"SAC" (space) message & send to 7575

کہاں ہے قائد کا پاکستان؟

''تئیس مارچ 1940ء کو منٹو پارک، لاہور میں دلیر اور باہمت افراد نے اپنے ہم وطنوں کو ایک نئی ریاست دینے کا عزم کیا‘‘ روح کو گرما دینے والا یہ اشتہار ایک اہم اخبار میں شائع ہوا۔ اس اشتہار میں قارئین سے اظہار خیال کرنے کو کہا گیا ہے کہ اب پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر کیسے گامزن کیا جا سکتا ہے؟ اشتہار میں کہا گیا ہے۔۔۔ ''یہ وقت ایک نئی قرارداد پیش کرنے کا ہے‘‘۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو اس منفرد اشتہار میں ایک نئے پاکستان کی خواہش کا اظہار دکھائی دیتا ہے۔ 
اس پر ایک تکلیف دہ سوال فوری طور پر ذہن میں آیا ہے کہ قیام کے وقت قائد کے پاکستان کے ساتھ کیا مسئلہ تھا؟ یقینا پاکستان کو وہ معمول کے مسائل درپیش تھے‘ جن کا ہر نوزائیدہ مملکت کو سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اور کوئی خرابی نہ تھی۔ چودہ اگست 1947ء کا اس ریاست کا وجود میں آنا ہماری تاریخ کا عمدہ ترین لمحہ تھا۔ ہمارے لوگوں نے آزادی، جمہوریت اور خوشحالی کے دیرینہ خواب کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا۔ جب محترم قائد نے چودہ اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنا آخری پیغام دیا‘ تو اُن کے لہجے میں انتہائی طمانیت اور آسودگی کی جھلک نمایاں تھی۔ آپ نے فرمایا۔۔۔ ''آپ کی ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی، اب یہ آپ پر ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے، اس کی تعمیر کریں‘‘۔ افسوس قائد اعظم ہمیں نہیں سمجھ سکے۔ اگر اُن سے زندگی وفا کرتی تو اُنہیں یہ دیکھ کر سخت ندامت ہوتی کہ کس طرح یکے بعد دیگر ے آنے والے حکمران پاکستان کو ان کے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور قومی اتحاد اور خود مختاری کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔ ہم میں سے وہ افراد جن کا تعلق پاکستان کی پہلی نسل سے ہے، اور جنہوں نے ریاست کو تخلیق کے بعد ابتدائی مراحل سے گزرتے دیکھا ہے، ان کو یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا تصور کیا تھا اور اب پاکستان، بطور ایک ریاست اور قوم، کہاں کھڑا ہے؟
پاکستان اسلام اور جمہوریت کے نام پر وجود میں آیا، لیکن اپنے قیام کے بعد ان دونوں سے دور ہوتا گیا۔ آزادی کے پہلے سال، جو اُن کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا، قائد اعظم آنے والے واقعات کو بھانپ گئے تھے۔ اُنہیں اس ملک کے سیاسی طبقے میں قحط الرجال کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ انتہائی محدود صلاحیتیں رکھنے والے جاگیردار‘ اور سیاسی اشرافیہ محض خود غرض افراد کا ٹولہ ہے‘ جس کے ہاتھ اس نئی آزاد ہونے والی ریاست کی زمام اختیار آ گئی ہے۔ اُس وقت ملک کے افق پر سیاسی نااہلی کا گرد و غبار چھا چکا تھا۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد قوم کو ایسا کوئی رہنما میسر نہ آیا جو پاکستان کو ''دنیا کی عظیم ترین ریاستوں میں سے ایک‘‘ بنا سکے۔ قائد کے بعد ملک بے سمت، راہ گم کردہ مسافر کی طرح سیاسی اور اخلااقی دیوالیہ پن کی دلدل میں دھنس گیا۔ اس کا سماجی ڈھانچہ پارہ پارہ ہونے لگا، اور اس نے نہ صرف اپنے قیام کے ربع صدی سے بھی کم عرصے میں اپنا نصف حصہ کھو دیا‘ بلکہ وہ جواز بھی مسخ کر دیا جس کو بنیاد بنا کر اس کے بانی راہنمائوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے حصول کی جدوجہد کی تھی۔ لسانی اور نسلی بنیادوں پر بٹے ہوئے معاشرے کو مذہب ایک قوم نہ بنا سکا۔ موقع پرستی اور لوٹ مار لالچی سیاست دانوں کا معمول بن گئے۔ ملکی سیاست اسلامی اقدار سے تہی دامن ہو گئی۔ اسلام کے نام پر بننے والی کچھ بے ضرر سی آئینی دفعات ضرور موجود ہیں‘ لیکن کسی کو ان کے نفاذ کی پروا نہیں۔ 
ایک ملک، جسے ''بیسویں صدی کا معجزہ‘‘ قرار دیا گیا، ایک ریاست‘ جس نے مکمل طور پر جمہوری اور آئینی راستے پر چلتے ہوئے جدوجہد کی، میں حقیقی جمہوریت اور آئین اور قانون کی بالا دستی‘ خواب بن کر رہ گئے۔ اس کے رہنما قوم کو وہ فلاحی ریاست نہ دے سکے جو سماجی اور معاشی انصاف کی یقین دہانی کراتی ہے۔ وہ آزادی کے بعد اُن چیلنجز سے نہ نمٹ سکے جن کا تعلق ہماری سیاسی اور جغرافیائی فالٹ لائن سے تھا۔ سب سے پہلے ہمارے درمیان لسانی تفریق ابھرنا شروع ہوئی، اور اس کے گہرا ہوتے ہی حقیقی پاکستان کو تعصبات کے اندھیرے نے آ لیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بچ جانے والا ملک اقتدار کی آڑ میں لوٹ مارکرنے والے ٹولے کی شکار گاہ بن کے رہ گیا۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور مذہبی تعصب، کلچر، لسانیت اور نسل پرستی کی دلدل سے باہر نہ نکل سکے۔ کسی حکومت نے ہمارے دقیانوسی جاگیردارانہ نظام کو درست کرنے یا صوبائی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہم ابھی تک ایک مربوط قومی شناخت کی قابل قبول تعریف اور ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں بیس سے زیادہ زبانیں اور ان کے تین سو سے زیادہ لہجے پائے جاتے ہیں۔ یہ تنوع علاقائی تفریق اور صوبائی تنائو کا باعث بنتا ہے۔ 
ہمارے چھوٹے صوبے پنجاب کی مبینہ بالا دستی پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ تحفظات رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ وسائل اور اختیارات کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری اور تفاوت ہے۔ ہمارا آئین صوبوں کے سائز میں فرق کی وجہ سے سیاسی اور معاشی عدم مساوات کا حل پیش نہیں کرتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ ہر قسم کی اصلاحات کے خلاف مزاحم ہے‘ کیونکہ تبدیلی اسے راس نہیں آتی۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اصلاحات کا شرو ع ہونے والا عمل اُن کی طاقت اور مفادات پر ضرب لگائے گا؛ چنانچہ نظام کی خامیاں دور کرتے ہوئے قوم کو یک جا کرنے والے عناصر کو تقویت دیے بغیر ہمارے حکمرانوں نے صوبائی نظام کے ذریعے اپنی اپنی ''سیاسی سلطنتوں‘‘ کو مضبوط کر رکھا ہے۔ وہ انہیں کسی مغل شہنشاہ کی طرح چلاتے ہیں‘ اور خود کو کسی بھی احتساب اور قدغن سے بے نیاز سمجھتے ہیں۔ دہشت گردی کی جس لعنت سے ہم آج نمٹنے کی کوشش میں ہیں، وہ بھی اسی بدانتظامی اور ناقص گورننس کا شاخسانہ ہے۔ سیاسی عمل میں کئی مرتبہ رخنہ اندازی کی روایت کے راسخ ہونے کی وجہ سے عوام معمولی مسائل کے حل کے لیے دفاعی اداروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے تھے۔ آج بھی حالات میں بہتری نہیں آئی، آج بھی لوگ حکومت کی عدم فعالیت کی وجہ سے فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ 
ضروری ہے کہ ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں۔ جب بھی ہمیں آئینہ دکھایا جاتا ہے‘ تو ہمیں اپنی دھندلی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ ہم ایک منتشر قوم اور راہ گم کردہ ملک ہیں اور ہم پر لوٹ مار کرنے والے حکمران مسلط ہیں۔ نہ نشان منزل باقی ہے اور نہ ہی جذب دروں، صفیں کج اور احساس زیاں ناپید، اور قومی وقار اور خودداری مدتوں ہوئے تعصبات کی نذر ہو چکے۔ دنیا کا کوئی ملک اشرافیہ کو اس طرح کھلی چھوٹ نہیں دیتا، کسی ملک میں قرض معاف کرانے والوں اور ٹیکس چوروں کو عوامی عہدے رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی؛ چنانچہ امسال بھی ہم قرارداد پاکستان کی سالگرہ محض رسمی طور پر منائیں گے، لیکن ہمارے دل اس جذبے سے عاری ہوں گے جو اس سرزمین کے حصول کے لیے انڈین مسلمانوں کے دل میں موجزن تھا‘ اور وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بہتر اور باوقار زندگی کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے آگ اور خون کے دریا سے گزر کر آئے تھے۔ شاید یہ دن ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور وقت کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے بطور ملک اور قوم ان پر قابو پا کر نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ہم شتر مرغ کی طرح غفلت کی ریت میں سر دبائے خود کو یہ یقین نہیں دلا سکتے کہ معجزانہ طور پر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پے در پے سانحات سے نمٹنے کے لیے ہمیں بامقصد سیاسی مکالمے اور سارے حکومتی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیاسی، معاشی، عدالتی، تعلیمی، زرعی اور انتظامی اصلاحات درکار ہیں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں