موسیقار ماسٹر عبداللہ‘ کمال کے بذلہ سنج تھے۔ یوں سمجھیے صرف ایک بات کرکے پورے کا پورا ’’کالم‘‘ لکھ دیا کرتے تھے۔ یہ میرے صحافتی کیرئیر کا آغاز اورماسٹر عبداللہ کی زندگی کے آخری سال تھے جب میں ماسٹر صاحب کو اپنی موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر ان کے دوستوں کے ہاں لے جایاکرتاتھا۔یہ نوے کی دہائی کا آغاز تھا میں ان دنوں ایک قومی روزنامے کے فلم ایڈیشن کا انچارج تھا۔ ماسٹر صاحب سے میری دوستی کی داستان بھی عجیب ہے جو آپ کو پھر کبھی سنائوں گا۔ آج آپ کے ساتھ ماسٹر صاحب کا ایک ایسا واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جوآج کے سیاسی حالات اور کرنٹ افیئر کا احاطہ بھی کرتاہے۔ ملکہ ترنم نورجہاں جب ادھیڑ عمر کی ہوگئیں تووہ صرف چند ایک مخصوص موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ یہ مخصوص موسیقار آسان اورایسی دھنیں بناتے تھے جنہیںگاتے ہوئے نورجہاں کو زیادہ محنت کرنا پڑتی اورنہ ان میں کسی قسم کی مشکل پسندی ہوتی تھی۔ایسا نہیں تھاکہ نورجہاں مشکل گانے نہیںگاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر میں مشکل ترین دھنیں گائی تھیں مگر دل کے دوعدد بائی پاس آپریشنز کرانے کے بعد وہ سیدھا سیدھا گانے لگی تھیں۔ ماسٹر عبداللہ کا شمار ایسے موسیقاروں میں ہوتاہے جنہوں نے منفرد اور پیچ دار دھنیں بنائیں اور انہیں قبول عام بھی ملا۔ کہتے ہیں کہ 1965ء میں دومعرکے ہی دیکھنے کو ملے تھے۔ ایک پاک بھارت جنگ اوردوسرا ماسٹر عبداللہ کا یہ گیت ’’شکر دوپہرے پپلی دے تھلے میں چھنکائیاں ونگاں‘‘۔ ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کا گایایہ دوگانا ’’چل چلیے دنیا دی اوس نکرے جتھے بندہ نا بندے دی ذات ہووے‘‘ انہی کی کاوش ہیں۔ ماسٹر صاحب اپنی بنائی دھن اور کمپوزیشن کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیںکرتے تھے۔ان کی یہی بات ملکہ ترنم نورجہاں کو ناگوار گزرتی تھی جس کے باعث وہ ان کے ساتھ کام نہیںکررہی تھیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان راہی فلم انڈسٹری پرچھائے ہوئے تھے اوران کے سٹائل کی فلم میں ہیرو بالکل نہیںگاتاتھا۔اس صورت حال میں فلم کے سات گانے ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کرانے کا رواج فروغ پاگیا۔اس عرصہ میں فلم ٹریڈ میں 80سے 90فلمیں بن رہی تھیںمگر ان میں ایک فلم بھی ماسٹر عبداللہ کے حصے میں نہیںآتی تھی ۔ماسٹر صاحب کی اس وقت تک کی آخری فلم ’’قسمت ‘‘ کامیوزک سپرہٹ ہواتھامگر اس کے باوجود کوئی فلمساز انہیںفلم نہیںدے رہاتھاجس کے باعث وہ شدید مالی مسائل کا شکار ہوگئے۔ اس کے برعکس موسیقار ایم اشرف، وجاہت عطرے اور طافو دھڑا دھڑ میوزک بنارہے تھے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ماسٹر عبداللہ شاہ نور سٹوڈیو آئے تو پروجیکشن ہال سے انہیںمیوزک ٹریک(سازینے) کی آواز سنائی دی۔ماسٹر صاحب کو محسوس ہوا کہ کوئی موسیقار ہوبہو ان کی کمپوزیشن کی نقالی کررہاہے۔وہ کچھ دیر پروجیکشن ہال کی دیوار کے ساتھ کان لگا کر میوزک ٹریک سنتے رہے۔جب انہیںیقین ہوگیاکہ یہ انہی کی دھن کو اپنا’’مینڈیٹ‘‘ دیا جارہا ہے تو وہ یک لخت پروجیکشن ہال کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوگئے۔یہ ملک کے مقبول طبلہ نواز اورموسیقار طافو تھے۔طافو نے ماسٹر عبداللہ کو دیکھا تو قدرے کھسیانے ہوگئے۔چونکہ ماسٹر عبداللہ اچانک اندر آگئے تھے‘ اس لیے سازندوں کے ہاتھ ابھی ان کے سازوں پرہی تھے ۔سازندوں نے اپنا اپناساز بند کردیاتھامگر ماحول میںماسٹر عبداللہ کی دھن کی آنس ابھی باقی تھی۔ایسے میں ماسٹر عبداللہ اورطافو کے مابین پنجابی میں جو مکالمہ ہوا‘ اسے قومی زبان میںڈب کرکے پیش کررہاہوں: ماسٹرعبداللہ :طافو میاں یہ آپ نے میری دُھن چرالی۔ طافو:ماسٹر صاحب کیا کریں ؟روٹی بھی تو کمانی ہے بچوں کے لیے۔ ماسٹر عبداللہ :آپ کو اپنے بچے بڑے عزیز ہیں،جن کے لیے آپ نے روٹی کمانی ہے… تومیرے بچے کیابلی کے بچے ہیں؟ غور کریں تو ہمارے ہاں حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ عوام کو بلی کے بچے ہی سمجھتے ہیں۔ گزشتہ حکومت‘ بے نظیر انکم سپورٹ کی صورت میں غریب عوام کو ہزار ہزار روپیہ دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات بلکہ فلائنگ کک مار رہی تھی۔موجودہ حکومت نے آتے ہی اسے بند کرنے کا ’’نیک کام‘‘ سرانجام دیا ہے۔حکومت کا کہناہے کہ وہ گداگر اوربھکاری پیدا کرنے کی بجائے لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کریںگے۔حکومت بھکاری پیدا نہیں کرنا چاہتی مگر خود اس نے آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ہماری حکومت ٗ آئی ایم ایف سے قرضہ لے گی یا اس سے بڑے لڑکے کی سگائی کرے گی؟یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔کچھ دنوں سے نون لیگ حکومت کے بڑے چھوٹے تمام وزراء سقراط سے آگے کا سچ بول رہے ہیں۔خواجہ سعد رفیق اگرچہ ریلوے کے وزیر ہیںمگر وہ عندیہ دے رہے ہیںکہ لوڈشیڈنگ3سال تک ختم کریں گے۔ تین سال تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی منصوبہ بندی تو پیپلز پارٹی کی ’’کرم جلی‘‘ حکومت نے کی تھی جس میں تین سے پانچ سال میں 24ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے بڑے چھوٹے ڈیم بنادئیے گئے ہیں۔احسن اقبال نے پیپلز پارٹی کو سندھ سے مینڈیٹ لینے والی علاقائی جماعت کا طعنہ دیاہے۔احسن صاحب بڑے وسیع النظر سیاستدان ہیں۔ میرا خیال ہے وہ اپنے آبائی حلقے نارووال کوسوویت یونین سمجھ رہے ہیںاورنون لیگ کی حکومت کو نیٹو فورسز سے بھی بڑا کوئی ’’اتحاد ‘‘ جان رہے ہیں۔ہم سبھی جانتے ہیںکہ 70میں بھٹو صاحب نے پنجاب کو اسٹیبلشمنٹ کی قبر بنا دیا تھا۔ بعدازاں اسٹیبلشمنٹ کے لاشے سے ’’دی ممی‘‘ اور’’ممی ٹو‘‘ جیسی ڈرائونی فلمیں چلائی گئیں۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں آرڈر پر مال تیار کرنے کے فارمولوں کے تحت نئی لیڈر شپ تیار کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سے تِرشے ہوئے یہی پتھر کے صنم آج بت خانوں میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ کینیڈا سے برہان الدین خان اورنیویارک سے میرے بھائی عرفان میر صاحب نے 18جون کو روزنامہ ’’دنیا‘‘میں شائع ہونے والے میرے کالم’’ہیٹرک‘‘ کے حوالے سے ای میل کی ہیں۔ جس میں انہوں نے اس سوچ کو سراہاہے کہ پاکستان کو جنگ کی نہیںمعاشی خوشحالی کی ضرورت ہے۔عرفان میرصاحب نے لکھا ہے کہ پاکستان میں بجلی کا بحران مصنوعی طور پر پیدا کیاگیاہے جس کے مقاصد ہیں۔انہوںنے تجویز پیش کی ہے کہ تحقیقی اور تجزیاتی صحافت سے وابستہ صحافیوں کو غیر سنجیدہ اورریٹنگ سے مشروط ٹاک شوز برپا کرنے کی بجائے اس حقیقت کا کھوج لگاناچاہیے کہ لوڈشیڈنگ کے پیچھے اصل محرکات کیاہیں؟برہان خان نے کہاہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کو کنٹرول ضرور کرناچاہیے مگر اس سے قبل بھارت سے بات چیت کرکے اسے بھی قائل کرنا چاہیے کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ کم کرے۔ انہوں نے کہاکہ اگرچہ ہم پاکستانیوں پر دُہری شہریت کا پرچہ کاٹ کرکے ہمیں انتخابی عمل سے باہر رکھاگیاہے مگر ہم اپنے دلوں سے پاکستان کی محبت کو کم نہیں کرسکتے۔ عرفان میر نے تجویز پیش کی ہے کہ ہمیں اپنی معاشی حالت سدھارنے کے لیے دفاعی کے بجائے رفاہی ریاست بن کررہنا ہوگا ۔اس فارمولے پر گامزن رہتے ہوئے ہمیں بھارت سمیت امریکہ سے اپنے تعلقات مزید بہتر کرنا ہوں گے۔ عرفان میر صاحب ایک ’’ریٹائرڈ‘‘ انقلابی ہیں۔ ریٹائرڈ انقلابی میں انہیں اس لیے کہہ رہاہوں کہ اب وہ ایک عرصہ سے عملی طور پر انقلابی سیاست نہیںکررہے۔ انہیںیاد ہوگا حبیب جالب نے کہاتھاکہ ؎ ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکہ کا ڈیرا ہے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکہ اکیلاہی دنیا کا ڈان بن چکا ہے‘ لہٰذا اس سے تعلقات بہتر رکھنے میںہی بھلاہے۔گجرانوالہ سے ماسٹر نذیر صاحب کا ٹیلی فون آیا ہے کہ موجودہ حکومت نے صرف دس دنوں میں چکن کی قیمت 90روپے تک بڑھادی ہے۔صرف ایک کلوگرام چکن پر 90روپے کس کے بچے کی جیب میں جارہے ہیں؟ مہنگائی کے اس چکن سونامی نے عوام کو چکن سینڈوچ بنادیاہے۔ میں ماسٹر نذیر کو کیاجواب دوں؟ آج ماسٹر عبداللہ زندہ ہوتے تو وہ ماسٹر نذیر کو بتاتے کہ حکمران اپنے بچوںکو مغل شہزادے اور عوام کو صرف بلی کے بچے ہی سمجھتے ہیں۔