لاہور ایک شہر نہیں ایک تاریخ‘ ایک تہذیب اور ایک ثقافت کا نام ہے۔ اس کے گلی کوچوں میں نکل جائیں تو ہر موڑ پر تاریخ کا سحر آپ کے قدم روک لیتا ہے۔ کہتے ہیں وقت بھی ایک دریا کی طرح ہے‘ جہاں جہاں سے گزرتا ہے اپنے پیچھے اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ لاہور کے قدیم راستوں پر ان نقوش کی تلاش کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اسی لاہور کے دھڑکتے شہر میں 1926ء میں اوپی نیر نے جنم لیا جس نے ایک دن موسیقی کی دنیا میں نئے رجحانات متعارف کرانے تھے۔ وہ شروع ہی سے دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ اسے گھڑے گھڑائے سانچوں میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں پر حیرت ہوتی تھی۔ اوپی نیر کا جی پڑھائی میں نہیں لگتا تھا۔ وہ کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا‘ کچھ ایسا جو اس کی روح کو سرشار کردے ۔ اسے شروع سے ہی موسیقی سے شغف تھا۔ سُر‘ ترنم‘ لَے اور ردھم اس کی شخصیت میں رچ بس گئے تھے۔ ابھی اس کی عمر بارہ برس کی تھی کہ اسے دُلا بھٹی فلم میں گانے کا موقع ملا اور پھر پندرہ برس کی عمر میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور سٹیشن سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کلاسیکی موسیقی اور موسیقاروں کا ٹھکانا ہوا کرتا تھا۔ تب اوپی نیر کی زندگی میں ایک موڑ آیا جس نے پہلی بار موسیقی کے نقادوں کو چونکا دیا۔ یہ سی ایچ آتما کا گیت ''پریتم آن ملو‘‘ تھا جس کی موسیقی اوپی نیر نے دی تھی۔ کتنی ہی دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی یہ گیت تروتازہ ہے۔
ریڈیو لاہور سے اوپی نیر کی ایک اور وابستگی بھی ہے۔ یہیں اس کی ملاقات سروج سے ہوئی جو ایک سٹیج ڈانسر تھی۔ اوپی نیر نے پہلی نظر میں ہی سروج کو پسند کر لیا اور پھر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اب 1947ء کا سال آگیا تھا جب پاکستان اور ہندوستان دو الگ ملک بن گئے۔ ساتھ ہی ہجرت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں ان دنوں لاہور متحدہ ہندوستان کا پیرس کہلاتا تھا اور علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ لاہور میں رہنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت لاہور چھوڑ کر سرحد کے دوسری جانب جانے لگی‘ ان میں اوپی نیر کا خاندان بھی شامل تھا۔ اوپی نیر‘ جسے لاہورکے گلی کوچوں سے عشق تھا‘ جس کی زندگی کا محور لاہور کی سحر انگیز ثقافت تھی‘ وہ سخت مشکل میں تھا۔ لاہور کے بغیر زندہ رہنے کا تصور ہی جاں لیوا تھا‘ لیکن یہ زندگی ہے‘ اس میں بعض اوقات اپنی خواہش کے خلاف کام کرنا پڑتے ہیں۔ لاہور سے جاتے ہوئے اس کے دل میں یہ امید تھی کہ یہ چند دنوں کی بات ہے‘ وہ جلد ہی لاہور واپس لوٹ آئے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور پھر ساری زندگی اوپی نیر لاہور کو یاد کرتا رہا‘ لیکن پھر کبھی اپنے دلبر شہر واپس نہ آ سکا۔
ان کا خاندان لاہور سے دہلی چلا گیا اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔ اوپی نیر کو اپنے خواب کی تکمیل کرنا تھی۔ اوپی نیر کی پہلی فلم ''کنیز‘‘ تھی جو 1949ء میں ریلیز ہوئی۔ پھر 1952ء میں ''چھم چھما چھم‘‘ اور 1953ء میں ''باز‘‘ فلم میں موسیقی دی۔ لیکن کامیابی کی دیوی ابھی تک اس سے کوسوں دور تھی۔ اوپی نیر اب مایوس ہو گیا تھا‘ اسے یوں لگا کہ جو آہنگ وہ موسیقی کی دنیا میں متعارف کرانا چاہتا ہے‘ اس کا قدر شناس یہاں کوئی نہیں۔ فلم کی دنیا سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا اور واپسی کے سفر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ تب معروف پروڈیوسر‘ ہدایت کار اور اداکار گرو دَت نے اوپی نیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ تم میری فلم میں موسیقی دو گے۔ اوپی نیر کو کیا خبر تھی کہ یہ فلم اس کی شہرت کو دور دور تک پھیلا دے گی۔ یہ فلم تھی ''آر پار‘‘ جو 1954ء میں ریلیز ہوئی جس میں اوپی نیر کی مدھر دھنوں نے سب کو چونکا دیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک گیت۔ ''کبھی آر کبھی پار لگا تیرِ نظر‘‘، ''محبت کر لو جی‘‘، ''بابو جی دھیرے چلنا‘‘، ''جا جا جا بے وفا‘ سن سن ظالما‘‘۔ اوپی نیر کی یہ دھنیں مروجہ سانچوں سے ہٹ کر تھیں جنہوں نے موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یوں ''آر پار‘‘ فلم نے او پی نیر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ ایک مختلف طرح کی موسیقی تھی جس کی پہچان اس کا ردھم تھا۔ یوں اوپی نیر فلمی موسیقی میں ایک نیا رجحان لے کر آیا اور جلد ہی ایک برینڈ بن گیا۔ اگلے مرحلے میں دو اور کامیاب فلموں ''CID‘‘ اور ''Mr. & Mrs. 55‘‘میں موسیقی نے اوپی نیر کو بطور موسیقار Establishکر دیا۔ فلم CID کے گیت ''آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ‘‘، ''پوچھ مرا کیا نام‘‘، ''لے کے پہلا پہلا پیار‘‘، '' کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘‘، ''یہ ہے بمبئی میری جان‘‘ زبان زدِ عام ہو گئے۔ فلم ''Mr. & Mrs. 55‘‘ میں اوپی نیر نے رفیع کی آواز میں ایک قوالی کی موسیقی دی۔ یہ قوالی بہت مقبول ہوئی ''میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا‘‘۔ اسی فلم میں اوپی نیر نے اپنی موسیقی میں گیتا دَت کی آواز میں وہی گیت گوایا جو 1945ء میں سی ایچ آتما نے گایا تھا۔ ''پریتم آن ملو‘‘۔ اوپی نیر نے اپنے کیریئر کے آغاز میں جن گلوکاروں کو ترجیح دی ان میں شمشاد‘ گیتا دَت اور محمد رفیع شامل تھے۔ اوپی نیر کو شمشاد کی آواز پسند تھی۔ ایک گفتگو میں انہوں نے شمشاد کی آواز کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی آواز میں ٹلیاں (گھنٹیاں) بجتی ہیں۔ پنجاب میںصبح سویرے یا شام ڈھلے جانوروں کے گلے میں بندھی ان ٹلیوں (گھنٹیوں) کی آواز کا اپنا جادو ہوتا ہے۔ اوپی نیر کی دوسری پسندیدہ آواز گیتا دَت کی تھی۔ گیتا دَت بنگال میں پیدا ہوئی تھی اور اس کی آواز میں بنگال کے پانیوں کا جادو تھا۔ اوپی نیر کی تیسری پسندیدہ آواز محمد رفیع کی تھی۔ اوپی نیر کی موسیقی میں رفیع نے مختلف انداز کے گیت گائے لیکن اوپی نیر کے مزاج میں ایک تیکھا پن تھا۔ وہ جو عدم نے کہا ہے کہ:
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
مزاج کے اس تیکھے پن کی وجہ سے اوپی نیر صاحب نے زندگی میں بہت سے نقصان بھی اٹھائے‘ لیکن وہ اپنی ہٹ کا پکا تھا‘ جس بات پر اڑ جاتا پھر اس سے نہ ہٹتا۔ ایک بار ایسا ہی ہوا‘ اوپی نیر نے رفیع کی آواز میں ایک گیت کی ریکارڈنگ کرنا تھی‘ آرکسٹرا تیار تھا‘ سب رفیع کی آمد کے منتظر تھے کہ رفیع کا پیغام آیا کہ وہ ایک اور سٹوڈیو میں گانے میں مصروف ہے اس لیے دیر ہو سکتی ہے۔ اوپی نیر نے جواب دیا ٹھیک ہے‘ اب تم وہیں پر رہو یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔ یوں اوپی نیر صاحب رفیع سے ناراض ہو گئے‘ وہی رفیع جو اُن کے پسندیدہ ترین گلوکاروں میں سے ایک تھا لیکن اوپی نیر صاحب اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کر سکتے تھے۔ ناراضی کا یہ عرصہ تین سال پر پھیل گیا۔ ہندوستان کے شاعر احمد وصی صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عید کا دن تھا‘ اس موقع پر رفیع نے اوپی نیر صاحب کو سویاں بھیجیں۔ یہ صلح کا پیغام تھا لیکن اوپی نیر صاحب نے اپنے ایک اسسٹنٹ سے کہا کہ یہ سویاں واپس دے کر آؤ۔ شاید ان کے دل میں تھا کہ رفیع خود کیوں نہیں آیا۔ جب رفیع کو پتا چلا کہ اوپی نیر نے سویاں واپس کر دی ہیں تو اس نے اپنی گاڑی نکالی اور سیدھا اوپی نیر کے گھر چلا گیا۔ دروازے پر دستک کی آواز سن کر اوپی نیر نے دروازہ کھولا‘ سامنے ان کا عزیز دوست رفیع کھڑا تھا۔ اوپی نیر رفیع کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کچھ لمحوں تک دونوں ساکت کھڑے ایک دوسرے کو تکتے رہے اور پھر بے اختیار ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے۔ (جاری)