"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت… (10)

سراج الدولہ کی موت کے ساتھ ہی بنگال کی آزادی کا سورج غروب ہو گیا تھا۔ بنگال کا سنہری دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے راستے کی آخری دیوار منہدم ہو گئی تھی۔ میر جعفر کے اقتدار کا خواب پورا ہو گیا تھا۔ وہ اقتدار جو اسے اپنے محسن نواب سراج الدولہ سے غداری کے عوض ملا تھا۔ جب پلاسی کے میدان میں اس نے اپنی زیر کمان فوج کو آگے بڑھنے اور انگریزوں سے لڑنے سے منع کر دیا اور انہیں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا‘ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا تھا۔ وہ منصوبہ جو کلائیو اور میر جعفر نے بنایا تھا۔ عین اس وقت کلائیو کی فوج نے دھاوا بولا اور نواب کی فوج تتر بتر ہو گئی۔ سراج الدولہ کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی اپنی فوج کا سپہ سالار اس کی پشت میں خنجر گھونپ دے گا۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی جو کل تک بنگال کے نواب سے مراعات کی متمنی تھی آج بنگال کے نئے نواب کی تقرری کا فیصلہ کر رہی تھی۔ کلائیو خود مرشد آباد پہنچا اور میر جعفر کو بنگال کا نواب بنانے کا اعلان کیا۔ میر جعفر کو اقتدار کے تخت پر بٹھانے کے بعد کلائیو نے ایک ترجمان کی مدد سے دربار کے شرفا سے خطاب کیا اور انہیں میر جعفر کی سپورٹ کے لیے کہا۔
اب میر جعفر بنگال کا نواب تھا۔ اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی تھی لیکن صرف میر جعفر کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔ جگت سیٹھ کے خواب کو بھی تعبیر ملی تھی۔ اب بنگال میں میر جعفر کی حکومت تھی جو جگت سیٹھ کی مرہونِ منت تھی اور جس کے ذریعے جگت سیٹھ کے معاشی مفادات‘ میر جعفر اور جگت سیٹھ کے خوابوں کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی اور کلائیو کے خواب بھی جڑے ہوئے تھے۔ کلائیو اور کمپنی کا خواب اپنے مالی اور سیاسی مفادات کا حصول تھا۔ ان سب خوابوں کی تعبیر کے راستے میں ایک ہی رکاوٹ تھی جس کا نام سراج الدولہ تھا۔ یہ رکاوٹ اب دور ہو چکی تھی۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی مرضی کی تجارتی مراعات لے سکتی تھی اور اپنے مراکز کی قلعہ بندی کر سکتی تھی کیونکہ میر جعفر ان کا کٹھ پتلی نواب تھا۔
میر جعفر بنگال کا حکمران بن تو گیا لیکن عوام‘ اشرافیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظروں میں اس کی کوئی وقعت نہ تھی۔ سب کے نزدیک اس کی واحد پہچان غداری تھی۔ سب جانتے تھے کہ جو شخص اپنے سب سے بڑے محسن سراج الدولہ سے غداری کر سکتا ہے اس پر کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ میر جعفر کو اقتدار سنبھالتے ہی یہ احساس ہو گیا کہ یہ عہدہ کانٹوں کی سیج ہے۔ ایک طرف تو اندرونی خلفشار تھا اور دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہر روز کے مالی مطالبات۔ اس نے خزانے کی صورتحال دیکھی تو پتا چلا کہ خزانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالی مطالبات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس نے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو رقم مہیا کی جا سکے۔ عوام ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نڈھال ہو چکے تھے لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوس کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ یوں بنگال کا سیاسی اور انتظامی استحکام ڈگمگا رہا تھا۔ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال کے سیاسی استحکام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کو صرف اپنے مالی مفادات عزیز تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا رابرٹ کلائیو کمپنی کے لیے رقم کے علاوہ ذاتی طور پر بھی رقم وصول کرتا تھا۔ میر جعفر کے پاس کلائیو کے جائز ناجائز مالی مطالبات پورے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ صرف جنگ پلاسی کے اخراجات کی مد میں میر جعفر نے 17.7 ملین روپے کلائیو کو دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
یوں بنگال جو کبھی ہندوستان کا امیر ترین صوبہ تھا‘ جہاں سراج الدولہ کی نافذ کردہ اصلاحات نے معیشت کو نئی بلندی پر پہنچا دیا تھا اب وہی بنگال بدانتظامی اور کرپشن کا گڑھ بن چکا تھا۔ سرکاری خزانہ خالی ہو گیا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مالی ضروریات ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی تھیں۔ صوبے کی زرعی پیداوار مسلسل کم ہو رہی تھی۔ اندرونی خلفشار عروج پر تھا۔ میر جعفر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی پر انحصار کر رہا تھا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے مطالبات بڑھاتی جا رہی تھی۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک تو چلتا رہا لیکن آخر کب تک؟ آخرکار میر جعفر کمپنی کی آئے روز کی فرمائشوں سے تنگ آ گیا۔ اب اس کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے رشتہ سخت تناؤ کا شکار تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں تھے۔ میر جعفر کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا جب اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے چنگل سے رہائی ملے۔ تب اس کے ذہن میں ایک خیال نے انگڑائی لی اور اس نے خود اپنے آپ کو اس خیال پر داد دی۔ اس نے سوچا کیوں نہ وہ خفیہ طور پر ولندیزیوں سے رابطہ کرے۔ انہیں کچھ مراعات کا لالچ دے اور یوں ایسٹ انڈیا کمپنی سے جان چھڑا لے جو اس کی کمزوریوں سے واقف تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے اس نے سراج الدولہ سے نجات پانے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی سے خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ اب بظاہر وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار تھا لیکن خفیہ طور پر وہ ولندیزیوں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ میر جعفر کے کہنے پر ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابل آگئے تھے۔ 2 نومبر 1759ء کو چنسورہ(Chinsurah) کی جنگ کا آغاز ہوا۔
یہ ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس کے نتیجے میں فاتح فوج کو بنگال کا کنٹرول ملنے والا تھا۔ میر جعفر کی درپردہ ہمدردیاں ولندیزیوں کے ساتھ تھیں۔ یہ ایک اہم معرکہ تھا دونوں اطراف نے اپنے جنگی وسائل اس معرکے میں جھونک دیے تھے۔ اس جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو فیصلہ کن فتح ملی۔ کلائیو پر میر جعفر کی غداری آشکار ہو چکی تھی۔ ابھی تک دونوں کے درمیان تعلق کی بنیاد دونوں کا اپنا اپنا مفاد تھا۔ میر جعفر کو ذاتی جاہ وحشم کی خواہش تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا معیشت اور سیاست پر کنٹرول کا خواب تھا۔ میر جعفر برائے نام حکمران تھا۔ اصل طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس تھی یوں میر جعفر کی اقتدار پر گرفت ہر گزرتے دن کیساتھ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔
چنسورہ کی جنگ میں میر جعفر کی درپردہ غداری کی خبر کلائیو تک پہنچ چکی تھی۔ اب میر جعفر کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کی سفارش پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو معزول کر دیا۔ اب وہ ان کے کسی کام کا نہیں رہا تھا اور خود ان کے خلاف سازشوں کا حصہ بن گیا تھا۔ یہ 1759ء کا سال تھا جب میر جعفر کو اقتدار سے اتار دیا گیا۔ وہی اقتدار جس کے لیے اس نے بہت کوششیں کی تھیں حتیٰ کہ اپنے محسن نواب سراج الدولہ کی موت کا سودا کر لیا تھا۔ آج اسے بری طرح احساس ہوا کہ اقتدار عارضی چیز ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی‘ جس کے لیے اس نے اپنی عزت اور شہرت داؤ پر لگا دی تھی اس سے ناراض ہو چکی تھی۔ میر جعفر کا اقتدار صرف دو سال پہ محیط تھا۔ یہ عرصہ بھی اس بدانتظامی‘ کرپشن‘ عدم استحکام‘ اندرونی خلفشار اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مسلسل مالی فرمائشوں سے عبارت تھا۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا تھا۔ میر جعفر کی جگہ جس شخص کا انتخاب کیا گیا وہ علی وردی کا داماد میر قاسم تھا۔ ایک پُرجوش نوجوان جو طاقت اور اختیار سے محبت کرتا تھا اور جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے آقاؤں کو یقین دلایا کہ وہ انہیں میر جعفر کے مقابلے میں زیادہ رقم اکٹھی کر کے دے گا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں