"SQC" (space) message & send to 7575

انسانی جان محترم ہے!

روایت یہی ہے کہ جب عازمین حج‘ روانہ ہوتے ہیں تو انہیں رخصت کرنے والے ان سے درخواست کرتے ہیں کہ مقدس ترین مقامات پر حج کے روح پر ور مناسک کی ادائیگی کرتے وقت انہیں بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔مگر اس بار پے درپے دو ایسے سانحے ہوئے کہ انہیں رخصت کرنے والے یہاں بیٹھے ان کی زندگی و سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ حجاج کرام کی واپسی جاری ہے۔ سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین صبر کر چکے ہیں جبکہ ابھی تک ساٹھ کے قریب حاجی لاپتہ ہیں۔ ان کے لواحقین پر قیامت گزررہی ہے۔ ان کی عیدالاضحی کی خوشیاں بھی اسی کرب اور تکلیف کی نذر ہو گئیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اب کی بار بقر عید پر سانحہ منیٰ کی وجہ سے عالم اسلام پر اداسی اور دکھ کی کیفیت چھائی رہی۔
سانحہ منیٰ اپنی سنگینی کے اعتبار سے گزشتہ 25برسوں میں ہونے والا بہت بڑا حادثہ ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی حج کے موقع پر بھگدڑ مچ جانے سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں۔ 2004ء میں منیٰ کے مقام پر ہی بھگدڑ مچنے سے 244حاجی شہید ہو ئے جبکہ زخمیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔2001ء میں بھی منیٰ کے مقام پر اسی نوعیت کا حادثہ ہوا 35حاجی شہید ہوئے۔1994, 1997, 1998ء میں منیٰ ہی کے مقام پر حج کے دوران حادثات میںکئی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ 1990ء میں ہونے والا بھگدڑ کا واقعہ بدترین تھا جس میں ڈیڑھ ہزار حاجی شہید ہوئے جبکہ 24ستمبر 2015ء کو ہونے والے حادثے میں سرکاری اطلاع کے مطابق 769حاجی شہید ، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ لاپتہ افراد کے بارے میں حتمی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔
دنیا کے 180ملکوں سے اس برس20لاکھ مسلمان حج کا فریضہ ادا کرنے سعودی عرب پہنچے۔ بلا شبہ سعودی انتظامیہ ضیوف الرحمن (حجاج کرام)کے لیے بہترین انتظامات کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان میں کمی، خامی‘ اور کوتاہی کا امکان رہتا ہے۔ مکہ مکرمہ مقدس ترین شہر ہے‘ حج ایک مقدس ترین عبادت ہے۔ مگر انسانی جان بھی مکرم اور مقدس ہے‘ قیمتی ہے‘ اللہ کی امانت ہے۔ اگر ایک حادثے میں سینکڑوں انسان اس طرح سے بھگدڑ میں کچلے چلے جائیں تو پھر اس کی لازماً تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔ایسے سانحوں کو صرف اللہ کی مرضی کہہ کر نظر انداز کر دینا اللہ ہی کے حکم سے روگردانی ہو گی جو
انسانی جان کو محترم قرار دیتا ہے۔ حادثہ کہیں پہ بھی ہو‘ اس کے متاثرین اس کی وجوہ جاننا چاہتے ہیں۔ اسی طرح سانحہ منیٰ کے متاثرین بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آخر اتنا بڑا سانحہ کیسے ہو گیا۔؟ پچھلے کچھ سالوں سے منیٰ میں ہی بھگدڑ مچ جانے سے انسانی جانوں کی ہلاکتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ان حادثات کو روکنے کے لیے انتظامات اور اقدامات بھی یقیناً ہر سال بہترکیے جاتے رہے پھر اس برس اتنا بڑا سانحہ کیسے ہو گیا۔؟ اس حوالے سے کچھ متضاد خبریں بھی عالمی میڈیا دے رہا ہے۔سعودی حکومت کی طرف سے آئی خبر کے مطابق منی سے جمرات کی طرف جاتے ہوئے‘ دو راستوں گلی نمبر204اور گلی نمبر223کوبند کر دیا گیا۔ دو مخالف سمتوں سے آتا ہوا انسانوں کا سیلاب اس مقام پر ایک دوسرے سے ٹکرا گیا اور سینکڑوں حاجی ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے‘ بدترین بھگدڑ مچنے سے ایک قیامت کا سماں تھا۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ چونکہ یہ راستے بند تھے لہٰذا سعودی سکیورٹی اہلکاروں نے حاجیوں کے ہجوم کو واپس مُڑ جانے کے لیے کہا‘لیکن تیزی سے آگے بڑھتے انسانی ہجوم کو اچانک واپس موڑنا ممکن نہیں ہو تا؛ چنانچہ بھگدڑ مچ گئی۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں سعودی عرب کی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی نے اس بھگدڑ کی ذمہ داری افریقی حاجیوں کے ایک گروہ پر عائد کی ہے جبکہ سعودی وزیر صحت اور حج مشن کے سربراہ خالد الفلاح نے کہا ہے کہ یہ سانحہ اس لیے پیش آیا کہ حاجیوں کو جو سعودی انتظامیہ کی طرف سے ٹائم ٹیبل دیئے جاتے ہیں وہ ان کو پڑھے اور سمجھے بغیر فرائض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔سعودی میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے اتنے بڑے انسانی المیے کی رپورٹنگ مفصل نہیں ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ حادثے کے متاثرین کے حوالے سے خبروں میں بہت تضاد ہے۔ پاکستان کا میڈیا سرکاری طور پر بتا رہا ہے کہ شہید ہونے والے پاکستانی حاجیوں کی تعداد 46 ہے جبکہ گارڈین نے اپنی خبر میں پانچ چھ روز پہلے یہ تعداد 236بتائی۔ اس حوالے سے حاجیوں کے لواحقین کو مطمئن کرنا اور صحیح خبر ان تک پہنچانا پاکستانی حکومت کا فرض ہے۔ حادثے کے 5روز بعد حکومت کو ہوش آیا اور اس سانحے پر سرکاری طور پر ڈاکٹر طارق کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے نقصان کی تلافی کے حوالے سے بھی اعلانات کئے گئے مگر اصل تلافی تو یہ ہے کہ اس حادثے پر کسی بھی اثر سے بالا تر ہو کر اصل حقائق سامنے لانے چاہئیں۔
اسی طرح تمام ممالک کو چاہیے کہ عازمین حج کی تربیت کا اہتمام پہلے سے زیادہ کریں۔ جیسا کہ سعودی حکومت کے ایک اہم رکن نے کہاہے کہ حاجی سعودی انتظامیہ کی طرف سے دیئے گئے ٹائم ٹیبل کو پڑھتے اور سمجھتے نہیں۔ عازمین حج کی تربیت میں ان تمام باتوں کو شامل کرنا چاہیے تاکہ حاجی سعودی حکومت کے انتظامات اور پروگرام پر آسانی سے عمل پیرا ہو سکیں اور ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ حج فرض عبادت ہے۔ تمام مسلمان ملکوں کو سعودی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر تفصیلی غورو فکر کرنا چاہیے کہ ایسے کیا اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ ایسے سانحے نہ ہوں۔ انسانی جان محترم ہے اور یہی پیغام سرکار دو عالم آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیؐ نے اسی سرزمین پر اسی مقام پر خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر تمام انسانوں کو دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں