"SQC" (space) message & send to 7575

یہ جیون رائیگاں نہیں جانا چاہیے

ایدھی صاحب علیل ہیں۔ اس دھرتی کا ایک شاندار انسان‘ جس پر ہر پاکستانی فخر کر سکتا ہے۔ لاکھوں دھتکارے ہوئے لوگوں کو پناہ دینے والا۔ اپنے سینے سے لگانے والا! عبدالستار ایدھی صاحب نے بیرون ملک علاج کی ہرپیش کش ٹھکرا دی۔ اس شخص نے اپنی سب سے قیمتی متاع۔۔۔ زندگی کو غریب اور دکھی انسانوں پر وار دیا۔ وہ کیسے گوارا کرسکتے ہیںکہ وطن عزیز کے بے کسوں کو چھوڑ کر اپنے علاج کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے مہنگے ہسپتالوں میں چلے جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ رب کریم ہمارے ایدھی صاحب کو بے انتہا آسانیاں عطا کرے۔ وہ سلامت رہیں۔ یہ چند سطریں ہماری طرف سے اُس عظیم انسان کی بیماری کی عیادت ہیں‘ جو خدمت خلق کا ایک روشن استعارہ ہے۔ 
اپنی ذات کو دوسرے ضرورت مند انسانوں کے لیے فنا کر دینے کا نام ایدھی ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر ہم میں سے ہر صاحب حیثیت ایک فیصد ایدھی جیسا ہو جائے تو اس معاشرے کی شکل کیسی ہو جائے گی! صاحب حیثیت سے میری مراد صرف دولت مند ہونا نہیں بلکہ کسی بھی شعبے میں آپ صاحب حیثیت ہو سکتے ہیں۔۔۔۔کوئی مفید کام کرنے کا ہنر یا علم۔ اگر آپ پڑھا سکتے 
ہیں تو اس حوالے سے آپ صاحبِ حیثیت ہوئے۔ ایک فیصد ایدھی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کم ازکم ایک فیصد وقت ضرور اپنے لوگوں اور معاشرے کو اس علم میں سے حصہ دینے پر صرف کریں۔اس کے علاوہ بھی جو کچھ آپ کے پاس ہے اس کا ایک فیصد ضرور معاشرے کو دینے کی کوشش کریں۔ یہی معاشرے کا حسن ہے۔ ایدھی تو بلاشبہ ایک ہی ہے مگر ہمارے معاشرہ اہل درد اور اہل دِل سے خالی نہیں۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے حصے کی شمع جلائے جا رہے ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے کرپشن ‘بددیانتی اور مفاد پرستی کے اندھیروں میں روشنی دکھائی دیتی ہے۔ یہی لوگ زمین کا بوجھ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ بقول ناصر کاظمی ؎
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
فرح ہاشمی اور عدیل نیاز شیخ بھی ایسے ہی خوب صورت لوگوں میں شامل ہیں جو مفاد پرستی کے اندھیروں میں خدمت خلق کی شمع جلا رہے ہیں۔ صحافت سے وابستہ ہونے کے باوجود صرف مسائل پر لکھتے اور کڑھتے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ان کے حل کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔ ان کی کوشش سے زندگیاں بدل رہی ہیں۔ 16،17برس قبل 'رہائی‘ کے نام سے انہوں نے جیل میں سکول قائم کیا۔ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیل آنے والے نوعمر قیدیوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں ہنر سکھانے کے لیے انتظامات کیے۔ رہائی ایجوکیشنل اینڈ ووکیشنل سکول کس طرح معاشرے کے 
بھٹکے ہوئے نو عمر قیدیوں کی زندگیاں بدل رہا ہے‘ اس کا اندازہ ہمیں چند روز پہلے ہوا جب ایک تقریب میں پڑھے لکھے سمارٹ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ محمد شہزاد اکبر اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ منو 
بھائی‘ سلمیٰ اعوان‘ نیلم احمد بشیر جیسے لکھاری ہمہ تن گوش اس کی کہانی سن رہے تھے۔ وہ بتا رہا تھا کہ میں 2002ء میں 302 کے کیس میں کیمپ جیل آیا۔ اگر میری زندگی میں رہائی سکول نہ آتا‘ اگر فرح باجی اور عدیل بھائی نہ آتے تو شاید میں جیل سے ایک پکا مجرم بن کر نکلتا۔ مگر میرے لیے جیل کی یہ قید زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ میں نے رہائی سکول میں پڑھنا شروع کیا۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کئے اور 5 سال کی قید کے بعد کالج سے ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کا ڈپلومہ کیا اور آج ایک اعلیٰ انجینئرنگ فرم میں بحیثیت ایسوسی ایٹ انجینئر کام کر رہا ہوں۔ اگر جیل کی سلاخوں کے پیچھے مجھے رہائی کی تازہ ہوا میسر نہ آتی‘ مجھے کتاب، قلم اورسکول نہ ملتا تو شاید آج میں پھر کسی بڑے جرم میں سزا کاٹ رہا ہوتا یا معاشرے کا ایک ناکارہ فرد ہوتا۔ شہزاد اکبر کی طرح کی بیسیوں کہانیاں ہیں کہ کچی عمر میں کردہ یا ناکردہ گناہ کی پاداش میں جیل کے بھیانک ماحول میں آنے والے 
لڑکوں نے رہائی سکول کی بدولت اپنے گھروں سے بہتر ماحول پایا۔ ان کی ذہن سازی ہوئی۔ جس کا پڑھائی میں جی نہیں لگا اسے ٹیلرنگ سکھائی گئی۔ یوں جب اپنی قید کاٹ کر یہ لڑکے باہر نکلے تو ان میں اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے کا عزم تھا اور انہوں نے نئے ولولے کے ساتھ جینا شروع کر دیا۔
اس وقت ملک کی جیلوں میں سینکڑوں نوعمر قیدی موجود ہیں۔ جیو نائل جسٹس سسٹم کے بین الاقوامی قوانین کے تحت جو ماحول نوعمر قیدیوں کو ملنا چاہیے‘ ہماری حکومت انہیں ویسا ماحول فراہم نہیں کرتی۔ ایسے میں رہائی جیسے ادارے جو مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہے ہیں‘ روشنی کی کرن کے مترادف ہیں۔ لاہور کیمپ جیل کے علاوہ قصور اور شیخو پورہ جیل میں رہائی سکول قائم ہیں جو زندگی کے کھردرے پن کے شکارکچے ذہنوں کو پھر سے جینا سکھا رہے ہیں‘ اس عزم اور امید کے ساتھ کہ زندگی تو ایک بار ہی میسر آتی ہے اور جیون خوشحال لوگوں کا ہو یا زندگی کے دھتکارے ہوئے مسائل زدہ افراد کا‘اس کو رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ اہل خیر کو چاہیے کہ وہ رہائی جیسے ادارے کا ساتھ دیں تاکہ اس کا دائرہ مزید وسیع کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں