یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب متحدہ ہندوستان میں لاہور علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں تب جنوبی ایشیا میں لاہور کا مقام وہی تھا جو یورپ میں پیرس کا ہے۔ اس کی گلیوں ‘ محلوں اور چوباروں میں قوس قزح کے رنگ تھے۔ لاہور سے 40 میل کے فاصلے پر ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ تھا ۔ یہاں سکھوں ‘ہندوؤں اور مسلمانوں کے گھر تھے ۔ انہی گھروں میں ایک گھر حاجی علی محمد کا تھا جہاں 24 دسمبر 1924ء کو ایک بچہ پیدا ہوا جس نے ایک دن موسیقی کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکنا تھا۔ بچے کا نام محمد رفیع رکھا گیا۔ حاجی علی محمد کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ حاجی علی محمد کے پاس مالی وسائل کی کمی تھی لیکن وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے دن رات محنت کرتا تھا۔ محمد رفیع ذرا بڑا ہوا تو اسے سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ اس کی کلاس میں اس کا ایک ہم جماعت کندن سنگھ سمرا تھا۔ محمد رفیع اور کندن سنگھ کے گھروں کی دیواریں مشترک تھیں۔ کندن کو یاد ہے کہ رفیع کو پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اُس کی دلچسپی کا سارا سامان سکول کی چار دیواری سے باہر تھا ۔ شاید قدرت اس کیلئے کسی اور میدان کا انتخاب کر رہی تھی۔انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ان کے گاؤں میں ہر جمعرات کو ایک فقیر آیا کرتا تھا۔ یہ فقیر رفیع کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ فقیر ا پنی پُرسوز آواز میں گاتا ہوا گاؤں کے محلوں اور گلیوں سے گزرتا۔ کوئی اسے آٹا دیتا اورکوئی گندم ۔ اس کی آواز میں کوئی جادو تھا ۔ وہ جب اپنی لے میں گاتا ''کھیڈن دے دن چار نی مائے‘ کھیڈن دے دن چار‘‘(یہ زندگی چار دن کا کھیل ہے) تو سننے والوں کی حالت عجیب ہو جاتی۔ ننھا رفیع ہر جمعرات کو اُس فقیر کا انتظار کرتا اور پھر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا وہ بھی ''کھیڈن دے دن چارـ‘‘دہراتا جاتا۔ پھر یوں ہوا کہ اس گیت کا آہنگ اور اس کی تاثیراس کے رگ و پے میں سما گئی۔ سُر اور ترنم سے رفیع کا یہ پہلا تعارف تھا جس کی شدت اُس کے خون میں سرایت کر گئی تھی۔ ادھر حاجی محمد نے 1924 ء میں تلاشِ معاش کی خاطر اپنے بڑے بیٹے محمد دین کے ہمراہ کوٹلہ سلطان سنگھ سے لاہور جانے کا قصد کیا ۔ لاہور آ کر انہوں نے بار بر کی دکان کھول لی۔وہ دیگوں کی پکائی کا کام بھی کرتے تھے۔ جب اُن کا کاروبار مستحکم ہوا تو حاجی محمد نے خاندان کے باقی افراد کو بھی لاہور بلا لیا۔ رفیع کو محمد دین کی دکان پر کام کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ دکان پر ہر طرح کے لوگ آتے تھے‘ انہی میں ایک محمد دین کا دوست حمید بھی تھا جسے سب حمید بھائی کہتے تھے۔ کوٹلہ سلطان سنگھ سے لاہور آ کر رفیع نے دیکھا کہ شہر میں کیسے کیسے کمال کے لوگ ہیں۔ ہر کوئی اپنے فن میں یکتا۔ وہ کوٹلہ سلطان سنگھ سے لاہور آ توگیا لیکن ابھی تک وہاں کے فقیر کی آواز اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ وہ فارغ وقت میں اپنے گانے کا شوق پورا کرتا ۔ اُس کے ارد گرد لوگ اپنی فرمائش پر اس سے گانے سنتے ۔ کہتے ہیں سُچے موتیوں اور جواہر کی پہچان صرف ایک ذہین جوہری کو ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی زندگی میں کوئی جوہری آتا ہے اور ان کی زندگی کا رُخ بدل دیتا ہے۔ حمید بھائی بھی ایک ایسے ہی جوہری تھے۔ موسیقی سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ محمد دین ان کا دوست تھا اور وہ اکثر اس سے ملنے دکان پر آتے تھے۔ وہاں انہوں نے پہلی بار رفیع کو گنگناتے سنا۔ رفیع کی آواز میں کوئی خاص بات تھی‘ کوئی ایسی بات کہ حمید بھائی چونک اُٹھے۔انہوں نے محمد دین سے کہا کہ تمہارے بھائی کی آواز کوئی عام آواز نہیں۔ اگر اسے مناسب تربیت ملے تو یہ موسیقی کی دنیا میں ہلچل مچا سکتا ہے۔ محمد دین یہ بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔ اسے رفیع کے شوق کا علم تھا لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس کے والد محمد رفیع کے شوق سے سخت تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ وہ گانے کے بجائے پوری توجہ دکان پر دے ۔ حمید بھائی نے اپنے دوست محمددین کو اس بات پر راضی کرلیا کہ رفیع کو موسیقی کی تربیت کیلئے کسی استاد کے سپرد کیا جائے۔ اُس زمانے میں فیروز نظامی موسیقی کی دنیا کا ایک اہم نام تھا ۔ یوں رفیع کی موسیقی کی باقاعدہ تربیت کا آغاز ہوا او ر اسے فیروز نظامی کے علاوہ اپنے وقت کے بہترین اساتذہ پنڈت جیون لال مٹو‘ چھوٹے غلام علی خان‘ استاد عبدالوحید خان‘ استاد برکت علی خان اور ماسٹر عنایت حسین سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے کا موقع ملا ۔ حمید بھائی محمد رفیع کی انگلی پکڑ کر اسے موسیقی سے جڑے مختلف لوگوں سے ملوا رہے تھے۔ تب ایک دن لاہور کے گلی کوچوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ لاہور کے منٹو پارک میں اس وقت کے معروف گلوکار کے ایل سہگل اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے ۔ رفیع بھی اپنے پسندیدہ گلوکار کو سننے کیلئے بے تاب تھا۔وہ حمید بھائی کے ہمراہ منٹو پارک پہنچ گیا۔ منٹو پارک میں لوگوں کے جوش و خروش کا عجیب عالم تھا۔ عین وقت پر اچانک بجلی چلی گئی۔ کے ایل سہگل نے منتظمین سے کہا کہ وہ بجلی آنے پر گائے گا۔ اس مشکل صورتحال میں حمید بھائی نے رفیع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منتظمین سے کہا کہ جب تک بجلی نہیں آتی یہ لڑکا بغیر مائیک کے مجمع کو مصروف رکھ سکتاہے۔ منتظمین کے پاس اس تجویز کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ تب رفیع کو سٹیج پربلایا گیا۔ رفیع کے لیے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا یہ بہترین موقع تھا۔ اس روز اس نے کے ایل سہگل کے گانے گائے۔ اس کی منفرد آواز‘ آواز کا زیروبم اور اس میں جذبے اور جوانی کا جوش۔ منٹو پارک میں جمع لوگ اس کی آواز کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ یہ رفیع کا پہلا عوامی تعارف تھا۔ یہ اس لیے بھی ایک یادگار دن تھا کہ اس دن رفیع کے پسندیدہ گلوکار کے ایل سہگل نے اس کی تعریف کی تھی۔ رفیع کی زندگی کا دوسر ا یادگار دن وہ تھا جب اسے 1941ء میں پہلی بار پنجابی فلم ''گل بلوچ‘‘ میں زینت بیگم کے ہمراہ گانے کا موقع ملا تھا۔ گانے کے بول تھے'' سوہنیے نی‘ ہیریے نی ۔‘‘
اسی سال اس کیلئے ریڈیو کے دروازے بھی کھل گئے تھے۔ یوں رفیع کا فنی سفر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ اب حمیدبھائی کی نظر بمبئی کی فلم انڈسٹری پر تھی ۔ ایک روز حمید بھائی نے رفیع کو ساتھ لیا اور لاہور سے بمبئی جانے کا قصد کر لیا۔یہ آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن حمید بھائی کو یقین تھا کہ بمبئی میں اگر رفیع کو ایک بار گانے کا چانس مل گیا تو پھر اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ بمبئی کے بھنڈی بازار میں دونوں نے ایک چھوٹا سا کمرہ کرایے پر لیا اور اس وقت کے معروف موسیقار نوشاد کے والد سے تعارفی خط لے کر نوشاد کے پاس جا پہنچے۔ نوشاد ان دنوں اے آر کاردار کی فلم''پہلے آپ ‘‘میں موسیقی دے رہے تھے۔ نوشاد نے رفیع کو ایک کورس میں گانے کا موقع دیا جس کے بول تھے ''ہندوستاں کے ہیں ہم‘‘۔ اس کے بعد رفیع کو ''گاؤں کی گوری‘‘ اور''انمول گھڑی‘‘ میں گانے کا موقع ملا۔ یوں بمبئی کی فلمی دنیا میں اس کے فنی سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔ تب اچانک اس کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے اس کی زندگی کا رُخ بدل دیا اور وہ راتوں رات ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔(جاری)