"SQC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پنجاب پولیس

یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایک کردار ایسا ہے جس کے ان گنت چہرے ہیں۔ دہشت گردی بھی ایک ایسا ہی عفریت ہے‘ جس کے نہ صرف بے شمار چہرے ہیں بلکہ متعدد زاویے اور کئی پہلو بھی ہیں۔ جس طرح خودکش دھماکے اس عفریت کا ایک رُخ ہے اسی طرح آپریشن ضرب عضب بھی اس سے نمٹنے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کئی طریقوں میں سے ایک مؤثر اور ناگزیر طریقہ ہے۔ سلام ہے افواجِ پاک پر کہ قربانیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن جس طرح دہشت گردی کئی گھنائونی شکلوں میں ہمارے سامنے آ رہی ہے‘ اسی طرح اس سے برسرپیکار ہونے کے لیے پورے سماج کی نئے سرے سے ذہنی تربیت بھی ضروری ہے۔ کیا صرف اداروں‘ ہسپتالوں‘ مسجدوں‘ چرچوں‘ سکولوں‘ کالجوں کی سکیورٹی بڑھا دینے سے ان دہشت گردوں کا مقابلہ ممکن ہے‘ جو بڑی منظم فورس ہیں‘ جدید ہتھیاروں سے لیس۔ وہ صرف اسلحے اور خودکش جیکٹوں کے ساتھ ہی‘ ہمارے سماج پر حملے نہیں کر رہے بلکہ ذہنوں میں نقب لگا کر ذہنیت کو بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ 15 مارچ کو یوحنا آباد میں کرائسٹ اور سینٹ جونز کیتھولک چرچ پر خودکش حملہ ہوا۔ عبادت میں مصروف کئی افراد ہلاک ہو گئے۔ ایسے خودکش حملے اس سے پہلے ہماری مساجد‘ امام بارگاہوں‘ محرم کے جلوسوں اور سکولوں پر ہوئے۔ پھر 16 دسمبر کا
انتہائی رنج دہ سانحہ ہوا۔ ان واقعات پر بے پناہ دکھ اور رنج و ملال محسوس کیا گیا لیکن کوئی بھی مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہیں ہوا۔ مگر چرچوں پر حملے کے بعد بپھرے مظاہرین نے جو کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ چرچ پر ہونے والا حملہ قابلِ مذمت ہے مگر جو دہشت گردی دو بے گناہوں نعیم اور نعمان کے ساتھ یوحنا آباد میں ہوئی وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے معصوم لوگ مار دیئے مگر جو کچھ ان معصوم پاکستانیوں نے اپنے دو پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کیا‘ وہ بدترین دہشت گردی ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر ہے جہاں لاقانونیت عروج پر ہے۔ عدم انصاف اور عدم مساوات نے لوگوں کی ذہنیت انتقامی بنا دی ہے۔ وہ جوشِ انتقام میں ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ خدا کی پناہ! اس سارے بہیمانہ تشدد کی ویڈیوز بغیر کسی سنسر کے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ٹی وی چینلز نے تو سنسر پالیسی کے باعث یہ فوٹیج نہ دکھائیں مگر جو کچھ سوشل میڈیا پر موجود ہے‘ وہ پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ سوچئے کہ پاکستان کا کیسا چہرہ دنیا کو دکھایا جا رہا ہے؟
پولیس کے سامنے دو معصوم نوجوانوں کا زندہ جلایا جانا ریاست کی ناکامی کا مظہر ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو جائیں اور سماجی انصاف کا نظام بکھر چکا ہو تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ واقعہ یہ بتاتا ہے کہ جب چرچوں پر خودکش دھماکے ہوئے تو اردگرد کے لوگوں میں بھی ہیجان اور خوف کی فضا پیدا ہو گئی اور انہوں نے محفوظ مقام کی طرف بھاگنا شروع کردیا۔ یقینا ہر ایسے سانحے کے فوری بعد ایسا ہی ردعمل سامنے آتا ہے۔ پولیس نے وقوعے کی جگہ سے مبینہ دو مشتبہ افراد نعیم اور نعمان کو پکڑا۔ دونوں محنت مزدوری کرتے تھے اور ان کا دہشت گردی سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں تھا۔ بس شبہ میں دھر لیے گئے۔ پھر بپھرے ہوئے ہجوم نے انہیں پولیس سے چھین لیا اور وہ معمولی مزاحمت بھی نہ کر سکی۔ بعدازاں ان معصوموں کے ساتھ سڑکوں پر درندگی ہوتی رہی مگر پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس نے مشتبہ افراد پکڑے تھے تو پھر انہیں مظاہرین کے حوالے کیوں کیا؟ کیا پنجاب پولیس ناکوں پر شریف شہریوں کو تنگ کرنے کی ہی اہلیت رکھتی ہے؟ ان دو شہریوں کی جان کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری تھی‘ جس میں وہ ناکام رہی۔ ایسی پولیس کا احتساب ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پولیس کی تربیت کن خطوط پر ہوتی ہے کہ وہ اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ ہجوم کو کنٹرول کر سکے۔ یہ فوٹیج بھی پوری دنیا نے دیکھیں کہ نوجوان لڑکے کس طرح سے میٹرو بس کے سٹیشن پر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں جبکہ قریب ہی پولیس کی ایک بھاری نفری خاموشی سے انہیں یہ سب کرتا دیکھ رہی ہے۔ پنجاب پولیس کی ناکامی ہی تھی کہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو بلانا پڑا۔ اس کے بعد جب حالات کنٹرول میں ہوئے تو پولیس کا فلیگ مارچ ایک ایسے مکے کی یاد دلا گیا جو جنگ کے بعد یاد آئے۔ یعنی مظاہرین کے ہاتھوں ناک آئوٹ ہونے کے بعد شو آف پاور کا مظاہرہ!
پاکستان کئی برسوں سے خودکش حملوں کی زد میں ہے مگر جب بھی کوئی چرچ اس کا نشانہ بنتا ہے تو اس سانحے کو عیسائی مسلم فسادات کی شکل دینے کے لیے بھی کچھ خفیہ قوتیں سرگرم ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا کہ دہشت گردی کے عفریت کے کئی چہرے ہیں‘ جنہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ 15 مارچ کو یوحنا آباد میں چرچوں پر حملہ دہشت گردی کا ایک چہرہ ہے تو اس کے بعد بے قابو‘ بپھرے ہوئے مظاہرین کا توڑ پھوڑ‘ جلائو گھیرائو کرنا‘ پھر بے گناہ انسانوں کو سڑکوں پر بدترین تشدد کا نشانہ بنانا اور پھر ان کے جسموں کو آگ لگا دینا دہشت گردی کا دوسرا گھنائونا چہرہ ہے۔
اس کئی چہرہ عفریت سے نمٹنے کے لیے ہمیں جس مہارت‘ تیاری اور تربیت کی ضرورت ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن ہم اس میں کتنے کامیاب ہیں‘ پنجاب پولیس کی اعلیٰ کارکردگی دیکھ کر اس کا بھی اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بے گناہ نعیم اور نعمان کے بہیمانہ قتل کا مقدمہ مظاہرین کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس کے ان ''بہادر‘‘ سپاہیوں کے خلاف بھی درج ہونا چاہیے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان بے بس بے گناہ نوجوانوں کو بپھرے ہوئے ہجوم کے سپرد کیا اور خاموش تماشائی بنے رہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں