آج اتوار کا دن ہے اور عجمان میں میرا آخری دن۔ رات دیر تک میں اپنے اپارٹمنٹ کی بالکنی میں بیٹھا سمندر کے مدو جزر کی موسیقی سنتا رہا لیکن صبح ہمیشہ کی طرح جلدی جاگ گیا۔ یہ وقت مکمل سکوت کا ہوتا ہے۔ میں نے کچن میں جا کر چائے بنائی اور لاؤنج کی بالکنی میں بیٹھ کر Steve Jobs کی بائیو گرافی پڑھنے لگا جس کو Walter Issacson نے تحریر کیا۔ انوکھے واقعات اور سحر انگیز تحریر نے مل کر اس کتاب کو غیرمعمولی سوانح عمری بنا دیا ہے۔ گرم چائے کے کپ نے کتاب کا لطف دوبالا کر دیا تھا۔ میں کتاب کے سحر میں گم تھا کہ طوبیٰ اور عمران بھی بیدار ہو کر وہیں آ گئے۔ میں نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور ہم ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ طوبیٰ کہنے لگی: آج ہم آپ کو عجمان میں پاکستان کا دیسی ناشتہ کرائیں گے۔ ہم تیار ہو کر گھر سے نکلے اور کچھ ہی دیر میں ہم ایک ریستوران کے سامنے کھڑے تھے جس کے بورڈ پر جلی حروف میں ''سندھ شہباز ریستوران‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو سامنے ریسیپشن تھا جس کی دیواروں پر کراچی‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ لاہور‘ راولپنڈی اور پاکستان کے دوسرے شہروں سے محبت کے اظہار پر مبنی سلوگنز لکھے تھے۔ کہتے ہیں پردیس میں اپنے وطن اور اپنے شہر کی یاد شدت سے آتی ہے۔ ہم ہال میں گئے تو یہ گاہکوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ہمیں ایک میز مل گئی۔ ہمارے ساتھ والی میز پر ایک انڈین فیملی بیٹھی تھی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس پاکستانی ریستوران میں مختلف قومیتوں کے گاہک آ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ہمارے سامنے تازہ پوریوں کے ہمراہ دیسی چنے‘ نہاری اور حلوہ آ گیا۔ ساتھ ہی روایتی گلاسوں میں لسی بھی تھی۔ کہتے ہیں دیسی ناشتہ لسی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ہمارے لیے یہ ایک طرح سے برنچ تھا۔ ریستوران سے نکل کر ہماری اگلی منزل دبئی تھی۔ عجمان سے دبئی کا سفر اتنا ہی ہے جتنا راولپنڈی سے اسلام آباد تک‘ دبئی میں آج ہماری منزل دبئی فریم (Dubai Frame) تھی۔ آپ دبئی جائیں اور دبئی فریم نہ جائیں ایسا ممکن ہی نہیں۔ دبئی فریم ان عمارتوں میں شامل ہے جو دبئی کی پہچان بن گئی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑے سائز کا پکچر فریم ہے جس کی لمبائی 150 میٹر اور چوڑائی 95 میٹر ہے۔ فریم کا رنگ سنہری ہے۔ اسے مشہور آرکیٹیکٹ Fernando Donis نے ڈیزائن کیا ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک میں فریم بنائے ہیں اور تعمیرات میں اپنے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے کئی انعامات بھی حاصل کیے ہیں۔ کہتے ہیں اس فریم میں دو ہزار ٹن سالڈ سٹیل کا استعمال ہوا ہے۔ فریم کی 48منزلیں ہیں لیکن لفٹ سے ساری منزلیں صرف 75سیکنڈ میں طے ہو جاتی ہیں۔ آج اتوار کا دن ہے اور مارچ کا ایک روشن اور اُجلا دن۔ فضا میں دبئی کی روایتی حدت نہیں ہے۔ فریم ایک وسیع احاطے میں واقع ہے جہاں اونچے لمبے درخت اور پھولوں کی روشیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد آج دبئی فریم دیکھنے آئی ہے۔ ہم بھی اس لمبی قطار کا حصہ بن گئے ہیں جس میں مختلف ممالک کے کتنے ہی باشندے فریم دیکھنے آئے ہیں۔ بچے‘ جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورتیں حتیٰ کہ کچھ لوگ وہیل چیئر پر ہیں۔ وہیل چیئر پر لوگوں کو قطار میں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ لمبی قطار میں سر کتے سرکتے آخر ہماری باری آ گئی۔ گراؤنڈ فلور پر ریسیپشن سے آگے بڑھیں تو یہاں ایک فوٹو گرافر ہے جو آپ کی تصویریں بناتا ہے جب تک آپ فریم کی سیر کرکے واپس آتے ہیں‘ آپ کی تصویر فریم کے ساتھ تیار ہوتی ہے۔ تصویر کھنچوانے کے بعد جب ہم گراؤنڈ فلور کی راہداری سے اندر داخل ہوئے تو یوں لگا کہ ہم پرانے دور میں چلے گئے ہیں۔ یہ گیلریاں دراصل ایک میوزیم ہیں جہاں ماضی کے ادوار‘ اس زمانے کے لوگوں‘ پیشوں‘ معیشت اور عمارات کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ تاریخ کی ان راہداریوں سے گزرنے کے بعد ہم لفٹ سے فریم کی بلند ترین منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارے اردگرد شیشے کی دیواریں ہیں۔ یہاں سے دیکھیں تو ایک طرف پرانا دبئی نظر آتا ہے اور دوسری جانب جدید دبئی کی عمارتیں ہے۔ یوں دبئی فریم ماضی اور حال کو ایک دوسرے سے ملاتا نظر آتا ہے۔ ہم جس منزل پر کھڑے ہیں یہاں شفاف شیشے کا ایک راستہ ہے‘ جہاں سے دور نیچے کا منظر نظر آتا ہے جہاں چلتے پھرتے لوگ اور گاڑیاں کھلونے معلوم ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اس شیشے پر چلنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگرچہ یہ شیشہ اپنی مضبوطی کی وجہ سے محفوظ ہے لیکن انسانی نفسیات میں خوف اور جان بچانے کا جذبہ ہچکچاہٹ میں بدل جاتا ہے۔ مجھے اس طرح کے شفاف شیشے پر چلنے کا اتفاق اس وقت ہوا تھا جب میں نوے کی دہائی میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اس وقت ہمارے بیٹے صہیب کی عمر چھ برس اور بیٹی ہاجرہ کی عمر چار برس ہو گی۔ ایک روز میں‘ اسما اور بچے ٹورونٹو کے ڈاؤن ٹاؤن میں واقع CN Tower گئے تھے جہاں بلندی پر اسی طرح کا شیشے کا رستہ تھا۔ ہاجرہ نے شیشے پر چلنے سے انکار کر دیا تھا اور زور سے اسما کا ہاتھ پکڑ کر وہیں کھڑی ہو گئی لیکن صہیب میرا ہاتھ پکڑ کر اس راستے پر بڑے اعتماد سے چلا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ اب صہیب کی شادی ہو گئی ہے‘ اس نے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی اور آج کل ٹورونٹو میں ہی رہتا ہے۔ ہاجرہ کی بھی شادی ہو گئی ہے اور وہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ آج دبئی فریم کے شفاف شیشے پر چلتے چلتے میں تصور میں ٹورونٹو کے CN Tower پہنچ گیا تھا۔ شیشے کے راستے پر چلتے ہوئے ہم لفٹ تک پہنچ گئے۔ واپسی پر لفٹ نے ہمیں یہاں کے شاپنگ ایریا میں پہنچا دیا۔ جہاں فوٹوگرافر نے ہمیں ہماری فریم شدہ تصویریں دکھائیں جو ہم نے خرید لیں۔ گفٹ شاپ پر یہاں کے سووینئرز دستیاب تھے۔ ٹی شرٹس‘ مگ‘ کی چین وغیرہ۔ ہم نے یہاں سے کچھ سووینئر خریدے اور باہر نکل آئے۔
ہماری اگلی منزل Kite Beach تھی۔ اس ساحل کا نام Kite Beach اس لیے ہے کہ یہاں پر Kite Surfing ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہاں کئی اور واٹر سپورٹس ملتے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں سوئمنگ کے لیے آتے ہیں‘ کچھ ریت پر لیٹےSunbath کا لطف اُٹھاتے ہیں‘ ایک طرف ریت پر والی بال کا کھیل ہو رہا ہے۔ یہاں پر کئی ریستوران ہیں اور گرد و نواح میں بہت سے فٹنس سنٹرز ہیں۔ یہاں سے بُرج العرب صاف نظر آتا ہے۔ اس کی شکل ایک بادبان جیسی اور نیچے لہروں کا ڈیزائن ہے۔ طوبیٰ نے ہمیشہ کی طرح اس موقع کا فائدہ اُٹھایا۔ مجھے اور عمران کو ایک جگہ کھڑے ہونے کو کہا اور اس طرح سیلفی بنائی کہ ہمارے عقب میں بُرج العرب دکھائی دے۔ عمران نے کہا: کافی یہاں پئیں یا کسی اور جگہ؟ طوبیٰ بولی: میرا خیال ہے ہم اٹلانٹس(Atlatuns) ہوٹل چلتے ہیں۔ یہ پام جمیرہ میں واقع ہے۔ وہ جگہ آپ کو یقیناً پسند آئے گی۔ راستے میں عمران نے مجھے بتایا کہ زمین کا یہ خطہ پہلے پانیوں کا حصہ تھا اسے Reclaim کرکے ایک جزیرے کی شکل دی گئی۔ اس سارے علاقے کو بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ بلندی سے دیکھیں تو یہ پام کے ایک درخت کی طرح نظر آتا ہے۔ اٹلانٹس ہوٹل کی عمارت کے اندر کئی چھوٹے ریستوران اور دکانیں ہیں۔ چلتے چلتے ہمیں سامنے Star Bucks کا بورڈ نظر آیا۔ تازہ گرم امریکانو کافی کے چند گھونٹ پی کر ہی ساری تھکن دور ہو گئی۔ اب ہم واپسی کے لیے تیار تھے۔ غروبِ آفتاب تک ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ پہنچ چکے تھے۔ ستائیسویں منزل سے ڈوبتے سورج کے رنگ دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ آج رات مجھے عجمان سے رخصت ہو کر دبئی میں جبل علی جانا تھا جہاں مینا نے سب کو ڈنر پر بلایا تھا اور جہاں اگلے دو دن میرا قیام تھا۔ (جاری)