عبدالخالق کے ٹیلنٹ کو آرمی کی آٹھ میڈیم رجمنٹ نے مزید نکھارا اور سنوارا۔اب اس کا زیادہ وقت ریسنگ ٹریک پر گزرتا۔ عبدالخالق کے جذبے اور شوق کو دیکھ کر اس کو تربیت دینے والے کو چز کو یقین تھا کہ ایک دن وہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ عبدالخالق جب چھٹی لے کر اپنے گاؤں آتا تو گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں داخل ہوتے ہی اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔ گاؤں کے لڑکے اسے دیکھنے اور اس سے ملنے اس کے گھر پہنچ جاتے۔ اس روز ماسٹر سجاول کے گھر خوب رونق ہوتی۔ عبدالخالق کی ماں اپنے بیٹے کی بلائیں لیتی گھر کے صحن میں چارپائیاں بچھ جاتیں اور گاؤں کے لوگوں کا تانتا بندھ جاتا۔ وہ چھٹی اس حساب سے لے کر آتا کہ گاؤں کے میلے میں شریک ہو سکے جہاں کبڈی کے میچ میں اس کی مہارت کے جوہر کھلتے۔ ایک بار اسی طرح جب وہ فصلوں کی کٹائی کے موقع پر گاؤں آیا ہوا تھا اسے پتا چلا کہ قریب کے ایک گاؤں میں کبڈی کے ایک پلیئر کا بڑا چرچا ہے‘ عبدالخالق نے اعلان کیا کہ وہ اس کو شکست دے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی ٹیلی وژن پاکستان میں نہیں آیا تھا ٹیلیفون کی سہولت بھی نہیں تھی لیکن عبدالخالق کا یہ چیلنج جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گیا۔اس زمانے میں لوگوں کی واحد تفریح میلے ہوتے تھے جو فصلوں کی کٹائی کے بعد خوشی کا اظہار ہوتے۔ اس روز چھوٹے بڑے تیار ہو کر خوش خوش میلے کی طرف روانہ ہوتے اکثر میلے دو یا تین دن تک جاری رہتے۔ آخری دن کبڈی کے لیے مخصوص ہوتا جب ایک بڑے میدان میں‘ جسے پوٹھوہاری زبان میں پِڑکہتے ہیں‘ تماشائی کبڈی دیکھنے کے لیے جمع ہوتے۔ مختلف گاؤں سے ٹیمیں اس میں شرکت کرتیں‘ ان کے ساتھ ان کے اپنے سپورٹرز اور ڈھول پارٹی ہوتی۔ اس روز تماشائی حیران رہ گئے جب دبلے پتلے نوخیز لڑکے عبدالخالق نے پنجاب کی سطح پرایک کبڈی کے ایک نامور کھلاڑی کو شکست دی تھی۔
یہ 1954ء کا ذکر ہے جب ایک دن اس کے کوچ نے اسے بتایا کہ فلپائن کے شہر منیلا میں ایشیائی کھیلوں کے مقابلے ہو رہے ہیں اور اس میں 100میٹر اور 200میٹر ریس کے مقابلے بھی ہوں گے۔ یہ خبر سن کر عبدالخالق کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ یہ تو اس کا خواب تھا کہ وہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرے۔ اس وقت 100میٹر ریس کا اعزاز بھارت کے کھلاڑی Lavy Pinto کے پاس تھا جو اس نے 1951ء میں بھارت میں منعقد ہونے والے پہلے ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں حاصل کیا تھا۔ Lavy Pinto نے 100 میٹر کا فاصلہ صرف 10.8 سیکنڈز میں طے کیا تھا۔
آخر وہ دن آ ہی گیا جب وہ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے منیلا پہنچا۔ اور اب دوڑ کے آغاز میں ریسنگ ٹریک پر کھڑے عبدالخالق کو اپنے گاؤں جند اعوان کے وہ ریتلے اونچے نیچے میدان یاد آگئے جہاں وہ کبڈی کھیلتا تھا اور لوگ اس کے دوڑنے کا انداز دیکھنے آتے تھے پھر اسے اپنی بے جی (پوٹھوہاری زبان میں ماں) کی یاد آئی جنہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: دیکھنا پتر اپنے ملک کی کنڈ زمین پر نہ لگنے دینا (بیٹے اپنے ملک کی پشت زمین پر نہ لگنے دینا)۔ اسی اثنا میں ریفری کے فائر کی آواز آئی اور وہ دیوانہ وار دوڑنے لگا۔اس کے کانوں میں لوگوں کے شور کی آوازآ رہی تھی لیکن اس کے سامنے اپنی ماں‘بے جی کا چہرہ تھا جو اسے کہہ رہی تھیں ''دیکھنا پتر اپنے ملک کی کنڈزمین پر نہ لگنے دینا‘‘ـ۔دوڑتے دوڑتے اسے یوں لگا اس کے قدم زمین سے اُٹھ گئے ہیں اور وہ ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ تب اس کا سینہ اس ربن سے ٹکرایا جو دوڑ کا فنشنگ پوائنٹ تھا عبدالخالق نے اَن ہونی کو ہونی بنا دیا تھا اس نے Lavy Pintoکا 10.8 سیکنڈز کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ اس نے 100 میٹر کا فاصلہ صرف 10.6 سیکنڈز میں طے کیا تھا۔ اسی سال انگلینڈ میں ٹرائی اینگلور مقابلوں میں عبدالخالق نے 100میٹر کی دوڑ میں پھر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ایک سال میں دو گولڈ میڈل لے کر جب وہ اپنے گاؤں آیا تو پورا گاؤں اسے دیکھنے کیلئے اُمڈ آیا تھا‘ ماں نے اپنے بیٹے کو گلے لگا کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ 1956ء میں تیسرے ایشیائی مقابلے بھارت کے شہر دہلی میں منعقد ہو رہے تھے۔ دہلی کے میدان میں تماشائی بھارتی کھلاڑیوں کو سپورٹ کر رہے تھے۔ 100میٹر ریس کے مقابلے میں اس کا مقابلہ بھارتی ایتھلیٹ روی سے تھا۔ اس روز عبدالخالق نے اپنی زندگی کی بہترین دوڑ دوڑی اور 100میٹر کا فاصلہ صرف 10.4سیکنڈز میں طے کیا۔ جو ایشیا کا نیا ریکارڈ تھا۔ 200 میٹر کی ریس میں اس کا مقابلہ بھارتی کھلاڑی Lavy Pinto سے تھا۔ اس مقابلے میں عبدالخالق نے بھارتی کھلاڑی پنٹوکو پچھاڑ دیا یہ فاصلہ اس نے 21.1سیکنڈز میں طے کیا۔ وہ ریس دیکھنے والے کہتے ہیں‘ اُس روز عبدالخالق دوڑا نہیں اُڑا تھا۔ اسی دوڑ کے بعد ہی بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے عبدالخالق کو Flying Bird of Asia کا خطاب دیا تھا۔ بعد میں یہ خطاب اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ اب بھی وہ پوٹھوہار میں پرندۂ ایشیا کے نام سے جانا ہے اور اس کی قبر کی لوح پر بھی ''عبدالخالق (پرندۂ ایشیا)‘‘ لکھا ہے۔ 1956ء کا سال عبدالخالق کی زندگی کا بہترین سال تھا اس سال اسے 100 میٹر اور 200 میٹر میں دو گولڈ میڈل ملے تھے۔ اسی سال انگلینڈ‘ ایڈنبرا‘ آسٹریلیا میں ہونے والے مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل حاصل کیے۔اسی برس اس نے میلبورن میں ہونے والے اولمپکس کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور سو‘ دو سو اور چار سو میٹرز کی ریس میں حصہ لیا۔ ان مقابلوں میں اس کا شمار سات بہترین اتھلیٹس میں کیا گیا۔
1957ء میں بھی عبدالخالق نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے انگلینڈ میں ہونے والے دوڑ کے سات مقابلوں‘ ایران میں ہونے والے تین مقابلوں اور یونان اور سکاٹ لینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں ہر مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یوں 1957ء میں عبدالخالق نے 11 گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل حاصل کیا۔ 1958ء کے سال کی ابتدا بھی سکاٹ لینڈ‘ جاپان اور چین میں ہونے والے تین مقابلوں میں عبدالخالق نے ہر مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈلز حاصل کر کے کی۔ اسی سال تیسرے ایشیائی کھیل جاپان کے شہر ٹوکیو میں منعقد ہوئے۔ عبدالخالق نے ایک بار پھر 100میٹر کی ریس میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ عبدالخالق کی کھیلوں کے لیے بہترین خدمات کے پیشِ نظر اسے اعلیٰ صدارتی ایوارڈ (Pride of Performance) سے نوازا گیا۔
1959ء میں عبدالخالق نے انگلینڈ‘ آئرلینڈ‘ سویڈن‘ اور پاکستان میں 20 انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لیا اور ان میں 9 گولڈ میڈل‘ 7 سلور میڈل اور 4 کانسی کے میڈل جیتے۔ اب 1960ء شروع ہو گیا‘ اس سال بھی عبدالخالق نے انگلینڈ‘ مصر اور پاکستان میں ہونے والے چھ مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور 5 گولڈ میڈل اور ایک کانسی کا میڈل حاصل کیا۔ اسی سال عبدالخالق نے روم میں ہونے والے اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ یہ کسی بھی کھلاڑی کے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے کہ وہ دو اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرے۔ عبدالخالق کے عروج کا سفر 1954ء میں شروع ہو ا تھا اور اب1960 ء کا سال شروع ہو چکا تھا۔ ایتھلیٹکس کی دنیا میں اتنے طویل عرصے تک پہلے نمبر پر رہنا ایک معجزے سے کم نہیں اور عبدالخالق نے یہ معجزہ کر دکھایا تھا‘ لیکن آنے والے دنوں میں زندگی کے سفر کا ایک غیر متوقع موڑ اس کا منتظر تھا۔ (جاری)