یہ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے کا ذکر ہے جب راولپنڈی کی آبادی ہندوؤں‘ سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ راولپنڈی شہر میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی اور مسلمان تعداد میں کم تھے اور پھر مالی لحاظ سے بھی ہندو اور سکھ زیادہ مستحکم تھے۔ خاص کر سکھ تو راولپنڈی میں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک تھے۔ عیسائی کمیونٹی تعداد میں کم تھی لیکن انگریزوں کے دورِ حکومت میں خود کو اقتدار سے قریب سمجھتی تھی۔ مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی عبادات کے لیے مذہبی عمارات تعمیر کی تھیں جو ان کی شناخت کا ذریعہ بھی تھیں یوں راولپنڈی میں مندر‘ مسجدیں‘ گوردوارے اور گرجا گھر شہر کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے تھے ‘جہاں لوگ اپنی عبادت کے لیے جاتے تھے۔یوں تو راولپنڈی کے ہر محلے میں مسجد تھی لیکن مسلمانوں کا خیال تھا ایک مسجد ایسی ہونی چاہیے جو اپنی طرزِ تعمیر‘ خوبصورتی اور شان وشوکت میں سب سے ممتاز ہو اور وہ اپنی ممتاز حیثیت کی بدولت مرکزی مسجد کہلائے۔ اس خواہش کے پس منظر میں اپنی ایک مقصد اپنی شناخت کو مستحکم کرنا تھا۔ ایک پُرشکوہ مسجد کی خواہش اپنی جگہ لیکن بنیادی مسئلہ مالی وسائل کی عدم موجودگی تھا۔ اس کے لیے چندے کی مہم شروع کی گئی۔ ایک جذبے کے ساتھ مسلمان اس مہم میں شریک ہو گئے۔ شہر بھر میں چندہ جمع کرنے کے مراکز بنائے گئے۔ پہلے مرحلے میں ایک پلاٹ خریدا گیا لیکن تعمیر کے لیے وسائل کافی نہیں تھے‘ اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی اس میں ایک نمایاں نام راولپنڈی کے رہنے والے بیرسٹر سراج الدین قاضی کا تھا۔ یاد رہے بیرسٹر سراج الدین قاضی سرسید احمد خان کے رفیقِ کار کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ لال کرتی میں ان کی بہت بڑی حویلی تھی۔ کئی برس بعد کی بات ہے میں اس حویلی میں کئی بار گیا کیونکہ وہاں میرا دوست قاضی ندیم رہتا تھا اور قاضی سراج صاحب اس کے پڑدادا تھے۔
معروف ادیب عزیز ملک کے مطابق بیرسٹر سراج کے علاوہ میاں قطب الدین اور میاں نبی بخش بھی مسجد کی تعمیر میں پیش پیش تھے۔ گوجر خان کے قاضی گوہر دین نے بھی گھر گھر جا کر چندے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسجد کی تعمیر کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشن بنا لیا تھا۔ عام مسلمان بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ ڈال رہے تھے۔ کہتے ہیں عورتوں نے اپنے زیور چندے میں دے دیے۔ ایک روایت کے مطابق عورتیںآٹا گوندھتے ہوئے ایک مٹھی خشک آٹا مسجد کی تعمیر کے لیے علیحدہ سے ڈال دیتی تھیں۔ مردوں نے مسجد کی تعمیر میں رضاکارانہ خدمات پیش کر دی تھیں اور وہ بلا معاوضہ مزدوری کرتے تھے۔ ادھر مالی وسائل کے لیے مہم جاری تھی کہ ایک اور رکاوٹ نے سراٹھایا۔ ہندوؤں نے مجوزہ جگہ پر مسجد کی تعمیر پر بھرپور احتجاج شروع کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کی تجویز کردہ جگہ کے قریب ہی ہندوؤں کا مندر ہے۔ راولپنڈی شہرمیں سکھ مالی لحاظ سے انتہائی مستحکم پوزیشن میں تھے‘ وہ بڑی جائیدادوں کے مالک تھے۔ مسجد کی تعمیر کے مسئلے پر سکھ بھی ہندوؤں کے ساتھ احتجاج میں شریک ہو گئے۔مسجد کی تجویز کردہ جگہ کے نزدیک ہی راولپنڈی کا قدیم سینما ''لکشمی‘‘ کے نام سے تھا‘ اس کے مالکان کی بھی خواہش تھی کہ اس جگہ مسجد نہ بنائی جائے کیونکہ اس سے ان کاروبار متاثر ہوگا۔ یوں مسلمانوںکو ایک طرف تو مالی وسائل کی کمی کا سامنا تھا اور دوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں کا شدید دباؤ تھا کہ اس جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی جائے‘ اور پھرمسلمان تعداد میں بھی کم تھے اور مالی لحاظ سے بھی کمزور تھے‘ ان سب باتوں کے باوجود مسجد کی تعمیر کے معاملے پر انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا اور سخت تناؤ کے ماحول میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیا۔ یہ 1896ء کا سال تھا جب مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ مسجد کی عمارت کا نقشہ کیسا ہو؟ اس پر مختلف لوگوں نے اپنی آرا دیں۔ بہت سی تجاویز میں سے آخر ایک تجویز پر سب متفق ہو گئے۔ فیصلہ ہوا کہ مسجد کا نقشہ قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کے نقشے کے مطابق بنایا جائے۔ مسلمانوں کی آرزو تھی کہ یہ مسجد سب سے الگ تھلگ اور سب سے ممتاز نظر آئے۔ تعمیر کے لیے اعلیٰ درجے کا سامان منگوایا گیا۔ مالی وسائل کی کمی کے باوجود معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ مسجد میں ایک تہہ خانہ بھی بنایا گیا۔مسجدکا بڑا ہال اور وسیع صحن تھا۔ وسعت اتنی تھی کہ اس میں بیک وقت 10ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ صحن کے درمیان وضو کے لیے تالاب بنایا گیا‘ مسجد کے تین خوب صورت گنبد اور بارہ مینار بنائے گئے۔ مسجد کی دیواروں‘ ستونوں اور چھتوں پر خوب صورت نقش نگاری کی گئی۔ ان بیل بوٹوں اور نقش و نگار میں محبت اور عشق کی مہک آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ تعمیر کا کام آہستہ روی سے چلتا رہا کیونکہ مالی وسائل کا اہتمام بھی قسطوں میں ہو رہا تھا۔ شہر کے بسنے والے لوگ زیر تعمیر مسجد کو دیکھنے کو آتے اور دل میں فخر کا جذبہ محسوس کرتے۔ مسجد کی تعمیر کمیٹی نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا کہ مسجد کو مالی لحاظ سے مستحکم کرنے کے لیے اس کے صدر دروازے کے ساتھ دکانیں بنائی جائیں جن کی آمدنی مسجد کے اخراجات کے لیے کام میں لائی جائے۔
جب1902ئمیں مسجدبن کر تیار ہوئی تو یہ واقعی طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار تھی۔اس کا نقشہ مسجد اقصیٰ کے نقشے پر تھا۔ یہ مسجد نہ صرف ایک عبادت گاہ تھی بلکہ مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کا مرکز بھی بن گئی۔ مسلمانوں کا وہ خواب کہ ان کی شناخت کی ایک مرکزی علامت ہو‘ پورا ہو گیا تھا۔ یوں تو اس سے پہلے بھی راولپنڈی میں بہت مسجدیں تھیں لیکن اس مسجد کی تعمیر سے مسلمانوں کو ایک مرکزی مسجد مل گئی۔ اس مسجد میں نامور مقررین آئے اور جلسوں سے خطاب کیا‘ ان میں مولانا انور کاشمیری‘ مولانا ظفر علی خان اور عطا اللہ شاہ بخاری شامل تھے۔
مسجد کے افتتاح کے موقع پر پیر مہر علی شاہ صاحب اور افغانستان کے سابق شاہ نے بھی شرکت کی۔ یہ مسلمانوں کے خواب کی تکمیل کا دن تھا۔ ان کی محبت‘ ان کا جذبہ اور ان کا جنون آخرکار رنگ لایا تھا اور چھ سال کی لگاتار محنت کے بعد1902ء میں مرکزی جامع مسجد اپنی پوری آب و تاب سے کھڑی تھی۔پہلے جمعہ کے موقع پر مسجد میں لوگوں کا بڑا اجتماع تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں پہلا جمعہ پڑھانے کا اعزاز سید محمود شاہ صاحب کے حصے میں آیا۔
اب اس مسجد کی تعمیر کو سوا صدی گزر چکی ہے لیکن اس کی مرکزیت اب بھی قائم و دائم ہے۔ مسجد تک جانے والی سڑک کا نام بھی جامع مسجد روڈ ہے۔ اب بھی راولپنڈی کے مختلف حصوں میں رہنے والے لوگ جب اس مسجد میں آتے ہیں تو یہاں آکر انہیں ایک خاص سکون محسوس ہوتا ہے۔ شاید اس کی وجہ ہزاروں لوگوں کی محبت‘ محنت اور عشق کی وہ لازوال دولت ہے جو اس مسجد کی بنیادوں میں ہے اور جو اس کے گنبدوں‘ میناروں‘ ستونو ں‘ چھتوں اور دیواروں میں خوش رنگ بیل بوٹوں کی شکل میں تا ابد مہکتی رہے گی۔