چودہ اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کا ابھرنا بے شک ہماری تاریخ کا عمدہ ترین لمحہ تھا۔ ہماری قوم کو آ زادی، جمہوریت اور خوشحالی کی آرزو پوری ہونے کی ایک صورت دکھائی دی۔ اپنے مشن کی تکمیل پر انتہائی طمانیت محسوس کرتے ہوئے قائد ِ اعظم نے چودہ اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا :''آپ کی ریاست کی بنیاد رکھی جاچکی اور اب آپ نے اس کی جتنی جلدی ہوسکے، تعمیر کرنی ہے۔‘‘
قیام ِ پاکستان کے بعد قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اس وطن، جسے وہ ''دنیا کی عظیم ترین اقوام میں سے ایک ‘‘ بنانا چاہتے تھے‘ کی رہنمائی نہ کرسکے۔ تاہم اگروہ حیات ہوتے تواُنہیں یہ دیکھ کر تاسف ہوتا کہ ہم بطور قوم اور یکے بعددیگرے آنے والے ہمارے مختلف رہنما ، جن میں فوجی بھی شامل ہیں اور سویلین بھی، اُن کے تصورِ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے اور قومی اتحاد، علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کا تحفظ کرنے میںکس بری طرح ناکام ہوئے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ‘ ہمیں ذرہ برابر شرمندگی نہیں کہ ہم نے قائد کے پاکستان کے ساتھ کیا کیا؟اس یوم ِ آزادی پر ہمیں یقینا اپنے ماضی اور طرز ِعمل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے وہ جن کا تعلق پاکستان کی پہلی نسل سے ہے اور جنھوں نے پاکستان کو قیام کے ابتدائی مراحل سے گزرتے اوربانی رہنمائوں کے خواب کوشرمندہ ٔ تعبیر ہونے کی کیفیت کو دیکھا ہے، یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ قائدِ اعظم اس ملک کو کیا بنانا چاہتے تھے اور آج بطور ایک قوم اور ریاست یہ کس مقام پر کھڑا ہے۔ قائد کے پاکستان کی کہانی اس معاشرے کی کہانی ہے جو گزشتہ 68 برسوںسے ایک بے مقصد دشت نوردی کا شکار ہے۔ حقیقی جمہوریت، قانون کی حکمرانی اورگڈ گورننس کا فقدان اس کی پہچان بن چکے ہیں۔ آزادی کے پہلے سال، جو اُن کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا، قائد ِ اعظم یقینی طور پر آنے والے واقعات کو بھانپ چکے تھے۔ وہ ملک کے سیاسی طبقہ جو خودغرض جاگیرداروں اور موقع پرست متمول سیاست دانوں پر مشتمل تھا اور جس کے ہاتھ بدقسمتی سے اس ملک کی زمام ِ اختیار آگئی تھی، سے مایوس تھے۔ سیاسی بے بصری اس ملک کے افق بلکہ درودیوار سے ہویدا تھی۔محترم قائد کے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ گیارہ اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے قانون سازوں کو اُن پر عائد بھاری ذمہ داری کی یاددہانی کرائی کہ اُنھوں نے پاکستان کے لیے آئین سازی کرنی ہے اور اسے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر چلانا ہے۔ تاہم سیاست دانوں اورکئی حکومتوں کو ملک کا پہلا دستور بنانے میں نوسال لگ گئے، لیکن 1956ء میں بنائے گئے اُس پہلے دستور کو تین سال بعد ہی منسوخ کردیا گیا۔
اُس وقت سے لے کر اب تک، ہم نے دوآئین بنائے‘ پہلا آئین ایک فیلڈ مارشل صدر نے 1962ء میں نافذ کیا تودوسرا ایک ''منتخب افراد ‘‘‘ کے اُس گروہ نے بنایا جن کے پاس آئین سازی کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا‘ چنانچہ ملک پارلیمانی جمود کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں 1971ء کا سانحہ پیش آیا۔ غلطیوں سے لبریز 1973ء کے آئین میںاب تک اتنی ترامیم کی گئی ہیں کہ اس کی اصل شکل باقی نہیں رہی۔ آج یہ ایک بالکل مختلف آئین ہے۔ نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور قوم سازی کے عناصر کو تقویت دینے کی بجائے ہمارے سیاست دان ہمیشہ محدود ذاتی مفادکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اُنھو ں نے 1970ء کے انتخابات میں عوامی خواہشات کو مسترد کردیا اور بحران کے حل کے لیے سیاسی علاج کی جستجو کے بجائے فوج کو استعمال کرنے کو ترجیح دی ۔ اصل پاکستان شکست و ریخت کا شکار ہوگیا، لیکن ہم نے پھر بھی اپنی غلطیوںسے سبق نہیں سیکھا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بہت بڑے جاگیرداروں، پہلے قبائلی اور اب صنعتی اشرافیہ نے پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے میں اپنے پنجے اس بری طرح گاڑ رکھے ہیں کہ وہ اس کے نظام میں تبدیلیاں کرنے کی اجازت نہیںدیتے ۔ دراصل سیاست دانوں کو تبدیلی راس ہی نہیںآتی۔ وہ آئین میں تبدیلیاں ضرور کرتے ہیں
لیکن صرف اپنے مفاد کے لیے۔ ان کا مفاد ریاستی اداروں اور قومی سازی کے عمل کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک آج تک ایک ایسے سیاسی نظام کو ترقی نہیںدے سکا جولسانی اختلافات رکھنے والے اس کثیر نسلی معاشرے کے لیے موزوں ہو۔
غیر یقینی مستقبل کا شکار ہوتے ہوئے ہم یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں‘ لیکن ہم ابھی تک بطور قوم کوئی ایک مشترکہ مقصد بھی وضع نہیں کرسکے۔ ہمارے رہنمائوں نے قوم کے سامنے کبھی ایک جمہوری ریاست کا تصور پیش نہیںکیا جوپاکستان کے تمام شہریوںکے لیے بلا تخصیص سماجی اور معاشی انصاف اور بہتر نظم ونسق یقینی بناسکے۔ وہ آزادی کے بعد سراٹھانے والے اُن چیلنجز سے عہدہ برآ نہ ہوسکے جو ہمارے سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی معروضات سے جڑے ہوئے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ملک،جسے قیام کے وقت ''بیسویں صدی کا معجزہ‘‘ قرار دیا گیا تھا اور جس کی تخلیق مکمل طور پر جمہوری اور آئینی جدوجہد کا نتیجہ تھی، آنے والے برسوںمیں حقیقی جمہوریت، سماجی انصاف اور شہریوں کے مساوی حقوق کے لیے جدوجہدکرتا دکھائی دیا۔
یہ ملک آج بھی کثیر نسلی آبادی اور لسانی اور قبائلی اختلافات رکھنے والے معاشرے کے لیے ایک مستحکم سیاسی نظام اور مربوط قومی شناخت کی تلاش میں ہے۔ اس وقت ملک میں بیس کے قریب زبانیں اور تین سو کے قریب بولیاں(dialects) پائی جاتی ہیں۔ یہ تنوع علاقائی تنائو اور صوبائی عصبیت کا باعث بنتے ہیں۔ چھوٹے صوبوں میں'' پنجاب کے غلبے‘‘اور طاقت اور وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کے خلاف ناراضی پائی جاتی ہے۔ ہمارا آئین صوبوں کے سائز میں عدم مساوات اور سیاسی اور معاشی طاقت کی شراکت داری کے حوالے سے جنم لینے والے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا۔ دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے نظام کی طرف دیکھتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک عجیب طرح کا وفاق ہیںجس کی دنیا میں کہیں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارا موجودہ صوبائی نظام بہت حد تک سیاسی عدم استحکام کاباعث ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک میں بدنظمی اور بدعنوانی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وفاقی یونٹس میں عدم مساوات اور احساس ِ محرومی بھی بڑھتا رہتا ہے۔ ناہموار ی کے شکار ایک نظام میں کوئی حکومتی سیٹ اپ نہیں چل سکتا۔یہ ناہمواری ہر نظام کو مفلوج کرسکتی ہے اورہم اس کا بخوبی تجربہ کررہے ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ گورننس کو نسلی اور لسانی معروضات سے الگ کرکے نئے انتظامی یونٹس بنائے جائیں، گوایسا کرتے ہوئے وہاں کی مقامی آبادی اوراس کی جغرافیائی حرکیات کو مدّ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس دقیانوسی نظام میں تبدیلیاں لاتے ہوئے ملکی سیاست پر حاوی غاصب قوتوں ، ازکارفتہ سیاسی اور سماجی ڈھانچے اور اشرافیہ کو سیاسی بازو فراہم کرنے والے عوامل سے نجات حاصل کریں۔ آزادی کے بعد سے ہمارے قومی نظم اور سیاسی رویوںکی حالت نہایت مایوس کن رہی ہے۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کی طرح ہم بھی پالیمانی جمہوریت کے لیے موزوں نہیں۔ برطانیہ نے صدیوںتک جدوجہد کرکے موجودہ پارلیمانی نظام کو استحکام بخشا ہے تو ہمارے لیے تو یہ ایک نہایت طویل اور محنت طلب کام ہوگا۔ طبعاً ہم صدارتی نظام کی طرف جھکائو رکھنے والی قوم ہیں۔ کیاابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اُس نظام کو ترک کردیں جس کے لیے ہم موزوں ہی نہیں اور پاکستان کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ''صدارتی نظام‘‘ اپنا لیں؟
ہمیں درحقیقت پاکستان کوقائد ِاعظم کے تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، ایک ایسا پاکستان جو نسلی، لسانی، مسلکی، طبقاتی اور علاقائی عصبیتوںسے آزاد ہو۔ ہمیںداخلی ہم آہنگی اور سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام درکارہے تاکہ ہم اپنے ملک کے بارے میں دنیا کا منفی تاثر رفع کرتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے ایک ایسا پاکستان پیش کرسکیں جس کی پہچان دہشت گردی اور تشددنہیں بلکہ کچھ اور مثبت اور حوصلہ افزا حرکیات ہوں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)