شیکھر کی وفات کے بعد یوں لگتا تھا جیسے یک لخت بھرا میلہ ویران ہو گیا ہو۔ شیکھر کے ساتھیوں میں ارجن نے ان کا ساتھ دیا اور اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے دلیپ کو مختلف موسیقاروں سے متعارف کرایا۔ دلیپ اپنے والد شیکھر کی طرح سخت محنتی تھا۔ ماہ وسال گزرتے گئے۔ پھر وہ دن آیا جب دلیپ کمار (جسے اے آر رحمن بننا تھا) نے دوستوں سے مل کر ایک بینڈ بنایا جس کا نام Rootsرکھا گیا۔ اسے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کام کی ضرورت تھی‘ اس لیے جب بھی کسی موسیقار کی طرف سے کوئی اسائنمنٹ ملتی وہ اسے غنیمت سمجھتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تامل فلموں میں ایک موسیقار Ilaiyaraaja کی حکمرانی تھی۔ اسے راجہ کے گروپ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ نوجوان دلیپ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ایک سنہری موقع تھا۔
پھر ایک د ن اسے ایک میڈیا کمپنی سے jingle بنانے کی پیش کش ہوئی۔ کہتے ہیں تخلیق کا میدان محدود نہیں۔ دلیپ نے jingles میں بھی تخلیق کے دلکش رنگ بھر دیے۔ ادھر وہ فن کے تخلیقی سفر پر دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہا تھا اُدھر اس کی ماں کستوری کو ایک اور مرحلہ درپیش تھا۔ اپنے خاوند شیکھر کی بیماری نے اسے ذہنی طور پر بے چین کر دیا تھا۔ شیکھر کی بیماری کے دنوں میں وہ کتنے ہی ڈاکٹروں‘ ویدوں‘ ہندو سنتوں سے ملی تھی‘ سب نے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ کستوری ہر روز امید باندھتی اور اگلے ہی روز وہ امید ٹوٹ جاتی۔ انہیں دنوں اس کی ملاقات ایک درگاہ میںایک شاہ صاحب سے ہوئی تھی۔ ان کی باتیں سن کر اس کے دل کی کیفیت عجیب تھی۔ تو کیا میں اسلام کے راستے کو اپنا لوں؟ لیکن ایسا کس طرح ہو سکتا ہے‘ میرے آباؤ اجداد ہندو ہیں؟ وہ اپنے دل کی آواز پر پہرہ بٹھا دیتی لیکن رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ اچانک کھل جاتی اور اسے لگتا کہ کوئی آواز اسے اپنی طرف بلا رہی ہے۔ شیکھر کی موت کے بعد کستوری نے آخری فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے بچوں کو بتایا کہ انہیں اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ بچوں کا پہلا ردِ عمل متوقع تھا‘ انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ ان کی ماں کیسے اپنے بزرگوں کے مذہب کو چھوڑ سکتی ہے لیکن کستوری مضبوط اعصاب کی عورت تھی۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور پھر وہ دن آہی گیا جب اس کے بیٹے اور بیٹیاں اپنی ماں کے دلائل کے قائل ہو گئے۔ وہ اسلام کے حلقے میں داخل ہو گئے تھے لیکن مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ ابھی اس کا اعلان نہ کیا جائے۔ گھر میں اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شناخت بدل چکی تھی۔ اس کی ماں کستوری اب کریما بن چکی تھی اس کی تین بہنوں کے اسلامی نام ریحانہ‘ فاطمہ اور عشرت اور اس کا نام اللہ رکھا رحمن رکھا گیا‘ جو بعد میں مختصر ہو کر اے آر رحمن بن گیا۔ ایک روز اس نے مذہبی کتاب کھول کر دیکھا تو پہلے صفحے پر اللہ کے نام لکھے تھے اور ان میں پہلا نام الرحمن تھا۔ یہ دیکھ کر اس کے دل کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ اسے یوں لگا یہ نام اس کی زندگی میں کامیابیاں لائے گا۔ رحمن کی ماں کریما نے ایک دن اپنے بچوں کو جمع کرکے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کیا ہے جس کی مخالفت ہو گی لیکن ہمیں ثابت قدم رہنا ہوگا اور یاد رکھو اسلام صرف ہمارے ناموں میں ہی نہیں‘ ہماری زندگیوں میں بھی جھلکنا چاہیے۔ کریما اور اس کے بچوں نے اپنی ماں کی نصیحت پلے سے باندھ لی۔ اے آر رحمن شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی ماں کی نصیحت نہیں بھولا۔ موسیقی کی چکا چوند اور مصروف دنیا میں بھی وہ پانچ وقت نماز پڑھتا ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا‘ اسی طرح وہ کھانے میں بھی حلال اور حرام کی تمیز کرتا ہے۔ بیرونی سفر میں اس کی جائے نماز اس کے سامان کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ ایک بار تو جہاز کی پرواز کو انتظار کرنا پڑا کیوں کہ وہ نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔
لیکن ہم کہانی میں اسی موڑ پر واپس جاتے ہیں جب ابھی ان کے خاندان نے اسلام قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا اور اے آر رحمن کا نام لوگوں کے سامنے نہیں آیا تھا۔ البتہ اس کے دوستوں نے ایک دلچسپ چیز کا مشاہدہ کیا۔ دلیپ کے موسیقی کے انسٹرومنٹس پر اب 786لکھا ہوتا۔ یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد ہیں۔ کبھی کوئی دوست پوچھتا تو دلیپ مسکرا کر بات ٹال دیتا۔ دلیپ اپنے دوستوں میں سب سے زیادہ محنتی‘ focused اور تخلیقی ذہن کا مالک تھا۔ وہ موسیقی میں نئی نئی چیزیں متعارف کرا رہا تھا۔ وہ jinglesکی دنیا میں قدم قدم آگے بڑھ رہا تھا۔ کہتے ہیں معیار خود بولتا ہے‘ اب اس کے فن کی مہک ادھر ادھر پھیلنے لگی تھی۔ اس کے بنائے ہوئے jinglesکی تعداد ہزاروں میں ہو چکی تھی۔ اسے ایک jingleبنانے کے تقریباً پندرہ ہزار روپے ملتے تھے۔ مہینے میں اسے چار پانچ jinglesبنانے کا کام مل جاتا تھا۔ یوں گزر بسر ہو رہی تھی۔ وہ جتنے پیسے کماتا‘ اپنی ماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ زندگی آہستہ روی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ موسیقی کے مختلف آلات‘ کی بورڈ‘ پیانو‘ ہارمونیم‘ گٹار مہارت سے بجا لیتا تھا‘ لیکن اس کی خاص دلچسپی Synthesiserمیں تھی کیونکہ اس میں موسیقی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج تھا۔ اے آر رحمن کے والد کو موسیقی کے نت نئے آلات کا شوق تھا۔ اسے یاد ہے کہ اس کے والد اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے شوق کی تکمیل پر خرچ کرتے تھے۔ رحمن نے یہ شوق ورثے میں پایا تھا‘ وہ اکثرخواب دیکھتا تھا کہ ایک دن آئے گا جب وہ بہت بڑا موسیقار بنے گا‘ جب اس کی موسیقی سن کر سب لوگ اس کی صلاحیتوں کے قائل ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور کچھ لوگ تو جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں۔ رحمن کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا تھا۔ رحمن کا ایک خواب یہ تھا کہ اس کا اپنا سٹوڈیو ہو جہاں وہ پوری توجہ اور لگن سے کام کر سکے۔ رحمن نے سوچا کیوں نہ اپنے گھر کے ایک حصہ کو سٹوڈیو کی شکل دی جائے۔ اس نے اپنے سٹوڈیو کا نام بھی سوچ لیا تھا۔ اس کا نام پنچتن ہوگا (Panchtan) ہو گا۔ اس نے ماں کو بھی اپنے خواب کے بارے میں بتایا۔ ماں اس کا خواب سن کر خاموش رہی۔ وہ کہتی بھی کیا‘ گھر کا واحد کمانے والا اب باقی نہ رہا تھا۔
ایک دن وہ یوں ہی اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا کہ اس خیال سے ہی اس کا دل بیٹھ گیا کہ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے خواب کو کبھی تعبیر نہیں مل سکے گی۔ تب اس کے دھیان میں اپنے شفیق والد کا چہرہ ابھرا۔ ایک محنتی اور جفا کش انسان جسے اپنے بیٹے کی موسیقی کی صلاحیتوں پر فخر تھا۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ اس خیال سے ہی اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پھر وہ سوچنے لگا‘ اگر خوابوں کی تعبیر ممکن نہیں ہوتی تو ہم خواب دیکھتے ہی کیوں ہیں؟ وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اس نے نظر اُٹھا کر دیکھا‘ یہ اس کی ماں کریما تھی۔کریما جو شیکھر کی وفات کے بعد بچوں کے لیے سائبان بن گئی تھی۔ رحمن نے دیکھا کہ اس کی ماں کریما کے ہاتھ میں ایک پوٹلی ہے۔ کریما نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بیٹے کے چہرے کو تھاما اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ''کیا ہوا جو تمہارے والد اس دنیا میں نہیں۔ تمہاری ماں ابھی زندہ ہے۔ میرے بیٹے کا سٹوڈیو ضرور بنے گا۔ اس پوٹلی میں میرا زیور ہے ہم اس کو بیچ دیں گے۔ یہ زیور تو پھر بن جائے گا لیکن میرے بیٹے کا خواب ایک بار ٹوٹ گیا تو پھر کبھی جُڑ نہ سکے گا‘‘۔ (جاری)