"TSC" (space) message & send to 7575

زیرومیٹر مصیبتیں ، ڈبہ بند مسائل

بالآخر آصف زرداری سابق صدر ہوگئے۔اس وقت زرداری صاحب کے پانچ سال پورے ہونے اورایوان صدر سے ان کی رخصتی کا منظر دیکھ رہاہوں۔ سیاسی جنتریاں اورقسمت کا حال بتانے والے اپنے اپنے آہنگ سے ان پانچ برسوں کا ذکر کررہے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ آصف زرداری پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدر ہیںجو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد باعزت طور پر رخصت ہورہے ہیںاور اس عہدے پر پھر ایک منتخب صدر آئے ہیں۔سیاسی تجزیات کے ذریعے سے توڑ پھوڑ کرنے والے کیری پیکروں کا کہناہے کہ اگرمحترمہ بے نظیر بھٹو جو پیپلز پارٹی کی اصل وارث تھیں ،زندہ رہتیں تو مسٹر زرداری کبھی پاکستانی سیاست میں داخل نہیںہوسکتے تھے۔اس کی توجیح وہ یہ کرتے ہیںکہ جب محترمہ تیسری مدت کے لئے سیاسی میدان میں اتررہی تھیں تو چاہتی تھیں کہ جب وہ اقتدار میں ہوں ،زرداری صاحب سیاست سے دوررہیں اوربچوں کی دیکھ بھال کریں ،لیکن محترمہ کے بعدآصف زرداری نہ صرف میدان میں آئے بلکہ سلالہ ،میموگیٹ اوراین آر او کی لٹکتی تلوار کے باوجود نہایت ہوشیاری سے اپنے مخالفین بشمول بعض سرکاری اداروں کے افسروں کے دائو پیچ کا مقابلہ کرکے اپنا بچائو کرتے رہے ۔ پاکستان میں سیاست کرنے کالائسنس جاری کرنے والوں سے 6ملین ڈالر کا سوال ہے۔ جناب والا!قبلہ آصف زرداری سیاست کرنے کے اہل کیوں نہیںہیں؟ کیا اس وقت قومی سیاست سے قائدا عظم ؒ ،لینن، کارل مارکس ،چو این لائی اورعلی برادران جیسے عظیم سیاست دان وابستہ ہیں؟شیخ رشید آف لال حویلی نے جانے والوں کی جگہ آنے والوں کے لئے ’’دہی بھلے ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ویسے بھی ہمارے ہاں سیاست کی مین سٹریم میں شامل سٹارز اورسپر سٹارز دہی بھلوں سے بڑھ کر مرغ چنے ،گوبھی گوشت ،نہاری ،ہریسہ اورسری پائے سے زیادہ حیثیت کے نہیںہیں۔اگر دہی بھلوں اورہریسے ،سری پائے فیم کو سیاست میں چھا جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو پھر ’’پاکستان کھپے ڈھابہ‘‘ کی سندھی بریانی پر اعتراض کیوں کیاجاتاہے؟’’تاریخ سازوں ‘‘ نے لکھا ہے کہ کالم نویسوں کا ایک دھڑا زرداری صاحب کی ملک کے سیاسی نظام اورجمہوریت کے لئے خدمات کی تعریف کررہاہے۔تاریخ سازوں نے باوجوہ اعتراف کیاہے کہ زرداری صاحب نے یہ سب صحیح چیزیں کیں لیکن انہوں نے یہ صحیح چیزیں غلط وجوہات کی بنا پر کیں کیونکہ انہوں نے کبھی ان پر یقین نہیںکیا۔وہ آئین میں ترمیم کرنے اورصدارتی اختیارات وزیراعظم کو دینے پررضامند ہوگئے لیکن جب وہ یہ کررہے تھے تو انہوں نے سوچاتھاکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح نیچے آئیں گے اورصدارت چھوڑ دیں گے۔لیکن وزیراعظم کو اپنے اختیارات دینے کے بعد وہ ایسا نہ کرسکے، تب انہوں نے وزیراعظم کو اس کے اختیارات استعمال کرنے نہ دیا۔تاریخ ساز یہ کہہ رہے ہیںکہ آصف زرداری نے چند نیک کام توکئے مگر ان کی نیت ٹھیک نہیںتھی۔نیتوں اوردلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتاہے ،اب تاریخ ساز یہ دعویٰ کررہے ہیںکہ ان کے پاس کوئی سپیشل ایکسرے، الٹرا سائونڈاورسی ٹی سکین مشین ہے جس سے وہ دلوں کے بھید جان لیتے ہیں تو پھر سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کے اس فرمان کو کس کھاتے میں درج کریں گے : ع دل دریا سمندروں ڈوہنگے کون دلاں دیاں جانے ھُو حوالدار ایک شخص کو بری طرح پیٹنے لگا ۔پھینٹی کھانے والے شخص نے ہانپتے کانپتے اورروتے ہوئے پوچھا :صاحب بہادر ،میرا قصور کیاہے؟حوالدر نے اپنی تفتیشی آنکھ کا ابرو اٹھاتے ہوئے کہا:مجھے شک ہے کہ تم مجھے دل میں گالیاں دیتے ہو۔مظلوم شخص نے قسمیں اٹھاکر یقین دلاتے ہوئے کہاکہ صاحب بہادر میرے بچے مرجائیں اگر میںنے اپنے دل میں آپ کے لئے کسی برے خیال کو جگہ دی ہو۔حوالدار نے حاتم طائی کے انداز سے رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شخص کو آزاد کرتے ہوئے انتباہ کیاکہ جائو تمیں چھوڑتاہوں ،اگر پھر ایسا کیاتو تمہیں تعزیرات پاکستان کی ’’دفعہ دور ‘‘ کے تحت جیل بھیج دوں گا۔یہاں بھی ویسا ہی معاملہ دکھائی دیتا ہے ۔یہ تاریخ ساز لوگ آصف زرداری کے اچھے کاموں اور کارناموں کو اتفاق، حادثہ یا کسی مجبوری کا نام دے رہے ہیں جو یقینا درست نہیںہے۔تاریخ ساز ساخت کے ایک تفتیشی نے لکھا ہے کہ آئی بی کے 2200اہلکار قومی خزانے پر بوجھ ہیں اوروہ وزیر اعظم کے لئے درد ِسر بن گئے ہیں۔ان 2200افراد کا قصور یہ ہے کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں آئی بی میں بھرتی کیاگیاتھا۔فرض شناس تفتیشی نے قومی وسائل کا رکھوالا بن کر سوئی ناردرن کے ساڑھے سات ہزار ملازمین کو بھی ان کی ملازمتوں سے فارغ کرنے کا تباہ کن آئیڈیا فراہم کیاہے۔مذکورہ فرض شناس کے گولڈن آئیڈیا کے مثبت نتائج کا انداز ہ یوں لگایاجاسکتا ہے کہ موصوف میاں نوازشریف کی اس حکومت کو ہزاروں انسانوں کے معاشی قتل کا مشورہ دے رہے ہیں جو صرف 3ماہ میں ہی اس ’’مقام فیض‘‘ پر پہنچ چکی ہے جس سنگ میل پر پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال کی مسافت طے کرنے کے بعد براجمان ہوئی تھی ۔سینٹ اور اسمبلی میں کون شخص ہوگا جو ہزاروں انسانوں کے معاشی قتل کے لئے بنائے جانے والے ’’کالے قانون‘‘ کے لئے اپنا ووٹ کاسٹ کرے گا؟یقینا میاں نوازشریف یہ غلطی نہیںکریں گے۔ سابق صدر زرداری کے خلاف ’’چارج شیٹ ‘‘ بھی لمبی ہے اوران کے حمایتی ان کے دور کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی طویل فہرست بھی منظر عام پر لائے ہیں۔سندھ حکومت کی طرف سے اخبارات میں شائع کرائے گئے اشتہار میں کہاگیاہے کہ سابق صدر آصف زرداری جمہوری روایات کے امین ہیں انہیں تاریخ میں یاد رکھاجائے گا۔اپنے پانچ سالہ دور میں ان کی سب سے بڑی کامیابی 1973کے آئین کی بحالی ہے ۔آمریت کے دور کی یادگار 58۔ٹو بی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اورمیڈیا کی آزادی کے علاوہ آزاد الیکشن کاقیام اور غیر جانبدار حکومت شامل ہے۔آصف زرداری کے دور میں ملک وقوم کے مفادات کے لئے ان گنت کام ہوئے جن میں پاک ایران گیس معاہدہ کے علاوہ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ فارن ایکسچینج ریزورز کو 16بلین تک لے جایاگیا ٗسود کی شرح کو 17فیصد سے کم کرکے 9فیصد تک لے جایاگیا ٗ گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کیااورایکسپورٹ بھی کی ٗاین ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو وسائل مہیا کئے گئے ٗپانچ سال میں پانچ مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیاگیا ٗبے نظیر انکم سپورٹ سے 75 لاکھ گھرانوں کی مالی اعانت کی گئی ٗ چاول کپاس کی امدادی قیمتوں سے پیداوار بڑھائی گئی ۔پیپلز پارٹی کی حکومت پر بجلی کا بحران آسمانی بجلی بن کر گرا لیکن یہ نااہل حکومت اور اس کے کارندے عوام کو یہ بھی بتانے سے قاصر رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں منگلا، تربیلا، دیامر، بھاشاڈیم، نیلم ،جہلم ،گومل ست پراڈیمزکے علاوہ تھرکول اورچھمبر کے مقام پر ہوا سے بجلی پیدا کرنے علاوہ بھی چھوٹے بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹ شروع کئے گئے۔آصف زرداری اورپیپلز پارٹی کی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات اوراخباری اشتہارات میں بیان کئے گئے ان کے کارناموںکی تفصیل اپنی جگہ مگر سچ ہے کہ عام انسان کو اس دور میں مصیبتوں ،دکھوں اورمسائل کے دریائوں کاسامنارہا۔اورستم یہ ہے کہ عوام نے تبدیلی کے لئے جن مشکل کشائوں کو ووٹ دیے انہوں نے صرف تین ماہ میں نئے دکھوں ،زیرو میٹر مصیبتوں اورڈبہ بند مسائل کے دریایوں بہادئیے : ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پاراُترا تو میں نے دیکھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں