"SQC" (space) message & send to 7575

زنگ آلود آئینے!

حال ہی میں خبر آئی ہے کہ بیسویں صدی کا ممتاز ریاضی دان جان فاربزنیش (Jhon Nash) جو جان نیش کے نام سے مشہور ہے‘ چھیاسی برس کی عمر میں‘ اپنی اہلیہ کے ساتھ جاتے ہوئے‘ روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گیا۔
یہ امریکی ریاضی دان جو 1994ء میں اپنے غیر معمولی کام پر نوبل پرائز حاصل کر چکا تھا‘ کئی اور حوالوں سے بھی مشہور ہوا۔ جس میں ایک اہم حوالہ‘ اس ذہین اور قابل ریاضی دان کی زندگی میں آنے والا ایک ڈرامائی مرحلہ تھا جو کم و بیش 20 برس پر محیط رہا۔ اس عرصے میں جان نیش ذہنی مریض کے طور پر ملک کے مختلف ہسپتالوں سے اپنا علاج کرواتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی یادداشت بھی شدید متاثر ہوئی۔ نفسیات دانوں کا کہنا تھا کہ وہ شیزوفرینیا کا مریض ہے۔
باعث حیرت ہے کہ کہاں ایک جانب جان نیش ذہانت کے قطب مینار پر بیٹھا‘ ریاضی اور اکنامکس کی گتھیاں سلجھا رہا تھا اور کہاں اس پر پاگل پن کے شدید دورے پڑتے تھے۔ یہ تضاد‘ انسانی نفسیات میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا واقعی غیر معمولی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کے ساتھ ایک طرح کا پاگل پن وابستہ ہوتا ہے۔ اردو کے ممتاز لکھاری مستنصر حسین تارڑ کی ایک بات یاد آتی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ہر بڑا تخلیق کار‘ کسی حد تک پاگل ضرور ہوتا ہے۔ یہ ایک کیفیت بھی ہو سکتی ہے‘ جو اگر اس پر طاری نہ ہو تو شاید وہ کچھ تخلیق نہ کر سکے۔ دنیا کے کئی بڑے نام‘ بڑے تخلیق کار ایسے تھے جو اپنی زندگی کے کسی ایک مرحلے میں‘ ذہنی بیماری کا شکار ہوئے اور کچھ نام تو ایسے ہیں جو تمام عمر‘
ذہنی بیماری سے بھری بے چارگی کی کہانیاں ہیں۔ بس تاریخیں بدل جاتی ہیں‘ چہرے بدل جاتے ہیں۔ کاروبارِ سیاست وہی ہے‘ عوام کو اپنی جانب کھینچنے اور انہیں بہلانے کے نعرے مختلف ضرور مگر ان کے پیچھے اقتدار اور طاقت کی ہوس وہی پرانی ہے۔ کرسی کا لالچ‘ حکومت کی خواہش سب میں ایک جیسی ہے۔ جب بھی کوئی مارشل لاء حکومت آئی‘ ہمیشہ عوام نے اُسے خوش آمدید کہا‘ فوجی ڈکٹیٹر کو اپنے لیے نجات دہندہ سمجھا اور کسی حد تک مارشل لاء حکومتوں نے عوام کو ضروری ریلیف بھی دیا۔ لوگ آج بھی ایوب کی حکومت کو یاد کرتے ہیں۔ جب اشیائے ضروریہ غریب طبقے کی پہنچ سے باہر نہ تھیں۔ امن و امان بھی مثالی تھا۔ یہاں تک کہ لوگ زرداری عہد میں مشرف کی پالیسیوں کی تعریف کرتے بھی پائے گئے۔ لوگوں کا اصل مسئلہ جمہوریت نہیں ہے اُن کا مسئلہ اُن کے مسائل کا حل ہے‘ جسے مجموعی طور پر ہر نظامِ حکومت میں نظر انداز کیا گیا۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لا دوا نہ تھے!
اس شعر سے یاد آیا کہ گزشتہ پچاس‘ ساٹھ سالوں کے اردو کالم نکال کر دیکھیں تو کالموں میں یہ شعر بارہا استعمال ہوا ملے گا۔ اسی طرح منیر نیازی کا ایک شعر ہے جو کم و بیش ہر کالم نگار اپنے کالموں میں بیسیوں بار استعمال کر چکا ہے۔
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
حالات و واقعات نہیں بدلے تو تحریر کیسے بدلتی۔ مگر پھر بھی کالم نگار‘ پرانے آئینے رکھ کر نئی آرائشیں کرنے کے مصداق‘ انداز بیاں بدل بدل کر پرانی باتوں میں نیا پن لانے کی کوشش کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ان تحریروں کا اس آسیب زدہ نظام پر کوئی اثر پڑتا ہے‘ جس کا ذکر منیر نیازی اپنے شعر میں کرتا ہے۔ یہ آسیب دراصل ہوسِ اقتدار ہے‘ جس نے جمہوری یا فوجی حکومتوں کے اہل اختیار کو سحر زدہ کیے رکھا‘ اقتدار کی چمک دمک‘ ان کے احساس کو چندھیا کر انہیں عوام کے اصل مسائل سے بیگانہ کرتی رہی اور تاحال یہ عمل جاری ہے۔ اس پر مستزاد‘ اصل اقتدار کے گرد دائرہ در دائرہ خوشامدیوں کے ٹولے‘ جو گائوں کے چودھری کے میراثیوں کی طرح ہر بات پر واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ عوام کے مسائل سے پہلو تہی صرف حکومتوں نے ہی نہیں کی بلکہ اپوزیشن بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنانے کا دونوں کا طریقہ واردات ایک ہی ہے۔ جب یہ سیاسی اشرافیہ اپوزیشن میں ہوتی ہے تو عوامی مسائل یعنی لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی‘ لا اینڈ آرڈر پر سخت بیانات دیئے جاتے ہیں۔ احتجاجی ریلیاں بھی حکومت کے خلاف نکالی جاتی ہیں۔ جلسے‘ جلوس اور دھرنے سب ڈرامے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی اگلے اقتدار کی باری ان کے ہاتھ آتی ہے‘ یہی چہرے جو اپوزیشن کی سیاست کرتے ہوئے‘ عوام کے دکھ میں گھل رہے ہوتے ہیں‘ یکا یک اپنا بھیس بدل لیتے ہیں اور اقتدار کی چراگاہ سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ پھر کون سے عوام اور کہاں کے مسائل!
سانحہ ماڈل ٹائون پر عمران خان صوبائی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اگر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا یہی لب و لہجہ اور رویہ اس صوبے میں مختلف دکھائی دیتا ہے جس میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر انتخابات کے روز ہونے والی بدامنی‘ مارا ماری پر وہ اپنے وزیراعلیٰ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے اور اُن سے استعفیٰ دینے کا لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے!
تحریک انصاف اور عمران خان بھی کاروبار سیاست کے وہی گُر سیکھ چکے ہیں جو یہاں کے سیاسی مداری برسوں سے آزما رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی صورت میں جو سیاسی منظرنامے پر تبدیلی کا غلغلہ اٹھا تھا‘ وہ بری طرح گہنا چکا ہے۔ سیاست کے شہر میں جو نئے پن کا احساس جاگا تھا وہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ سیاست کے آزمائے ہوئے گھسے پٹے مہروں کے ساتھ تحریک انصاف‘ سیاست میں کوئی نیا ذائقہ نئے طور طریقے‘ متعارف کروانے میں ابھی تک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ سیاست کے وہی پرانے باب آج بھی دہرائے جا رہے ہیں۔
جون ایلیا نے کہا تھا کہ ؎
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
یہ سانحہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
بات کالم نگاری سے شروع ہوئی تھی۔ ڈرامے کے کردار صرف چہرے بدل بدل کر ایک ہی ایکٹ بار بار دہرا رہے ہیں۔ ایسے میں تحریریں بھی یکسانیت کا شکار ہونے لگتی ہیں... اور کبھی کبھی الفاظ بھی کھو جاتے ہیں۔ پرانے آئینے رکھ کر نئی آرائشیں کرنے کا عمل کبھی اس لیے بھی بوجھل لگتا ہے کہ آئینے زنگ آلود ہو چکے ہیں اور شبیہ دکھائی نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں