مانچسٹر کی تیز برستی بارش میں نجانے اس وقت کون راج سے ملنے آیا تھا۔ دستک کے جواب میں راج دروازہ کھولنے کے لیے گیا تو میں نے ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لیا جہاں زیادہ تر کتابیں تھیں۔ پھر میری نظر اُس میز پر پڑی جہاں ایک فریم میں پاروتی کی تصویر تھی۔ وہی پاروتی جس کی کہانی مجھے راج نے سنائی تھی جو اس کی زندگی کا ایک ایسا خواب تھی جس کی تعبیر اسے کبھی نہیں مل سکی تھی۔ مگر یہ خواب اس کی زندگی کا مستقل حصہ بن گیا تھا۔ میں ابھی تصویر دیکھنے میں محو تھا کہ دروازے سے کچھ آوازیں قریب آتی سنائی دیں۔ میں نے دیکھا کہ راج ایک خاتون کے ہمراہ واپس آ رہا تھا۔ یہ چہرہ میرا جانا پہچانا لگ رہا تھا۔ میں نے اسے کب اور کہاں دیکھا تھا یاد نہیں آرہا تھا‘ لیکن یہ سسپنس زیادہ دیر نہ رہا جب راج نے مہمان کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ان سے ملویہ جمیلہ ہیں۔
میں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا‘ بڑی بڑی آنکھیں جن کے گرد شاید مسلسل جاگنے سے حلقے پڑے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا :میرا خیال ہے ہم پہلے بھی ملے ہیں یہیں سر راج کے گھر۔ تب اچانک مجھے وہ دن یاد آگیا‘ وہ جمیلہ تھی۔ جب راج نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا جہاں میری ملاقات جمیلہ سے ہوئی تھی۔ مجھے وہ دن اور اس سے جڑی تفصیلات یاد آنے لگیں۔ اُس روز راج نے جمیلہ کا تعارف کراتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دہلی کے ایک کالج میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہے اور برٹش کونسل کے سکالرشپ پر تین مہینے کے لیے یونیورسٹی آف مانچسٹر کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں آئی تھی اور اب ٹریننگ ختم ہونے کے بعد اپنے وطن واپس جارہی تھی اس لیے راج نے اس کے لیے الوداعی دعوت کی تھی جس میں جمیلہ کے علاوہ راج نے صرف مجھے بلایا تھا۔ اُس روز مجھے پتا چلا کہ جمیلہ کا مضمون تو سوشیالوجی ہے لیکن اسے انگریزی ادب سے گہری دلچسپی ہے اور وہ انگریزی میں کہانیاں لکھتی ہے۔ اُس روز جمیلہ نے مجھے بتایا کہ وہ کہانیاں لکھنا شروع توکرتی ہے لیکن انہیں مکمل نہیں کر پاتی۔ اس کا وقت ہی نہیں ملتا۔
مجھے یاد ہے اُس روز جمیلہ نے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے تھے اور وہ ہنستی تو اس کے گالوں میں بھنور پڑنے لگتے تھے۔ اُس روز اس نے بتایا تھا کہ کیسے راج نے اس کے اندر جینے کا جذبہ جگایا‘ کیسے اسے بتایا کہ اس کی زندگی میں کتنے ہی آسمان ہیں جو اس کی پرواز کے منتظر ہیں۔ پروفیسر راج ایسا ہی تھا‘ اس کی شخصیت میں نجانے کیا چیز ایسی تھی کہ اس پر اعتبار کرنے کو جی چاہتا تھا۔ صرف میں اور جمیلہ ہی نہیں راج نے کتنے ہی طالب علموں کو اعتماد دیا تھا۔ اُن کے دلوں میں بلندیوں میں پرواز کے خواب جگائے تھے۔ مجھے یاد ہے جمیلہ نے اُس دن راج کو بتایا کہ کیسے اس کے خاوند کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ وہ ہر چیز کو مادی منفعت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اسے جمیلہ کی‘ اس کی خواہشوں اور اس کے خوابوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔یوں لگتا تھا کہ وہ برف کی ایک سِل ہے جسے جذبے کی آنچ کبھی نہ پگھلا سکی۔ آج میں نے کئی ماہ بعد جمیلہ کو اچانک دیکھا تو وہ ساری باتیں یاد آگئیں۔ راج نے جمیلہ کو بیٹھنے کا کہا اور خود کافی بنانے چلا گیا۔ جمیلہ میرے قریب کی کرسی پر بیٹھ گئی میں نے اس کو چہرے کو دیکھا‘ وہی خوبصورت آنکھیں لیکن ان آنکھوں میں ملال کا ایک موہوم سا رنگ۔ جمیلہ نے کہا :آپ تو انگلش لٹریچر پڑھ رہے تھے نا! پتا ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں مجھے سوشیالوجی کے بجائے انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس کی بات سن کر میں ہنس پڑا۔مجھے یاد آیا کہ اس کی ادب میں گہری دلچسپی تھی اور پچھلی ملاقات میں جب میں پہلی بار اس سے ملا تھا تو وہ راج کے لیے کیمیو (Camus) کا ناول The Outsider لائی تھی۔ میں نے اس کی بات سن کر ہنستے ہوئے کہا: اور پتا ہے میں اکثر سوچتا ہوں کاش میں انگریزی ادب کے بجائے سوشیالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا کیونکہ مجھے اس مضمون سے محبت ہے۔ جمیلہ میری بات سن کر ہنس پڑی اور اس کے گالوں میں بھنور پڑنے لگے۔ ہنستے ہوئے وہ بولی: میرا خیال ہے یہ راج کی صحبت کا اثر ہے۔ میں نے کہا: سوشیالوجی میں مجھے دلچسپی توپہلے سے تھی لیکن راج کی باتوں نے واقعی مجھے سوشیالوجی کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں راج جمیلہ کے لیے کافی کا کپ لے کر آ گیا۔
اب ہم تینوں میز کے گرد بیٹھے تھے۔ باہر زوروں کا مینہ برس رہا تھا اور کمرے میں کافی کی مہک پھیلی تھی۔ جمیلہ نے کافی کے لیے راج کا شکریہ ادا کیا اورکہنے لگی: وہ لیڈز یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ اس نے سوچا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ا تنے قریب آ کر راج سے ملے بغیر چلی جائے۔ پھر وہ اچانک میری طرف دیکھ کر بولی:اچھا یہ بتائیں میرے آنے سے پہلے آپ کیا گفتگو کر رہے تھے۔میں نے کہا: اوہ ہاں آپ کے آنے سے پہلے راج مجھ سے پوچھ رہاتھا کہ خوبصورتی کسے کہتے ہیں؟ جمیلہ کی آنکھوں میں روشنی سی پھیل گئی‘ کتنا خوبصورت سوال ہے۔ اس نے راج کی طرف دیکھ کر کہا: میں بھی جاننا چاہوں گی۔ راج نے کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولناشروع کیا ''خو بصورتی کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں۔ عام طور پر کسی شخص اور شے کی ظاہری شکل و صورت خوبصورتی کا تعین کرتی ہے۔ یوں خوبصورتی کی ایک کسوٹی جسمانی (Physical)حسن ہے‘‘۔ یہاں پہنچ کر راج نے کافی کا ایک گھونٹ لیا اور بات جاری رکھی ـ'' خوبصورتی کی ایک اور قسم گفتگو کی خوبصورتی ہے۔کچھ لوگوں کی گفتگو جادو بھری ہوتی ہے‘ جو سنتا ہے ان کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘‘۔''جیسے آپ کی گفتگو‘‘جمیلہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ راج مسکرا دیا اور اپنے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا: خوبصورتی کی ایک قسم آواز کی خوبصورتی ہے۔ کچھ لوگ بولتے ہیں تو ان کے لہجے کی مٹھاس سماعتوں میں گھل جاتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا‘ جیسے جمیلہ۔ جب وہ بولتی ہے تو یوں لگتا ہے اس کے ہونٹوں سے شہد ٹپک رہا ہے۔ ابھی میں اس جملے کے سحر میں تھا کہ راج اپنی کرسی سے اٹھا اور کچن سے اپنے لیے پانی کا گلاس لے کر آیا اور سیدھاکھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ باہر لگاتار بارش برس رہی تھی۔پھر وہ آہسہ آہستہ چلتاہوا واپس اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ''ایک خوبصورتی رویے کی بھی ہوتی ہے۔ اگر ہم سے کوئی حسنِ سلوک کا برتاؤ کرے تو وہ شخص ہمیں خوبصورت لگنے لگتا ہے‘‘۔ راج نے کافی کا کپ اٹھایا‘ ایک گھونٹ لیا اور کہنے لگا: کافی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔جمیلہ نے کہا :میں ابھی کافی بنا لاتی ہوں۔ پھر وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگی: آپ بھی گرم کافی پیو گے؟ میں نے اقرار میں سر ہلایا اور اس کی مدد کے لیے اٹھنے لگا تو وہ بولی: اوہ نہیں میں خود کر لوں گی۔ کافی بنانا کون سا مشکل کام ہے اور بلیک کافی بنانا تواور بھی آسان ہے۔ اب جمیلہ کچن میں تھی۔راج بیٹھے بیٹھے جیسے کسی خواب میں کھو گیا تھا۔ کمرے میں یک لخت گہرا سناٹا اُتر آیا تھا۔
ایسے میں مجھے یوں لگا باہر تیز برستی بارش کا شور کچھ اور بڑھ گیا ہے۔تب میری نظر میزپر رکھی پاروتی کی تصویر پر پڑی جس کی پیشانی پر سیاہ رنگ کی بندیا تھی۔ جس کے خوبصورتی سے تراشے ہوئے بال شانوں تک آرہے تھے اور جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ (جاری)