"SSC" (space) message & send to 7575

راولپنڈی: شہرِ دلربا

راولپنڈی کو دیکھنے کے کئی زاویے ہیں اور اس تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں‘ لیکن میرا راولپنڈی سے رشتہ بالواسطہ نہیں براہِ راست ہے۔ راولپنڈی کے ہی بانکے سجیلے شاعر باقی صدیقی نے کہا تھا ؎
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
میں بھی راولپنڈی تک سیدھے راستے سے آیا اور راولپنڈی نے مجھے اپنی آغوش میں بھر لیا۔ اس شہر کو بیان کرنا میرے لیے مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راولپنڈی میری محبت ہے اور محبت کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یوں بھی راولپنڈی کی پہچان کے کتنے ہی رنگ ہیں‘ کس کا انتخاب کریں اور کس کو چھوڑیں‘ بڑا مشکل کام ہے۔ راولپنڈی کا نام راولپنڈی کیوں ہے‘ اس کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ راول ایک قبیلہ تھا جس کے نام پر اس بستی کا آغاز ہوا۔ پنڈ مقامی زبان میں گاؤں کو کہتے ہیں اور پنڈی اسم تصغیر ہے۔ یقینا یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتا تھا۔ راولپنڈی یعنی راول کا گاؤں۔ راول قبیلے کو کیا خبر تھی کہ وقت کے ساتھ یہ چھوٹا سا گاؤں ایک دن بڑے شہر میں بدل جائے گا اور پھر یہ شہر متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی سب سے بڑی چھاؤنی بن جائے گا۔ انگریزوں نے راولپنڈی کا انتخاب اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے کیا تھا۔ اس علاقے پر سکھوں کی ایک طویل عرصے تک حکومت رہی۔ 1849ء میں جب سکھوں کو ایسٹ انڈیا کی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی تو پنجاب انگریزوں کے تسلط میں چلا گیا۔ انگریزوں کے لیے شمالی علاقوں میں ابھی تک مزاحمت کے آثار تھے‘ لہٰذا راولپنڈی کو مرکز بنا کر نہ صرف شمالی علاقہ جات میں مزاحمت کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا بلکہ چین اور روس کی سرحدوں پر بھی نظر رکھی جا سکتی تھی۔ راولپنڈی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب 1886ء میں یہاں ریلوے لائن کا آغاز ہوا۔ ریلوے سے راولپنڈی کا دوسرے شہروں سے رابطہ آسان ہو گیا اور یوں راولپنڈی میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملا۔
راولپنڈی کو جغرافیائی لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کینٹ کا علاقہ جہاں چھاؤنی قائم کی گئی اور دوسرا شہر کا علاقہ جہاں راولپنڈی کے قدیم محلے آباد تھے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان حدِ فاصل نالہ لئی تھا۔ راولپنڈی کی دو اہم سڑکیں مری روڈ اور مال روڈ تھیں۔ مال روڈ پر انگریزوں کے دور کی نشانیاں‘ چرچ اور پنڈی کلب ابھی تک باقی ہیں۔ اسی مال روڈ پر سرسید کالج واقع تھا جہاں میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم رہا تھا۔ مال روڈ کے قریب ہی صدر کا علاقہ آتا ہے جہاں کی بینک روڈ اور کشمیر روڈ زندگی سے دھڑکتی تھیں۔ یہاں کی پُرشکوہ عمارت جنرل پوسٹ آفس کی تھی۔ اسی جنرل پوسٹ آفس میں انعام بھائی کام کرتے تھے اس لیے وہاں اکثر جانے کا موقع ملتا۔ صدر میں بینک روڈ پر ورائٹی بک شاپ‘ سٹوڈنٹس بک کمپنی اور ادریس بک کمپنی واقع تھیں۔ کامران ہوٹل‘ برلاس ہوٹل‘ شیزان اور شالیمار ہوٹل ہم دوستوں کے ٹھکانے ہوتے۔ بعد میں داتا ہوٹل بھی محفلوں کا مرکز بن گیا۔ شہر کے اس حصے میں اہم علاقوں میں لالکرتی‘ 22 نمبر چونگی‘ ٹینچ بھا ٹہ‘ آوڑہ‘ مریڑ حسن‘ جھنڈا چیچی‘ ٹاہلی موہڑی‘ ڈھیری حسن آباد اور لالہ زار کے علاقے شامل تھے۔ کینٹ اور شہر کے درمیان معروف سیڑھیوں والا پل تھا اس سے ذرا پہلے آڈٹ آفس تھا جسے کلکتہ آفس کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں کے ملازمین کی اکثریت کلکتہ سے آئی تھی۔ گوالمنڈی کے سیڑھیوں والے پُل سے آگے گوالمنڈی کا علاقہ شروع ہوتا تھا جہاں کثیر تعداد ہندوؤں کی تھی جو مالی لحاظ سے بہت مستحکم تھے۔ اس زمانے کے مندر‘ بوسیدہ حالت میں‘ اب بھی موجود ہیں۔ گوالمنڈی کے پل سے گزرتے ہی ایک سڑک بائیں ہاتھ جاتی تھی جسے سٹی صدر روڈ کہتے تھے۔ اگر ہم مال روڈ سے مری روڈ پر شہر کی طرف جائیں تو دائیں ہاتھ مریڑ حسن آتا ہے اور پھر گوالمنڈی کا وہ پل جس سے گزر کر آگے جائیں تو دائیں ہاتھ راولپنڈی کی پرانی آبادی آریہ محلہ آتا ہے اور بائیں ہاتھ تاریخی کمپنی باغ جہاں پر پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد کمپنی باغ کو لیاقت باغ کا نام دیا گیا۔ کئی برس بعد اسی لیاقت باغ میں پاکستان کی ایک اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے ذرا آگے بائیں ہاتھ راولپنڈی کا پرانا محلہ بھابھڑا بازار ہے‘ یہیں پر راولپنڈی کی ایک تاریخی حویلی ہے جسے سوجان سنگھ کی حویلی کہا جاتا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر لال حویلی ہے جو دراصل دھن راج سہگل نے تعمیر کرائی تھی اور اس کا پرانا نام سہگل حویلی تھا۔ بھابھڑا بازار سے تین میل کے فاصلے پر باغ سرداراں ہے یہ کسی زمانے میں راولپنڈی کا مرکزی باغ ہوا کرتا تھا جہاں انواع و اقسام کے پھل دار درخت ہوا کرتے تھے۔
لیاقت باغ سے بائیں ہاتھ جائیں تو راولپنڈی کا تاریخی کالج گورڈن کالج آتا ہے جہاں سے میں نے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس سڑک پر سیدھا جائیں تو بائیں ہاتھ ایک سڑک گوالمنڈی کو جاتی ہے۔ سڑک پر سیدھا جائیں تو بائیں ہاتھ امپریل سینما آتا تھا جسے گرا کر اب امپریل مارکیٹ بنا ئی گئی ہے جہاں غیرملکی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں‘ اسی لیے اسے باڑہ مارکیٹ بھی کہتے ہیں۔ یہیں فوارہ چوک اور راولپنڈی کا پرانا راجہ بازار ہے۔ ذرا دور راولپنڈی کی تاریخی مرکزی جامع مسجد ہے جو 1902ء میں تعمیر کی گئی تھی اور طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔
اب تو راولپنڈی میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہے لیکن ابتدائی دنوں میں گنے چنے سکول ہوتے تھے جن میں اسلامیہ سکول‘ مشن سکول‘ ڈینیز سکول‘ خالصہ سکول اور سینٹ میریز سکول شامل تھے۔ ان سب سکولوں کی عمارتوں کو دیکھیں تو جو چیز مشترک نظر آتی ہے وہ کھیلوں کے وسیع میدان ہیں۔ اب تو سکول سمٹ کر کوٹھیوں تک محدود ہو گئے ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں راولپنڈی کی شہرت ایک ایسے شہر کی تھی جہاں سڑکوں اور گلی کوچوں میں صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ ابھی آبادی کا اتنا پھیلاؤ نہیں ہوا تھا‘ راولپنڈی کی مال روڈ‘ ڈلہوزی روڈ (اب کشمیر روڈ) اور ایڈورڈز روڈ (اب بینک روڈ) پر آنے جانے والوں کی خوب رونق ہوتی تھی۔ شہر کے باغوں میں باغ سرداراں کی خاص اہمیت تھی‘ شام کے وقت لوگ ٹولیوں میں اکٹھے ہوتے اور گپ شپ ہوتی۔ 1947ء کے بعد شہر کی آبادی یکسر بدل گئی‘ ہندو اور سکھ اپنے گھروں کو چھوڑ کر سرحد پار چلے گئے۔ اس بات کو ایک عرصہ بیت گیا ہے لیکن اس دور کی مٹتی ہوئی نشانیاں اب بھی نظر آتی ہیں۔ میں نے اس شہر کو اپنے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا تھا۔ اُس وقت کے راولپنڈی اور آج کے راولپنڈی میں واضح فرق ہے‘ یہ فرق نہ صرف عمارتوں میں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ لوگوں کے رویوں میں بھی جھلکتا ہے۔ شاید زندگی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اس تیز دنیا میں محفلوں کا وقت باقی نہیں ہے۔ ایک دوڑ ہے جس میں ہم سب شریک ہیں‘ اس تیز رفتار دوڑ میں میرا پرانا پنڈی کہیں کھو گیا ہے۔ صاف ستھرا‘ خاموش اور معصوم پنڈی۔ شاید ہر ڈویلپمنٹ کی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے‘ لیکن نجانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم نے ترقی کی اس دوڑ میں پایا کم اور کھویا زیادہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں