"SQC" (space) message & send to 7575

مارچ کا مہینہ

وطن کے چہرے کو لہو لہو کرنے والے دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی ضروری ہے ہر مہینے کا ایک مُکھ ہوتا ہے، ایک چہرہ مہرہ ہوتا ہے، اپنے خدوخال ہوتے ہیں۔ جیسے ہر انسان الگ خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح سال کے بارہ مہینے بھی اپنی اپنی صفتیں رکھتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے مارچ کا مہینہ چڑھتا ہے تو ایسا لگتا ہے نئی شروعات ہونے والی ہے۔ ایک نیا آغاز ہے۔ جیسے کاپی کا نیا نکور صفحہ ہو۔ اس انتظار میں کہ اس پر کچھ اچھا سا لکھا جائے۔ مارچ کے مہینے کے ساتھ بچپن ہی سے امتحان کے نتیجے کی یادیں وابستہ ہیں۔ پھر نئی کلاس، نئی کتابیں، نیا بستہ ہوتا۔ نئے خوابوں اور نئے عزائم کے ساتھ زندگی نئی ڈگر پر رواں دواں ہوتی۔ اب اگرچہ بہت کچھ بدل گیا ہے، بچپن کی معصوم سوچوں کی جگہ اب زندگی کے حقائق نے لے لی ہے۔ اب زندگی کو بدلنے کے لیے نئی کتابیں اور نیا بستہ ہی کافی نہیں ہوتا۔ خواب کو تعبیر کرنے کے لیے بہت جدوجہد اور مسلسل عمل کی ضرورت ہے اور اب تو ہم نے یہ دیکھا کہ کچھ لوگ تمام عمر خوابوں کو آنکھوں میں سجائے تعبیر کا انتظار کرتے ہیں مگر انہیں قریۂ تعبیر نصیب نہیں ہوتا۔ وطن عزیز کے پینسٹھ سال دیکھیں تو کبھی کبھی بہتری کی جانب ہونے والا سفر اُلٹا دکھائی دیتا ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے تو شاید گلیوں بازاروں میں چلتے پھرتے لوگوں کو خوف اور سہم کی اس کیفیت سے پالا نہ پڑا ہو‘ جس کا شکار آج کل ہم سب لوگ ہیں۔ اتنے برس پہلے موت شاید اتنی ارزاں بھی نہیں تھی کہ زندگی کی مصروفیات میں گم، لوگوں کے ہجوم کو ایک ہی پل میں زندگی سے دور کرکے موت کی وادی میں اتار دے۔ بحران تو ہمیشہ سے ہی اس قوم کا مقدر رہے ہیں لیکن شاید ایسے کڑے امتحانات کا سامنا پہلے نہیں تھا جو اب ہے اور بدقسمتی سے اس مشکل دور سے نکالنے کے لیے ایک اعلیٰ درجے کی رہنمائی بھی میسر نہیں ہے۔ ہاں رہبروں کا ایک ہجوم ضرور ہے جو اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاستدان موجود ہیں‘ لیڈر نہیں۔ سیاستدان وقتی مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلے کرتا ہے اور لیڈر آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے فیصلے کرتا ہے۔ اگر ہمیں بھی سیاستدانوں کی بجائے رہنما میسر ہوتے تو شاید آج ملک کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔ مشرف ایک جرنیل تھا جس نے امریکہ کے سامنے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو جُھکایا اور ایسے معاہدے کیے جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اصل گلہ تو ان عوامی نمائندوں سے ہے جنہوں نے رہبری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے کہ جب عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا، انہیں مسندِ اقتدار پر بٹھایا تو پھر کیا وجہ تھی کہ پورے پانچ سال گزر گئے مگر وہ معاملات نہ سلجھ سکے جو سخت الجھائو کا شکار تھے۔ دہشت گردی اور طالبان ایشو کو سلجھانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ حکومت جانے والی ہے اور اب دھڑادھڑ آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں۔ پہلے اے این پی کی بے نتیجہ اے پی سی ہوئی اور اب 28 فروری کو جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ بتیس سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ، قبائلی علاقوں کے نمائندگان اور دینی اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ پانچ نکاتی اعلامیہ بھی منظرعام پر آیا ہے۔ قوم کا درد رکھنے والے ان سیاستدانوں کو پہلے اس جلتے ہوئے ایشوز پر اکٹھا ہونے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہ توجیہہ اپنی جگہ صحیح کہ طالبان کی طرف سے امن مذاکرات کی پیشکش ہی اب ہوئی ہے اور یہ کُل جماعتی کانفرنسیں اس کا مثبت ردِّعمل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے جن شخصیات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ پاکستان کی سیاست کے اہم نام ہیں۔ اگر میاں نوازشریف، منور حسن، مولانا فضل الرحمن کو طالبان کا اعتماد حاصل تھا تو وہ اپنے طور پر بھی ایسی کوشش کر سکتے تھے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے تاکہ دہشت گردی کی جو خونی لہر کئی قیمتی جانوں کو نگلتی جا رہی ہے اس کو روکا جا سکتا مگر افسوس کہ یہ قومی ذمہ داری کسی نے محسوس نہیں کی۔ حکومت کی تو خیر بات ہی چھوڑ دیں‘ اس کی ترجیحات میں تو شاید یہ ایجنڈا موجود ہی نہیں۔ الیکشن کے قریب تمام سیاسی جماعتیں بجا طور پر دہشت گردی کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہیں اور خواہش رکھتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔ خوف اور دہشت کی فضا میں کمی ہو۔ یوں بھی الیکشن مہم کے سلسلے میں عوامی نمائندوں کو عوام کے پاس جانا ہوتا ہے، کارنر میٹنگز، جلسے جلوس۔ یہ سب ہمارے ہاں الیکشن مہم کا خاص حصہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ امن و امان کا ماحول ہو۔ وگرنہ ملک میں دہشت گردی کی صورت حال دیکھ کر تو کچھ لوگ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار (خدانخواستہ) خونی الیکشن ہوں گے۔ آج ہی پیر صاحب پگارا کا بیان بھی اسی حوالے سے ہے کہ ملک میں انتخابات کے دوران خون ریزی ہو سکتی ہے۔ ان پیش گوئیوں اور بیانات کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے اور حکومت اور حکومت سے باہر جتنے بھی سٹیک ہولڈرز ہیں‘ انہیں چاہیے کہ امن قائم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ جہاں مذاکرات سے امن ہو‘ وہاں مذاکرات کریں اور جہاں طاقت اور آپریشنز کی ضرورت ہو وہاں سرجری سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ وطن کے چہرے کو لہو لہو کرنے والے ان دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی کرنا ہر طرح سے ضروری ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق خدا کرے کہ امن کے لیے ہونے والی تازہ ترین کوشش بار آور ثابت ہو اور ملک میں امن کے نئے دور کا آغاز ہو۔ بات مارچ کے مہینے سے شروع ہوئی تھی جو نئی شروعات کا مہینہ ہے‘ جو بہار کا مہینہ ہے۔ اردگرد دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ خشک تنوں سے بھی ہریالی پھوٹ رہی ہے، قدرت بھی انسانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ وقت ضرور بدلتا ہے۔ مارچ ہی کا مہینہ تھا جب ناصر کاظمی، اس دنیا کو خوبصورت اشعار کی دولت دے کر ملک عدم روانہ ہوا۔ آیئے اس بے بدل رومانوی شاعر کے خوبصورت اشعار پر اختتام کرتے ہیں۔ دل میں اِک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی…! شور برپا ہے خانۂ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں