کہتے ہیں برگد کے درخت کے نیچے کوئی دوسرا پودا سر نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بات بہت سے معروف لوگوں پر صادق آتی ہے جن کی شہرت کی چکاچوند میں ان کے بچوں کی صلاحیتیں دب گئیں‘ لیکن جگن ناتھ آزاد نے اس بات کو غلط ثابت کیا۔ جگن کے والد تلوک چند محروم برصغیر کے معروف شاعر تھے‘ جن کا شمار برصغیر کے چوٹی کے نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اسی برگد کے سائے میں ایک پودا جگن ناتھ آزاد کی صورت میں پیدا ہوا جس نے شعر‘ تنقید اور اقبالیات کی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور خود بھی ایک چھتناور درخت بنا۔
جگن ناتھ آزاد پانچ دسمبر 1918ء کو عیسیٰ خیل‘ ضلع میانوالی میں تلوک چند محروم کے گھر پیدا ہوا۔ تلوک چند کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اور وہ ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ جگن ناتھ کی پڑھائی کا آغاز اپنے گاؤں عیسیٰ خیل میں ایک سکول سے ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جگن ناتھ نے گاؤں کے رام موہن رائے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ تب عیسٰی خیل میں کالج کی سہولت نہ تھی۔ جگن ناتھ کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم معیاری اداروں سے حاصل کرے۔ یہ 1934ء کی بات ہے‘ جب تلوک چند محروم نے اپنے ہونہار بیٹے کو انٹرمیڈیٹ کے لیے راولپنڈی جانے کی اجازت دی جہاں اس نے ڈی اے وی کالج میں داخلہ لیا۔ یہ قدیم تعلیمی ادارہ 1893ء میں قائم ہوا تھا اور اس کی ابتدا ایک سکول سے ہوئی جو مشنری ادارے کے زیر اہتمام قائم ہوا تھا۔ یہی سکول بعد میں کالج بنا اور یہاں پڑھنے والوں میں ہندو‘ سکھ‘ مسلم اور عیسائی شامل تھے جو اپنے اپنے رنگوں سے اس چمن کی زینت بڑھا رہے تھے۔ کالج غیرنصابی سرگرمیوں کی ایک جھلملاتی کہکشاں تھی۔ مشاعر ے‘ مباحثے‘ ڈرامے‘ کھیل اور پھر کالج میگزین۔ یہ سب طلبہ کی علمی‘ ادبی‘ جسمانی اور ثقافتی نشوونما کرتے تھے۔ ڈی اے وی کالج سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد جگن ناتھ گورڈن کالج کے طلسم کدہ میں داخل ہوا‘ جہاں اس کی شعری اور ادبی صلاحیتوں کو صیقل ہونا تھا۔ جلد ہی اسے اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع مل گیا‘ جب اسے کالج میگزین ''گورڈونین‘‘ کا مدیر منتخب کر لیا گیا۔ کئی دہائیوں بعد جب میں گورڈن کالج میں داخل ہوا اور مجھے کالج میگزین ''گورڈونین‘‘ کی ادارت کا اعزاز حاصل ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ نشاط کی وہی کیفیت ہے جو جگن ناتھ آزاد نے کئی برس پہلے محسوس کی ہو گی۔ گورڈن کالج نے جگن ناتھ کی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں جِلا بخشی جبکہ شاعری کی دولت تو اسے ورثے میں ملی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جگن ناتھ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے والد‘ معروف شاعر تلوک چند کے ہمراہ میانوالی سے کالا باغ جا رہا تھا۔ دور انہیں خوبصورت پہاڑیوں پر بنے مکان نظر آئے تو تلوک چند محروم نے ایک مصرع پڑھا: پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکان۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ننھے بیٹے جگن کو دیکھا اور کہا: کیا تم شعر مکمل کر سکتے ہو؟ ننھے جگن ناتھ نے تھوڑا تامل کیا اور پھر پورے اعتماد سے شعر مکمل کیا۔
پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکان
عجب ان کی صورت‘ عجب ان کی شان
والد نے فخر سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور کہا اگر ''صورت‘‘ کی جگہ ''شوکت‘‘ کا لفظ ہو تو کیسا لگے:
پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکان
عجب ان کی شوکت‘ عجب ان کی شان
یوں جگن ناتھ کی شاعری کی اصلاح کا آغاز اس کے گھر سے ہوا۔ بعد میں یہی جگن ناتھ شعر و ا دب کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکا‘ لیکن یہ چھوٹا سا واقعہ اسے ہمیشہ یاد رہا کہ کس طرح اس کے والد نے شفقت اور محبت سے شعر و ادب میں اس کی رہنمائی کی تھی۔ یوں جگن کے شعری ذوق کی پرورش کا آغاز اپنے گھر سے ہوا۔ کم سنی ہی میں اس نے اپنے اردگرد کتابیں دیکھی تھیں‘ جن میں زیادہ تر کتابیں شاعری کی تھیں۔ وہیں کتابچوں کی صورت میں علامہ اقبال کی نظمیں شکوہ‘ جوابِ شکوہ‘ تصویرِ درد اور نالۂ یتیم پڑھیں۔ بعد میں جگن ناتھ کو بانگِ درا پوری توجہ اور تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ جگن ناتھ کا اقبال سے پہلا تعارف تھا۔ اقبال کی شاعری کی یہ چنگاری اس کے اندر آہستہ آہستہ سلگتی رہی۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کا دیوانہ ہو گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے فارسی کرنے سے پہلے ہی جگن ناتھ کو جاوید نامہ کے علاوہ سارا کلامِ اقبال ازبر ہو گیا تھا۔ لوگ اسے حافظِ اقبال کہا کرتے تھے۔ یہ نام اسے اس کے استاد شمس العلما مولانا تاجور نجیب آبادی نے دیا تھا۔ پھر اس نے اقبال کے حوالے سے متعدد کتابیں لکھیں۔ جب جگن ناتھ آزاد کو اقبال کے حوالے سے تقریبات میں شرکت کے لیے 1980ء میں پاکستان مدعو کیا گیا تو اسے حکومتی سطح پر پروٹوکول دیا گیا۔ ایک سیشن کی صدارت اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیا الحق نے کی‘ دوسرے سیشن کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کی جبکہ تیسرے سیشن کی صدارت کے لیے بھارت سے آئے ہوئے ماہرِ اقبالیات جگن ناتھ آزاد کو کہا گیا۔ اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ ہوا‘ جب جگن ناتھ آزاد کی صدر ضیا الحق سے ملاقات ہوئی تو صدر ضیا نے جگن ناتھ کو دیکھتے ہی کہا: تشریف لائیے حافظِ اقبال صاحب۔ جگن ناتھ نے اقبال کے ساتھ اپنے رشتے پر ہمیشہ فخر محسوس کیا۔
گورڈن کالج سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ لاہور آ گیا جہاں اس نے فارسی کے مضمون میں ایم اے کیا۔ فارسی سے محبت اسے اپنے والد تلوک چند محروم سے ملی تھی جو فارسی کے استاد تھے۔ لاہور اُن دنوں علمی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس کے اساتذہ میں سید عابد علی عابد‘ صوفی غلام مصطفی تبسم‘ پروفیسر علم الدین سالک اور ڈاکٹر سید عبد اللہ جیسے نام شامل تھے۔ لاہور میں اس زمانے کے اہم ادیبوں اور شاعروں سے جگن ناتھ کو سیکھنے کا موقع ملا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب وہ صحافت کے میدان میں آنا چاہتا تھا۔ یہ موقع اسے جلد ہی مل گیا۔ ہوا یوں کہ مولانا صلاح الدین احمد‘ جو معروف رسالے ''ادبی دنیا‘‘ کے مدیر تھے‘ کو چھ ماہ کے لیے بمبئی جانا پڑا۔ ایسے میں انہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو چھ ماہ کے لیے ان کی جگہ رسالے کی ادارت سنبھال سکے۔ مولانا صلاح الدین احمد کی نگاہِ انتخاب جگن ناتھ آزاد پر پڑی۔ یہ نوجوان جگن کی صلاحیتوں پر ان کے اعتماد کا اظہار تھا۔ جگن ناتھ کے لیے بھی یہ اعزاز کی بات تھی کہ صلاح الدین احمد نے اسے اپنے جا نشین کے درجے پر فائز کیا تھا۔
جگن ناتھ آزاد کو بعد ازاں روزنامہ ٹریبیون (لاہور) میں کام کا موقع ملا‘ جہاں اس کی تنخواہ پچیس روپے تھی‘ جو اُس زمانے میں ایک مناسب رقم تھی لیکن اس سے بڑھ کر اسے صحافت کی دنیا کے انتہائی تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ ٹریبیون میں کام کرتے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ملاپ اخبار کے مالک رنبیر نے رابطہ کیا اور جگن کو 30روپے ماہانہ کی ملازمت کی پیشکش کی۔ رنبیر کا کہنا تھا کہ اگر جگن اسے عمر خیام کی رباعیات پڑھائے گا تو اس کے دس روپے علیحدہ سے ملیں گے۔ جگن ناتھ کے لیے چالیس روپے کی ملازمت ایک پُرکشش پیشکش تھی۔ وہ آنکھوں میں نئے منظروں کے خواب سجائے ایک نئے سفر کی تیاری کرنے لگا۔ (جاری)