"TSC" (space) message & send to 7575

ہزار داستان

80ء کی دہائی کا آغاز تھا‘ جب میں اور میرا جگری دوست ایوب اختر المعروف ببو برال لاہور آیا کرتے تھے۔ میں ببو برال کے ہمراہ اپنے بڑے بھائیوں کی جوڑی‘ جس میں ڈاکٹر طیب سرور میر اور سہیل احمد شامل تھے‘ سے ملاقات کرنے کے ساتھ اپنے فنکارانہ شوق کی تسکین کے لئے اس شہر کی ’’یاترا‘‘ کیا کرتا تھا۔ طیب سرور ان دنوں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کر رہے تھے جبکہ سہیل احمد نے لاہور میں اپنی فنکارانہ جدوجہد کا ابھی آغاز کیا تھا۔ ببو برال گکھڑ منڈی سے گجرانوالہ پہنچا کرتا جہاں سے ہم دونوں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی لال گاڑی پر بیٹھ کر لاہور کے ریلوے سٹیشن کے پہلو میں واقع جی ٹی ایس کے اڈے پر اترا کرتے تھے۔ ببو برال یوں تو پیدائشی فنکار تھا مگر گجرانوالہ میں اس زمانے میں چونکہ ثقافتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اس لیے اس نے سوئی گیس پائپ فٹنگ کا کام سیکھ لیا تھا۔ ببو برال دن بھر پائپ فٹنگ کا کام کرتا اور شام کو مجھے اور ہمارے مشترکہ دوست محمد سلیم کھوکھر کو ملنے گکھڑ سے شہر آیا جایا کرتا۔ سہیل احمد صاحب ان دنوں دوہٹہ کالونی اچھرہ میں اپنے سینئر مستانہ کے ساتھ paying guest کے طور پر رہائش پذیر تھے۔ دوہٹہ کالونی اور لاہور میں دونوں گجرانوالیوں کے سرپرست فخرالدین راٹھور عرف فخری احمد ہوتے تھے۔ اداکار فخری احمد کو گجرانوالہ سے آئے ہوئے فنکاروں سمیت ان کے تمام جونیئرز ’’تایا جی‘‘ کہا کرتے تھے۔ فخری احمد سے قبل گجرانوالہ سے لاہور آنے والوں میں اداکار مسعود اختر، دلدار پرویز بھٹی، مستانہ، امان اللہ، اشرف راہی، عابد خان اور ڈانس ماسٹر اشرف شیرازی سمیت دیگر شامل تھے۔ موسیقار نذیر علی اور اسد بخاری کا تعلق بھی گجرانوالہ سے جڑے گکھڑ سے ہے۔ نیلو بیگم کا شہر بھی گجرانوالہ ہے‘ وہ پچاس کی دہائی میں لاہور آئی تھیں۔ یوں تو گجرانوالہ پہلوانوں کے شہرکے نام سے جانا جاتا ہے لیکن دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ اس شہر سے آنے والے فنکاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک پوری ’’گجرانوالہ رجمنٹ‘‘ بن جاتی ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ شہنشاہ ظرافت منور ظریف اور امان اللہ کا شہر تو لاہور تھا مگر کامیڈی کے یہ دونوں بادشاہ لاہور کے بجائے گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ہوا یوں کہ دونوں عظیم فنکاروں کی مائیں رواج کے مطابق گجرانوالہ اپنے میکے آئی تھیں کہ منور ظریف اور امان اللہ پیدا ہوئے۔ منور ظریف گجرانوالہ کے محلے بختے والہ میں پیدا ہوئے اور امان اللہ کی جنم بھومی چک رمداس ہے۔ گجرانوالہ میں پیدا ہونے والے فنکار لاہور کو اپنے فن کے لیے Coliseum (قدیم روم کا وہ سٹیڈیم جہاں پہلوان اور ببر شیر کا مقابلہ ہوا کرتا تھا) سمجھا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب پورے برصغیر میں ہی لاہور کو Coliseum سمجھا جاتا تھا۔ بڑے بڑے فنکار یہاں قسمت آزمائی کرنے آتے تھے۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان، ملکہ ترنم نور جہاں، استاد سلامت علی خان سے لاہور میں میری جو ملاقاتیں رہیں ان میں ان لیجنڈز کا کہنا تھا کہ لاہوریوں کو منانا بڑا مشکل کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے رہنے والے زندہ دل تو ہیں مگر کبھی کچے فنکار کو داد نہیں دیتے۔ بھارت کے بین الاقوامی شہرت یافتہ فلوٹ نواز پنڈت ہری پرشاد چورسیا 1997ء میں لاہور آئے تو میں نے ان سے لاہور شہر سے متعلق سوال کیا۔ پنڈت جی کا جواب تھاکہ لاہور میں فن کا مظاہرہ کرنا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میں سورگ میں آ گیا ہوں۔ قارئین! اب میں آپ کو اپنی زندگی کے فلیش بیک کی طرف لیے چلتا ہوں۔ ہوا یوں تھا کہ سہیل احمد کشتیاں اور لنگوٹ اکٹھے جلا کر پہلوانوں کے شہر گجرانوالہ سے فن کے Coliseum لاہور میں آ گئے تھے۔ سہیل احمد نے اپنے کیریئر کا آغاز گجرانوالہ میں ہونے والے ان سٹیج ڈراموں سے کیا‘ جن کی ریہرسلز تو پورا سال کی جاتی تھیں مگر بدقسمتی سے یہ ڈرامہ دو سے تین روز میں اپنے انجام کو پہنچ جایا کرتا تھا۔ قدامت پسندانہ رجحان اور پہلوانی سے زیادہ بدمعاشی کا شوق اختیار کیے اورکچھ بدنامِ زمانہ افراد اداکارائوں کو متاثر کرنے کے لیے بیک سٹیج اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ لاہور کے بازار حسن سے آئی ہوئیں قبول صورت رقاصائوں کو متاثر کرنے کے لیے اکٹھے ہونے والے شوقیہ اور پیشہ ور جملہ بدمعاشوں کی موجودگی سے سٹیج ڈرامہ ایک ’’سوئمبر‘‘ کی شکل اختیار کر جایا کرتا تھا۔ ہمارے گجرانوالہ کے سٹوڈنٹ لیڈر اور ذہین اداکار جاوید رحمت بٹ بھی ایسے ہی ایک ڈرامہ کے موقع پر بدمعاشی کا مظاہرہ کرنے والے کو سزا دیتے ہوئے قتل کر دئیے گئے تھے۔ جاوید رحمت بٹ ایک بہادر، نڈر اور ذہین فنکار تھے۔ وہ اداکار مسعود اختر اور فخری احمد کے جگری دوست تھے۔ جاوید رحمت بٹ کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کا یہ عالم تھا کہ مستانہ جیسے منفرد مزاحیہ اداکار مرحوم کو اپنا استاد مانتے تھے۔ جاوید رحمت بٹ پنجابی فلم ’’تیرا وی جواب نئیں‘‘ میں اپنے دور کی خوبرو ہیروئین نجمہ کے ساتھ ہیرو بھی آئے تھے۔ زندگی کے فلیش بیک پر نظر ڈالوں تو کچھ یادیں ایسی ہیں جنہیں یاد کرتے ہوئے دل تڑپ اٹھتا ہے۔ جاوید رحمت بٹ کی موت میرے لیے سانحہ سے کم نہ تھی۔ سہیل احمد گجرانوالہ کے ڈراموں کے آغاز کے بعد ’’دنیا نیوز‘‘ کے مقبول ترین پروگرام ’’حسب حال‘‘ تک کے سنگ میل تک کیسے پہنچے‘ یہ کہانی پھر بیان کروں گا۔ قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں اپنا ماضی اور ناسٹل جیا کیوں کرید رہا ہوں؟ مجیب الرحمان شامی صاحب ہمارے بزرگ اور سرپرست ہیں۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں اپنی یادیں لکھوں۔ شامی صاحب کا مشورہ میرے لیے آرڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ سو آج سے اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ میں اپنے ناسٹل جیا کو ’’فٹ پاتھ‘‘ کا حصہ بنایا کروں گا۔ یوسفی صاحب ’’آب گم‘‘ میں اپنے اور دیگر ماضی پرستوں کے لیے لکھتے ہیں کہ… جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پُرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں بالخصوص بھری جوانی میں ہو سکتاہے… مشتاق احمد یوسفی صاحب کا فرمایا یقیناً دونوں صورتوں میں ہی مستند ہے کہ ناسٹل جیا کا جوانی لیوا حملہ بھری جوانی اور بڑھاپے دونوں فیزز میں ہو سکتا ہے مگر بڑھاپے اور جوانی کے تناسب سے ہم تاحال ’’عالم برزخ‘‘ میں ہیں۔ اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہم جوانی کی دہلیز پر آخری چونگی ادا کرنے کے بعد بڑھاپے کی موٹر پر سوار ہونے کو ہیں۔ اس مقام پر بھی میں قارئین کو اپنی اصلی عمر بتانے سے قاصر ہوں مگر یہ بیان کر چکا ہوں کہ میں اپنے ناسٹل جیا کی تشہیر قبلہ شامی صاحب کے حکم پر کر رہا ہوں۔ اپنی زندگی کے لگ بھگ 30سال، میں نے شدید ترین ’’آوارہ گردی‘‘ کی۔ اس عرصہ میں کہیں میں منو بھائی اور نذیر ناجی صاحب کی دانشورانہ کمپنی میں بیٹھا ہوں اور کہیں ماسٹر عبداللہ میری مودبانہ طبیعت کے باعث مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر فنکارانہ سنگت کرتے رہے، کبھی پولیٹیکل اکانومی کے استاد ڈاکٹر لال خان، قاضی سعید اور کامریڈ پال کے ساتھ معیشت اور عالمی سیاست کے سنجیدہ موضوعات پر دھواں دار بحث کرتا رہا ہوں اور اکثر امان اللہ، طارق جاوید، مستانہ اور ببو برال کے ساتھ گھنٹوں جگتوں کے’’ورلڈ کپ‘‘ میں ایک کھلاڑی کے طو ر پر شریک رہا ہوں۔ اس عرصہ میں احمد راہی، منیر نیازی، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، فرحت عباس شاہ، زبیر رانا، یاور حیات، عباس اطہر (شاہ جی) اور پچھلی صدی کے تان سین استاد سلامت علی خاں کے ساتھ بھی صحبتیں ہوتی رہیں۔ 80ء کی دہائی کے آغاز میں، میں بھی اداکار بننا چاہتا تھا اور زمانہ طالب علمی میں، میں نے سہیل احمد، مستانہ اور ببو برال کے جونیئر کے طور پر جو ڈرامے کیے ان میں ’’چاچا چلم تے چاچی‘‘ ’’میرا پاکستان‘‘ اور دیگر ڈرامے شامل ہیں۔ ان دنوں میں ’’دنیا نیوز‘‘ کے نئے مزاحیہ و طنزیہ سیاسی پروگرام ’’مذاق رات‘‘ کے سکرپٹ ایڈیٹر اور ایگزیکٹو پروڈیوسر کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں لیکن اس سنگ میل تک پہنچنے سے پہلے کیا ہوتا رہا یہ ’’ہزار داستان‘‘ پھر کبھی بیان کروں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں