دسمبر کی نرم دھوپ میں لاہور سے اسلام آباد کے سفر کا اپنا ہی لطف ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی روشن دن تھا۔ سردیوں کی دل رُبا دھوپ میں اردگرد کے مناظر اور اجلے لگ رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس دن بھی میں بھیرہ رکا۔ بھیرہ کا قصبہ لاہور اور اسلام آباد کے وسط میں واقع ہے۔ میں اکثر یہاں کچھ دیر رک کر دوبارہ سفر کا آغاز کرتا ہوں۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح میں بھیرہ رکا اور کافی کی اپنی پسندیدہ دکان میں اس میز پر بیٹھ گیا جہاں سے باہر کے منظر صاف نظر آتے ہیں۔ میں نے بلیک کافی کا آرڈر دیا اور بے مقصد باہر دیکھنے لگا۔ بعض اوقات ہم چیزوں کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے۔ شایدکوئی سوچ ہماری نگاہوں کے آگے پردہ تان دیتی ہے۔ کچھ ہی دیر میں دھواں اڑاتی بلیک کافی آگئی۔ پہلے گھونٹ سے ہی بیداری کا احساس ہوا۔ میں نے اپنے بیگ سے کتاب نکالی اور پڑھنے لگا۔ شیشے کی دیواروں سے چھن کر آنے والی دھوپ میں ایک نرم اور خوشگوار تمازت تھی۔
یہ کتاب میں نے ٹورونٹو میں کتابوں کی ایک دکان سے خریدی تھی۔ شیلفوں پر لگی کتابوں میں اس کتاب نے فوراً میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ کتاب کا ٹائٹل ہی کچھ ایسا تھا'' The Age of Surveillance Capitalism‘‘۔ کتاب کی مصنفہ کا نام Shoshana Zuboff ہے۔ سرویلنس کیپٹل ازم کی اصطلاح اب عام ہو چکی ہے‘ جس کے مطابق کارپوریشنز منافع بخش کاروبار کے لیے لوگوں کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور بہت سے لوگ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی پسند ناپسند اور ان کی ترجیحات کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ یوں دورِ حاضر میں جب شخصی آزادی کا سلوگن عام ہے‘ دراصل شخصی آزادی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہاں بیٹھے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ میں نے کتاب بیگ میں رکھی اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ بھیرہ سے آگے سالٹ مائنز کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں پرانی تاریخ کے آثار یہاں وہاں بکھرے نظر آتے ہیں۔
یہاں سڑک نہ صرف ٹیڑھی میڑھی ہے بلکہ اچانک چڑھائی اور پھر اُترائی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی لیے یہاں گاڑیوں کی رفتار کی ایک حد مقرر کی گئی ہے۔ سالٹ رینج کا یہ حصہ کچھ کلو میٹرز تک محدود ہے‘ اس سے آگے کلر کہار کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہر بار سفر میں بھیرہ رکنے کے بعد میں کسی اور ٹرمینل پر رکے بغیر اسلام آباد پہنچ جاتا ہوں لیکن معلوم نہیں یہ دسمبر کی نرم دھوپ کا اثر تھا یا کوئی نامعلوم آواز تھی جس کے تعاقب میں کلرکہار جانے والی سڑک پر چلا گیا جس پر لگے بورڈ آپ کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہاں ایک بار آیا تھا لیکن اس بات کو ایک عرصہ بیت گیا ہے تب میں نے یہاں جھیل دیکھی تھی اور ایک ریستوران کی چھت پر بیٹھ کر چائے پی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ سورج غروب ہونے کا وقت تھا‘ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں سے جھیل صاف نظر آرہی تھی اور شفق کے رنگ پانیوں میں گھل رہے تھے۔ تب میں نے ایک خوش نما منظر دیکھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں پرندے اپنی دن بھر کی اُڑان سے واپس آکر اس تار پر بیٹھ رہے تھے جو دو کھمبوں کے درمیان تنی تھی۔ اس بات کو ایک عرصہ بیت گیا لیکن یہ منظر میرے ذہن میں ابھی تک تازہ ہے۔
آج جب میں ایک مدت بعد یہاں آیا تو میں نے سڑک پر لگا ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا ''تختِ بابری‘‘۔ بورڈ دیکھ کر میرا تجسس جاگ اُٹھا اور میں بورڈ کے بتائے ہوئے راستے پر ڈرائیو کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا جہاں ایک سڑک سیدھی جا رہی تھی اور بائیں ہاتھ ایک راستہ اونچائی کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے گاڑی وہیں کھڑی کی اور پیدل اوپر جانے کا ارادہ کیا۔ تب میری نظر بائیں ہاتھ ایک عمارت پر پڑی۔ یہ ایک میوزیم تھا جو اس علاقے کی قدیم تاریخ سمیٹے ہوئے تھا۔ میں میوزیم کے اندر چلا گیا۔ وہاں ایک نوجوان حب دار ملک تھا جس کا تعلق میوزیم سے تھا اور جو میرا گائیڈ بن گیا۔ یہاں پر مختلف گیلریاں ہیں جہاں لاکھوں سال پہلے کے آثار رکھے گئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے کی تاریخ کتنی پرانی ہے۔ بہت سے آثار یہاں کی زمین میں نمک کی وجہ سے محفوظ رہے۔ سچ پوچھیں تو میں تختِ بابری کا بورڈ دیکھ کر یہاں تک پہنچا تھا۔ اس میوزیم کو دیکھ کر حیرت بھری مسرت کا احساس ہوا۔ محنت سے اکٹھے کیے گئے آثار کی بدولت یہاں کے لوگوں اور ان کی طرزِ بودوباش کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ میوزیم سے نکلتے ہوئے حب دار ملک نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ تختِ بابری کے لیے اس چڑھائی پر جانا ہوگا اور کچھ ہی دور جا کر ہمیں گھنے درختوں کے درمیان تختِ بابری نظر آجائے گا۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور چڑھائی والے راستے پر چلنے لگا۔ تب میں نے وہ جگہ دیکھی جسے تختِ بابری کہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک تختی لگی ہے اور قریب مٹی کے ایک بڑے بورڈ پر اس کے بارے میں معلومات لکھی ہیں۔ میں شکستہ سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک تراشی ہوئی چٹان کے پاس پہنچا جسیِ تختِ بابری کہتے ہیں۔
دسمبر کی نرم دھوپ سے چاروں طرف منظر روشن تھے۔ میں تختِ بابری پر بیٹھ گیا۔ میرے بالکل سامنے جھیل کا پانی تھا۔ میں نے ہلکی نرم دھوپ میں آنکھیں بند کر لیں اور تصور کی انگلی پکڑ کر ان وقتوں میں چلا گیا جب ہندوستان پر مغلوں کی حکومت کا آغاز ہوا۔ اس کی ابتدا مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے کی تھی۔ وہ فرغانہ سے یہاں آیا تھا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی جس کی بدولت ہندوستان میں تقریباً تین سو سال تک مغل سلطنت کا آغاز ہوا تھا۔ مغلیہ دور 1526ء میں شروع ہوا تھا اور 1857ء میں اختتام کو پہنچا لیکن یہ اس سے بھی پہلے کا ذکر ہے۔ یہ 1519ء کا سال تھا جب ظہیر الدین بابر کابل سے اس علاقے میں آیا تھا۔ کلر کہار کا علاقہ اپنی جھیلوں اور قدرتی چشموں کی وجہ سے اسے اتنا پسند آیا کہ اس نے کچھ دنوں کے لیے یہاں قیام کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی شاہی معماروں نے ایک چٹان کو تراش کر ایک تخت کی شکل دی۔ اس بلند مقام پر بیٹھ کر وہ دور دور تک کا منظر دیکھ سکتا تھا۔ اسے باغوں سے عشق تھا۔ یہاں اس کے حکم پر ایک باغ بنایا گیا جس کا نام باغِ صفا ہے۔ کہتے ہیں یہاں کی مٹی کی تاثیر کچھ ایسی ہے کہ پھلوں میں خوب رس اور مٹھاس ہوتی ہے۔ اسی لیے یہاں لوکاٹ‘ امرود‘ انجیر اور کیلوں کے درخت نظر آتے ہیں۔
تختِ بابری کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ مغلوں کا ہندوستان میں پہلا پڑاؤ اور پہلی تعمیر تھی۔ میں نے چشم تصور سے دیکھا کہ پورے علاقے میں کیسے سپاہی اور لشکری گھوم رہے ہوں گے‘ کیسے یہاں خیموں کا پورا شہر آباد ہوا ہوگا۔ کس طرح کلر کہار کے پُرفضا مقام پر بیٹھ کر بابر نے ہندوستان کی تسخیر کا منصوبہ بنایا ہوگا۔ کس طرح فرغانہ میں جنم لینے والے اس شہزادے نے جو بارہ سال کی عمر میں بادشاہت کے تخت پر بیٹھ گیا تھا‘ ہندوستان پر حکمرانی کا خواب دیکھا ہوگا۔ طاقت کے سر بلند قلعے کیسے زمیں بوس ہو جاتے ہیں؟ کہتے ہیں طاقت کی طلب وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے‘ کم نہیں ہوتی۔ طاقت جس کے حصول کے لیے کتنے ہی لوگ جان ہار جاتے ہیں اور کتنی ہی بستیاں تاراج ہو جاتی ہیں لیکن اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ میں نے تختِ بابری کی شکستہ سیڑھیوں پر نظر ڈالی‘ ہر طرف ایک سکوت تھا اور دسمبر کی نرم دھوپ کا دامن سمٹ رہا تھا۔ دن تمام ہو رہا تھا۔ سرما کی جاتی ہوئی دھوپ میں میرے سوال کا جواب پوشیدہ تھا۔