیو میں چاول، کڑھی پکوڑے، اچار، روٹی اور پھل شامل ہیں۔ یہاں کے خدمت گزار بار بار سب کے پاس آ کر پوچھ رہے ہیںکہ انہیں کوئی اور چیز تو نہیں چاہیے۔ اس ڈائننگ ہال کی وسعت ایسی ہے کہ اس میں ایک وقت میں اڑھائی ہزار لوگ کھانا کھا سکتے ہیں۔ لنگرخانہ سے نکل کر اب ہم ایک چبوترے کی طرف جا رہے ہیں جہاں پر سکھوں کی مقدس کرپان کا ماڈل رکھا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ تصویریں بنوا رہے ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر دور تک وہ زمین دکھائی دیتی ہے جسے کھیتی شریف کہتے ہیں۔ کبھی اسی زمین پر بابا گرو نانک خود کاشت کیا کرتے تھے۔
چبوترے سے اتر کر اب ہم اس کنویں کی طرف جا رہے ہیں جو بابا گرو نانک کے زمانے کا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک اس کنویں میں پانی کی فراونی ہے۔ سکھ زائرین اس پانی کو متبرک سمجھتے ہیں اور بوتلوں میں پانی بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اب یہاں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ایک واٹر پلانٹ بھی لگایا جا رہا ہے جس کی بدولت پانی کی پیکنگ مختلف سائز کی بوتلوں میں کی جائے گی۔ اب گوردوارہ کی دودھیا فضاؤں میں دور ہمیں موسیقی کے ہمراہ گُرو گرنتھ کے جاپ کی آوازیں آرہی ہیں۔ ان آوازوں کا مرکز سفید رنگ کی پرانی عمارت ہے۔ ان آوازوں کا سحر ہمیں اپنی طرف بلا رہا ہے۔ ہم تیز تیز قدم اٹھاتے قدیم عمارت کی طرف جا رہے ہیں۔ ننگے پاؤں سفید فرش پر چلتے ہوئے ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے چند قدموں کا فاصلہ صدیوں پر پھیل گیا ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں