"SSC" (space) message & send to 7575

ٹورونٹو اور وقت کا بہتا دریا …(آخری قسط)

آج چھٹی کا دن تھا اور صبح کا وقت۔ میں ہر روز کی طرح اپنی عادت سے مجبور صبح سویرے جاگ کر لاؤنج میں آ گیا تھا اور کافی پینے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی ورق گردانی کررہا تھا کہ شعیب بھی آگیا۔ میں نے کتاب میز پر رکھ دی اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ شعیب کہنے لگا: کل آپ نے واپس پاکستان چلے جانا ہے کیوں نا آج ہم ٹورونٹو کے جزیرے (Toronto Island) کی سیر کو جائیں؟ میں نے کہا: بالکل ہم آج کے دن کو یادگار بنائیں گے۔ کھڑکی سے باہر موسم ابر آلود تھا کچھ دیر کے لیے سورج بادلوں سے نکلتا تو نرم دھوپ سے چیزیں روشن ہو جاتیں۔ ابھی ہم ٹورونٹو جزیرے کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ لکڑی کی سیڑھیوں پر قدموں کی آواز آئی‘ یہ صہیب تھا۔ اس کا کمرہ اوپر کی منزل پر تھا۔ لاونج میں مجھے اور شعیب کو باتیں کرتے دیکھ کر وہ بھی ہمارے پاس آ بیٹھا۔ ٹورونٹو آئی لینڈ کا ذکر سن کر کہنے لگا: میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔ عام دنوں میں اس کے آفس کے اوقات شام تک ہوتے ہیں لیکن آج چھٹی تھی اس لیے اسے فراغت تھی۔ اسما اور ثنا آج آرام کرنا چاہتی تھیں سو ہم نے انہیں آرام کرنے دیا اور میں‘ صہیب اور شعیب‘ صہیب کی گاڑی میں ڈاؤن ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گئے جو ہمارے گھر سے تقریباً آدھ گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ ہماری منزل واٹر فرنٹ تھا۔ صہیب نے پارکنگ لاٹ میں گاڑی پارک کی اور ہم تینوں واٹر فرنٹ کے کنارے واقع ریستوران میں چلے گئے اور وہاں سے کافی لے کر پانیوں کے کنارے بچھی سفید کرسیوں پر جا بیٹھے۔ اب ہمارے سامنے دور دور تک پانیوں کا بسیرا تھا ان پانیوں کے درمیان وہ جزیرہ تھا جہاں ہمیں جانا تھا۔
جزیرے تک پہنچنے کے لیے ہم نے Water Taxi کا انتخاب کیا۔ اس میں تقریباً دس‘ بارہ مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ Water Taxi کی ڈرائیور ایک لڑکی تھی جو شاید کسی مقامی یونیورسٹی یا کالج کی طالبہ تھی۔ Summerکے سیزن میں یونیورسٹی کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیسے کمانے کے لیے عارضی نوکریاں کرتے ہیں۔ یہاں طالب علموں کا پارٹ ٹائم نوکری کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ واٹر ٹیکسی پانیوں کا سینہ چیرتی تیز رفتاری سے جزیرے کی طرف جارہی تھی۔ ہمیں اپنے پیچھے CN ٹاور اور دوسری عمارتیں پانی کی پھوار کے پرے نظر آرہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم آئی لینڈ پہنچ گئے۔ یہ ایک وسیع و عریض جزیرہ ہے جہاں گھاس کے سرسبز میدان ہیں‘ سایہ دار درخت ہیں‘ رنگ رنگ کے پھول ہیں اور سب میں ایک قرینہ اور سلیقہ نظر آرہا ہے۔
یہاں بچوں‘ بڑوں‘ عورتوں‘ مردوں‘ نوجوانوں اور بوڑھوں سب کی دلچسپی کے سامان ہیں۔ ہم پختہ راستے پر چلنے لگے۔ میں نے دیکھا ہمارے آگے راستے پر چلتے ہوئے مختلف ممالک کے لوگ اس جزیرے کی کشش میں یہاں آئے تھے اور چھٹی کے دن اس خوبصورت موسم میں ٹورونٹو آئی لینڈ کے حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ چلتے چلتے ہم ایک بڑے فوارے کے پاس پہنچ گئے جس کے گردا گرد سنگِ مرمر کی دیوار تھی یہ ایک اہم فوٹو شوٹ پوائنٹ تھا جہاں لوگ اس خوبصورت فوارے کے پس منظر میں تصویریں بنا رہے تھے۔ لوگوں کی ایک لہر تھی جو رواں دواں تھی‘ ان میں سے اِکاد کا لوگ سائیکل چلا رہے تھے۔ آئی لینڈ میں سائیکلیں کرائے پر مل جاتی ہیں جس پر آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں۔ فوارے پر کچھ دیر رک کر ہم پھر چلنے لگے۔ اب ہمارے سامنے پھر Lake Ontarioتھی اور پانیوں کے اندر تک جاتا ہوا پُل نما تختہ جس کے ہر گرد ریلنگ تھی اور جہاں سے ہر طرف پانیوں کی وسعت نظر آتی تھی۔ یہ تصویریں بنانے کے لیے سیاحوں کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ریلنگ پکڑ کر ہم دیر تک پانیوں پر چلتے چھوٹے چھوٹے بجرے دیکھتے رہے۔ واپسی کے سفر میں ہمیں بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے ہی ریستورانوں کا ایک جھنڈ تھا اس میں ایک Pizza Pizzaبھی تھا۔ ہم سامنے بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے‘ صہیب اور شعیب آرڈر دینے چلے گئے‘ گاہکوں کی ایک طویل قطار تھی جس میں وہ بھی شامل ہو گئے۔ ان کی واپسی میں دیر تھی میں اپنے سامنے خوبصورت ساحل کو دیکھنے لگا جہاں سنہری ریت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ آئی لینڈ میں کم از کم تین Beaches ایسے ہیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ میں سفید کرسی پر بیٹھا پانی کی آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وقت بھی ان لہروں کی طرح ہے کبھی ایک مقام پر رُکتا نہیں پھر مجھے اپنی بیٹی انعم کا خیال آگیا جو امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں رہتی ہے۔ ہمارے ٹورونٹو میں قیام کے دوران وہ کچھ دنوں کے لیے ہم سے ملنے عبداللہ کے ہمراہ ٹورونٹو آئی تھی۔ کیسے ہم اس کی آمد کے لیے دن گن رہے تھے۔ اس نے آنے سے پہلے کہا تھا کہ اس نے CNٹاور ضرور جانا ہے۔ انعم آئی تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ ہم اس کی فرمائش پر CN ٹاور گئے جو ڈاؤن ٹاؤن میں کینیڈا کی اہم پہچان ہے۔ بہت بلندی پر ایک راہداری شیشے کی ہے جس کے اوپر چلیں تو دور نیچے سڑک کا منظر نظر آتا ہے۔ کافی پینے کے لیے ہم ٹاور میں واقع ایک ریستوران میں چلے گئے جس کی شیشے کی دیوار سے ادھر نیچے ہمیں چھوٹا سا ایئر پورٹ نظر آرہا تھا اور سڑک پر آتی جاتی گاڑیاں کھلونوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ CN ٹاور میں 360 ریستوران بھی ایک دلچسپ جگہ ہے یہ ایک Revolvingریستوران ہے جہاں بیٹھ کر گلاس وال سے باہر کے خوبصورت منظر نظر آتے ہیں۔ ٹاور سے نیچے آتے ہوئے لفٹ جس فلور پر رکتی ہے وہاںپورا شاپنگ سنٹر آباد ہے۔ یہاں سے کچھ چیزیں خریدنے کے بعد ہم چائینز ریستوارن گئے جس کا مالک ایک چینی تھا جو کئی برس پہلے کینیڈا میں آباد ہوا تھا اور اسلام قبول کر لیا تھا۔ وہ ایک یادگار دن تھا۔ اگلے روز انعم واپس امریکہ چلی گئی۔ اس کے ساتھ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ آج میں آئی لینڈ کی نرم دھوپ میں سفید کرسی پر بیٹھا Lake Ontarioکی آتی جاتی لہروں کو دیکھ رہا ہوں جو میرا دھیان کہیں اور لے گئی ہیں۔ اچانک صہیب کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ شعیب کے ہمراہ Pizzaاور ڈرنکس لے کر آگیا تھا۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ اس راستے پر چلنے لگے جس کے اردگرد خوش رنگ پھول کھلے تھے۔ اس جزیرے میں ایک گوشہ پرندوں کا ہے اور ایک جانوروں کا فارم ہے۔ بچوں کے لیے ایک Amusement Parkہے۔ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک جاتی ہوئی لہروں میں کشتیاں کرائے پر ملتی ہیں اور ایک جگہ لمبے درختوں میں بھول بھلیاں (Maze) ہیں جہاں سربلند درختوں میں گھر ے راستوں پر آپ گم ہو جاتے ہیں۔ چلتے چلتے اب ہم تھک گئے تھے لیکن جی چاہ رہا تھا کہ فطرت کی ان خوبصورتیوں کو دل کے آئینے میں اتارتے چلے جائیں۔ صہیب نے کہا: اب واپس چلیں؟ میں نے کہا: بس کچھ دیر اور‘ میں پانیوں کے کنارے اس سنہری ریت پر کچھ دیر بیٹھنا چاہوں گا۔ صہیب اور شعیب بھی میرے ساتھ ریت پر بیٹھ گئے۔ اب ہمارے سامنے دور دور تک پھیلے پانیوں کی وسعت ہے۔ آسمان پر سفید بادل ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ کل مجھے واپس پاکستان کے لیے روانہ ہونا ہے۔ میں تیس سال بعد ٹورونٹو آیا تھا۔ اس دوران ٹورونٹو میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ نجانے وہ ٹورونٹو کہاں کھو گیا؟ پانیوں کے کنارے بچھی سنہری ریت پر بیٹھے میں سوچتا ہوں وقت بھی تو بہتے دریا کی مانند ہے‘ ایک مقام سے گزر جائے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں