زندگی کا سفر بھی عجیب ہے‘ کبھی ہمیں دور دراز کے راستوں پر لے جاتا ہے اور کبھی پاس کے منظر بھی اوجھل رہتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ مجھے حصولِ تعلیم کے لیے امریکہ‘ برطانیہ اور کینیڈا جانے اور رہنے کا موقع ملا۔ کانفرنسوں میں شرکت کے لیے متعدد دوسرے ممالک میں بھی گیا لیکن اپنے پہلو میں واقع دبئی جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر ایک دن بیٹھے بٹھائے جی میں آئی کہ چند دنوں کے لیے دبئی جاؤں۔ لاہور سے پی آئی اے کی پرواز روزانہ دبئی کے لیے چلتی ہے۔ لاہور کے ایئرپورٹ پر اس دن غیرمعمولی رَش تھا۔ ایئر لائنز کے لیے لمبی لائنز تھیں۔ امیگریشن کا مرحلہ طے ہوا تو میں فوڈ کورٹ میں Coffee Beansجا کر بیٹھ گیا۔ لیپ ٹاپ سامنے میز پر رکھا اور سیاہ کافی‘ جسے عرفِ عام میں Americano کہتے ہیں‘ سے لطف اندوز ہونے لگا۔ پی آئی اے کی فلائٹ وقت پر تھی۔
لاہور سے دبئی تک کا سفر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا ہے۔ میں وقت گزارنے کے لیے بیگ سے کتاب نکال کر پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ یہ سٹیو جابز (Steve Jobs) کی سوانح عمری ہے جو Walter Isaacson نے لکھی ہے۔ بلاشبہ اسے انگریزی میں تحریر کردہ بہترین سوانح عمریوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں دلچسپ واقعات کے ساتھ ساتھ طرزِ تحریر نے اثر آفرینی کو دو چند کر دیا ہے۔ سٹیو جابز کی سوانح عمری اتنی دلچسپ تھی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ تب اعلان ہوا کہ ہم دبئی کے ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں جہاں درجہ حرارت 31درجے سینٹی گریڈ ہے۔ دبئی کا ہوائی اڈہ دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے۔ ٹرین کے ذریعے مسافروں کو Luggage Hall تک پہنچایا گیا جہاں بیلٹ پر سامان آرہا تھا۔ بیلٹ پر مختلف رنگوں اور جسامت کے سوٹ کیسز آرہے تھے۔ تب میری نگاہ اس سوٹ کیس پر پڑی جس کے ہینڈل کے ساتھ سبز رنگ کی کترن بندھی ہوئی تھی۔ میں نے جلدی سے اسے بیلٹ سے کھینچ لیا۔ ایئرپورٹ کے باہر لوگ اپنے پیاروں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ دیکھتا ہوا میں آگے بڑھ رہا تھا کہ میں نے شاداب کو دیکھا جو ریلنگ کے ساتھ کھڑا ہاتھ ہلا رہا تھا۔ شاداب میرا بھتیجا ہے جو کم عمری میں یہاں آیا تھا اور اب اسے یہاں کام کرتے ہوئے پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ وہ پُرجوش طریقے سے ملا اور ہم اس کی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے جو ایئرپورٹ سے دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ہم گھر پہنچ گئے جہاں شاداب کی بیوی سمیرا اور بیٹی منال ہمارا انتظا ر کر رہی تھیں۔ ہم لاؤنج میں ہی بیٹھ گئے۔ سمیرا نے لنچ میں خاصا اہتمام کیا تھا۔ کھانے کے بعد سمیرا چائے بنانے لگی تو میں نے سوچا جب تک چائے بنتی ہے‘ میں کپڑے بدل لوں۔ میں نے سوٹ کیس کھولا تو حیرت میری منتظر تھی‘ یہ میرا سوٹ کیس نہیں تھا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سب کچھ ویسا ہی تھا‘ سوٹ کیس کا رنگ‘ اس کا سائز‘ اس کے ہینڈل کے ساتھ بندھی ہوئی سبز رنگ کی کپڑے کی کترن حتیٰ کہ اس کا چھوٹا سا لاک۔ سب کچھ ایک جیسا تھا۔ میں نے لاؤنج میں آکر شاداب کو بتایا کہ ہم غلط سوٹ کیس گھر لے آئے ہیں۔ سمیرا چائے کے لیے روکتی رہی لیکن میں اور شاداب سوٹ کیس لے کر دوبارہ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں Lost and Foundآفس کے سامنے ایک قطار تھی‘ ہم بھی اس میں کھڑے ہو گئے۔ کافی دیر بعد جب ہماری باری آئی تو کھڑکی کے پیچھے بیٹھی لڑکی نے کہا: آپ کو کم از کم پینتالیس منٹ انتظار کرنا پڑے گا اور یہ بھی ممکن ہے جس طرح کسی کا سوٹ آ پ کے پاس آگیا ہے‘ آپ کا سوٹ کیس کسی اور کے پاس چلا گیا ہو۔ ہم نے سوٹ کیس آفس میں جمع کرایا اور ایئرپورٹ کی عمارت میں واقع Costa Coffee شاپ پر جا بیٹھے۔ سیاہ کافی کا اپنا مزہ ہے جو بہت مختلف اور بہت انوکھا ہے۔ لیکن میرا ذہن اپنے گم شدہ سوٹ کیس میں تھا۔ آخر شاداب نے کہا: اب پون گھنٹہ ہو گیا ہے‘ ہم واپس Lost and Foundکے دفتر گئے جہاں پہلے سے زیادہ ہجوم تھا۔ باری آنے پر میں نے کھڑکی میں بیٹھی لڑکی کو دھڑکتے دل سے اپنے سوٹ کیس کا ٹیگ دکھایا تو پتا چلا کہ میرا سوٹ کیس ٹرمینل سے یہاں پہنچ گیا ہے۔ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ اس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے‘ شاداب نے کہا: اب ہم سیدھے الممزر پارک جائیں گے جہاں سمندر کا کنارا ہے اور جہاں ڈوبتے رنگوں کو دیکھنے کا اپنا مزہ ہے۔ راستے میں شاداب نے سمیرا کو فون کر کے بتایا کہ سوٹ کیس مل گیا ہے اور ہم الممزر جا رہے ہیں۔ یہ خوبصورت پھولوں میں گھرا ہوا علاقہ ہے۔ ساحل پر مناسب فاصلے پر لکڑی کے بنے ہوئے چائے خانے بھی ہیں۔ پام کے درختوں کا اپنا حسن ہے۔ کنارے پر بچھی ریت پاؤڈر کی طرح نرم ہے۔ سورج آہستہ آہستہ اُفق کو چھو رہا تھا۔ پرندے جھنڈ کی شکل میں اپنے ٹھکانوں کو لوٹ رہے تھے۔ میں ساحل کے پاس کھڑا ڈوبتے سورج کے رنگوں میں کھو گیا۔ یوں لگتا تھا کہ وقت رُک گیا ہے۔ مجھے ناصر کاظمی یاد آگیا جس نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا؛
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا، غور سے سن
ہم ساحل پر بنے ایک اونچے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ میں ریلنگ کو پکڑے سورج کو دور پانیوں میں ڈوبتے دیکھ رہا تھا۔ ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنے میں بھی ایک عجیب لذت ہے۔ معلوم نہیں کتنی دیر میں ریلنگ کو پکڑے یوں ہی کھڑا رہتا کہ شاداب بولا: اب گھر چلتے ہیں۔ میں نے چونک کر کہا: ہاں ضرور۔
واپسی پر ہم پھولوں سے لدے ہوئے راستوں کے ساتھ ساتھ چلتے پارکنگ تک آ گئے جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ گھر پہنچے تو سمیرا اور منال ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ہم نے لاؤنج میں چائے پی اور پھر سمیرا نے کہا: اب ہم آپ کو گلوبل ویلیج لے کر جائیں گے۔ گلوبل ویلیج دبئی کا ایک ایسا مقام ہے جو ہر ٹورسٹ کو ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے۔ گلوبل ویلیج میں تقریباً نوے کے قریب مختلف کلچرز کی نمائندگی ہے۔ صدر دروازہ ایک خوبصورت عمارت کے اندر سے گزرتا ہے۔ اس عمارت کے رنگ مسلسل بدلتے رہتے ہیں‘ یہاں مختلف ملکوں کی ثقافت کا اظہار دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم ترکیہ‘ مصر‘ پاکستان‘ ایران‘ بھارت اورافریقہ کے پو یلنز (Pavilions) میں گئے جہاں ان ممالک کی ثقافت کے نمونے رکھے تھے۔ مصر‘ ترکیہ‘ افریقہ اور ایران کے پویلنز متاثر کن تھے۔ پاکستان کے پویلین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں سٹالز کی اکثریت کپڑوں کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں پاکستانی ثقافت کے مختلف روپ سامنے آئیں۔ گلوبل ویلیج کے وسط میں پانیوں میں روشنیوں کا عکس نظر آرہا تھا۔ پانیوں کے کنارے کنارے کشتیوں کی بنی ہوئی فلوٹنگ مارکیٹ تھی۔ اسی طرح ایک ٹرین مارکیٹ تھی جس کے مختلف کمپارٹمنٹس میں دکانیں سجی تھیں۔ ایک میلے کا سماں تھا جہاں بچے‘ بڑے‘ مرد‘ عورتیں بے فکری کے عالم میں گھوم رہے تھے۔ پھر ہم ایک میدان میں پہنچے جہاں ایک لڑکی ہوا میں تنی رسی پر بغیر کسی سہارے کے چل رہی تھی۔ تماشائی اس کے ہر قدم پر تالیاں بجا رہے تھے‘ اس کی مہارت اور رسی پر توازن حیرت انگیز تھا۔ آخر میں وہ لڑکی تالیوں کے شور میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچی اور پھر رسی کے وسط میں پہنچ کرنیچے اُتر آئی اور تماشائیوں کو جھک کر سلام کیا۔ سب تماشائی اپنی جگہوں سے کھڑے ہو گئے اور دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ اب ہم چلتے چلتے تھک گئے تھے۔ ہمارے بائیں ہاتھ مختلف ریستورانوں کی ایک قطار تھی۔ ٹرکش ریستوران سے آنے والی کبابوں کی مہک نے ہماری بھوک بڑھا دی تھی۔ ہمارے قدم خود بخود اس کی طرف اُٹھنے لگے۔ (جاری)