"SSC" (space) message & send to 7575

مانچسٹر‘ بارش اور پروفیسر راج… (آخری)

پاروتی کی تصویر دیکھتے ہوئے اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں نے راج سے کہا:ـ مجھے خوبصورتی کی ایک اور تعریف پتا چلی ہے۔ راج جیسے کسی خواب سے بیدار ہو گیا ہو۔ اس نے سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا۔ میں نے کہا:میرا خیال ہے خوبصورتی تناسب (Symmetry) اور ہم آہنگی (Harmony) کا دوسرا نام ہیـ۔ راج نے مسکراتے ہوئے کہا: ہاں بالکل‘ خوبصورتی کی ایک تعریف یہ بھی ہے۔کوئی عمارت ہو یا چہرہ‘ اس کاتناسب ہی اس کی خوبصورتی ہے۔ جمیلہ نے کافی کا ایک گھونٹ بھرا اورکہنے لگی: کہتے ہیں خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے ایک منظر کسی کو بہت خوبصورت لگے اور دوسرے کے لیے اس میں کوئی خاص بات نہ ہو۔ راج بولا‘ یہی وجہ ہے خوبصورتی کے معیارات کو fix نہیں کیا جا سکتا‘ اس کا کچھ حصہ subjectiveہوتا ہے مثلاً یہی دیکھیں کہ عام طور پر بہار اور خوبصورتی کا آپس میں گہرا تعلق بتایا جاتا ہے کیونکہ بہار میں ہرطرف خوش رنگ پھل کھلے ہوتے ہیں اور ہوا میں بھی پھولوں کی خوشبو بس جاتی ہے لیکن اس کے بر عکس معروف انگریزی شاعر اپنی نظم Ode to Autumn میں خزاں کے رنگوں کو سراہتا ہے۔
راج نے کھڑکی سے باہر برستی بارش کو دیکھتے ہوئے کہا :میرے خیال میں خوبصورتی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ ایک باہر کی خوبصورتی اور ایک اندر کا حسن‘ مثلاً ایک سیب باہرسے سڈول اورخوش رنگ ہو سکتا ہے۔ یہ اس کی باہر کی خوبصورتی ہے لیکن اس کا اندر کا حسن اس کا ذائقہ ہے اور ضروری نہیں جو چیز باہر سے خوبصورت ہو وہ اندر سے بھی حسین ہو۔ اسی طرح ضروری نہیں اندر کا حسن پوری طرح ظاہر میں آشکار ہو۔ اچانک بادل زور سے گرجا ، بجلی چمکی اور کمرہ ایک لمحے کے لیے روشن ہو گیا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد راج نے جمیلہ سے پوچھا: تمہاری واپسی کی فلائٹ کب ہے؟ جمیلہ نے اپنے بیگ سے ٹکٹ نکال کر دیکھتے ہوئے کہا :کل شام پانچ بجے۔ تم کہاں ٹھہری ہوئی ہو؟ راج کے پوچھنے پر جمیلہ نے بتایا: وہ سینٹ گیبرئل ہا ل میں ٹھہری ہوئی ہے۔ راج نے کہا: ڈنر ہم ایک ساتھ کریں گے۔ میں نے کہا: کہیں باہر چلتے ہیں‘ رش ہوم سٹریٹ پر کافی ریستوران ہیں۔ راج نے کہا: بالکل‘ جیسے جمیلہ چاہے گی۔ جمیلہ ہماری مہمان ہے۔ جمیلہ نے کہا: اگر آپ میری مرضی پوچھتے ہیں تو میں چاہوں گی کہ ہم ڈنر گھر پر ہی کریں ‘پھر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی: یوں بھی پروفیسر راج کے ہاتھوں کے دال چاول کھائے ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے۔ ہم سب مل کر کھانا بنائیں گے۔ سب کو یہ تجویز پسند آئی۔ راج نے دال اور جمیلہ نے چاول بنانے کی ذمہ داری سنبھالی اور میرے حصے میں پیاز اور ادرک کاٹنے کا کام آیا۔ کھانا پکانا بھی ایک آرٹ ہے۔ راج کے خیال میں یہ Catharsis کا ایک ذریعہ ہے۔ دال چاول راج کی پسندیدہ ڈش تھی اور اسے کھانا پکانے میں مزہ آتا تھا۔میں اپنے حصے کا کام کر کے کچن سے باہر آگیا اور کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔بارش اب ہلکی ہو گئی تھی۔ یہ اتوار کا دن تھا‘ سڑک پر زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔ مجھے پاکستان کے گلی کوچوں کی یاد آنے لگی۔ مانچسٹر کا موسم بھی تنہا کر دینے والا موسم ہے عام دنوں میں تو یونیورسٹی کی مصروفیت میں دن گزر جاتا لیکن چھٹی والے دن وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ راج سے ایک سیمینار میں ملاقات کے بعد میں اکثر چھٹی والے دن اس کے گھر آجاتا تھا۔ راج سے ملنا، اس کی باتیں سننا میری زندگی کے قیمتی تجربوں میں سے ایک ہے۔میں نجانے کتنی ہی دیر کھڑکی کے سامنے کھڑا تصور کے گلی کوچوں میں گھومتا رہا۔ اچانک جمیلہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔'' کھانا تیار ہے‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میز پر برتن رکھ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہم تینوں میز کے گرد بیٹھے مانچسٹر کی برستی بارش میں دال چاول کھا رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے کمرے میں خاموشی رہی اور پھر جمیلہ راج کو مخاطب کر کے بولی: آپ نے خوبصورتی کے بارے میں تو گفتگو کی۔ آج میری بھی ایک الجھن دور کر دیں۔ راج نے پلیٹ سے نگاہیں اُٹھا کر اسے دیکھا اور ہنس کر بولا: بعض دفعہ زندگی میں الجھن کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ جمیلہ راج کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے بولی ''یہ محبت کیا چیز ہے؟‘‘ جمیل کا سوال سن کر راج کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اس نے ایک لحظے کے لیے سائیڈ ٹیبل پر پڑی پاروتی کی تصویر کو دیکھا اور پھر کھڑکی سے باہر موسلادھار برستی بارش کو دیکھنے لگا۔ کمرے میں یک لخت خاموشی چھا گئی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ کسی اور دنیا کے سفر پر نکل گیا ہے۔تب وہ خلا میں کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے بولا:محبت کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ محبت ہونے کی بظاہر کوئی منطق کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ محبت میں عمر اور عقیدے کی کوئی قید نہیں ہوتی اور آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس سے جڑی ہوئی ہر شے سے آپ کو محبت ہو جاتی ہے لیکن محبت اور درد کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ جمیلہ دونوں کہنیاں میز پر رکھے پوری توجہ سے راج کی باتیں سن رہی تھی۔ راج نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: میں نے کالج کے دنوں میں خلیل جبران کو پڑھا تھا۔ اس کے مطابق محبت آپ کی ہتھیلی میں قینچی کی مانند ہے‘ جب آپ مٹھی بند کرتے ہیں تو یہ آپ کو زخمی کر دیتی ہے۔ جمیلہ کے چہرے پر اُلجھن دیکھ کر راج نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : جب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا محبوب صرف آپ کے تصرف میں رہے تو یہیں سے محبت میں مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ـ جمیلہ نے اثبات میں سر ہلایا ‘راج نے کھڑکی سے باہر برستی بارش کو دیکھتے ہوئے کہا :اس درد کے باوجود محبت ایک نعمت ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ تب جمیلہ نے پوچھا ـ:ایساکیوں ہوتا ہے کہ ہم کسی سے ملیں تو یوں لگتا ہے جیسے اسے کسی اور جنم سے جانتے ہیں؟ راج یہ سن کر مسکرایا اور کہنے لگا :مجھے اس سوال کا جواب کالج کے زمانے میں مل گیا تھا جب ہم فزکس کی لیبارٹری میںresonance کا experiment کر رہے تھے۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے محبت دو رو حوں کے درمیان Resonanceکا نام ہے۔ جمیلہ غور سے راج کی گفتگو سن رہی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔تب اس نے ایک گہری سانس لی اور اُٹھ کھڑی ہوئی ''میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے‘‘۔ راج اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے اشارہ کیا کہ میں جمیلہ کو سینٹ گیبرئل ہال تک چھوڑ آؤں۔
جمیلہ نے راج سے ہاتھ ملایا‘ کمرے پر ایک نگاہ ڈالی اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ میں بھی چھتری لے کر اس کے ہمراہ چل پڑا۔ بارش اسی طرح برس رہی تھی۔ ہم دونوں فٹ پاتھ پر چل رہے تھے اور ہمارے ہمراہ خاموشی تھی دیر تک یونہی خاموش چلنے کے بعد جمیلہ نے میری طرف دیکھے بغیر کہا :تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں راج کی دوستی میسر ہے۔ کاش مجھے بھی یہ موقع ملتا۔ میں راج سے ڈھیروں باتیں کرتی۔ بہت سے سوال پوچھتی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ ہم سینٹ گیبرئل ہال کے باہر کھڑے ہیں۔ جمیلہ نے میرا شکریہ ادا کیا۔ گیٹ میں داخل ہونے سے پہلے اچانک اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اور بولی: کیا میری طرح تمہیں بھی ایسا لگتا ہے کہ تم راج کو پچھلے جنم سے جانتے ہو؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا وہ برستی بارش میں گیٹ کے اندر چلی گئی تھی۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں