"TSC" (space) message & send to 7575

دیہاتی مائی سے تاریخی مائی تک (آخری قسط)

نیویار ک میں میاں نوازشریف صاحب کی طرف سے مبینہ طور پر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو ’’دیہاتی مائی ‘‘ قراردئیے جانے والے لطیفے کی گونج پورے بھارت میں سنائی دے رہی ہے۔ میاں صاحب کا مبینہ لطیفہ اتنا ہی سپرہٹ ہوا ہے جیسے ان دنوںرنبیرکپور کی فلمیں باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔بھارت میں مذکورہ لطیفے کی گونج کو وہاں کے انتہا پسند لیڈر نریندر مودی بھی دوآتشہ کررہے ہیں۔مودی کا گیٹ اپ بھارتی فلموں میں دکھائے جانے والے کھل نائیک(ولن) جیسا ہے۔بھارتی فلم ’’کرما‘‘ میں دلیپ کمار صاحب کے سامنے بھارتی فلم میکر انوپم کھیر، انیل کپور اورنصیر الدین شاہ جیسے آرٹسٹ لائے گئے تھے ۔مذکورہ فلم میں دلیپ صاحب نے اس زمانے میں ایکٹنگ کے حوالے سے بالی وڈ میں ’’مسٹر انڈیا ‘‘ مانے جانے والے سپر سٹارز کو اپنی طاقتور پرفارمنس سے چت کیاتھا۔اس فلم میں انوپم کھیر اورنصیرالدین شاہ دو ایسے آرٹسٹ تھے جن کے متعلق بھارتی میڈیا نے انگریزی کی سرخی جمائی تھی جس کا مطلب تھاکہ ’’ایکٹنگ سمراٹ کو اداکاری کی مہابھارت کا سامنا ہے‘‘۔ دلیپ صاحب نے ’’کرما‘‘ میں نصیرالدین شاہ اور انوپم کھیر جیسے ذہین فنکاروں کو کس قدر مشکل میں ڈالا‘ یہ نظارہ سیلو لائیڈ پر محفوظ ہے۔ ایکٹنگ کا یہ سوئمبر دیکھا جاسکتا ہے۔مذکورہ فلم میں دلیپ صاحب فلم کے ولن انوپم کھیر(ڈاکٹر ڈین) کے منہ پر تھپڑ رسید کرتے ہیںجس پر وہ یہ ڈائیلاگ بولتا ہے’’دادا ٹھاکر‘ اس تھپڑ کی گونج تمہیں سنائی دے گی ‘‘ ۔اس سے اگلے سین میں تھپڑ کی گونج سنانے کے لئے دہشت گردی اورتباہی برپا کی جاتی ہے ۔ بات نریندر مودی جیسے سیاسی کھل نائیکوں سے بالی وڈ کے کھل نائیکوں تک جانکلی۔ پاکستان کو اس وقت ناگہانی، آسمانی اور ’’حکمرانی آفات‘‘ کا سامنا ہے۔ وطن عزیز میں آنے والی مہنگائی کے تازہ زلزلے کے بعد حکمران بھی عوام کو کھل نائیک دکھائی دے رہے ہیں۔وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے دکھیارے عوام کو بجلی کاشدید جھٹکا دیاہے۔بجلی کی نئی جان لیوا قیمت کا نفاذ آج سے ہوگا۔جس کے مطابق بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 5روپے 89پیسے تک بڑھائی گئی ہے اوراس نئے ٹیرف کے مطابق غریب، مسکین اوربے سہارا صارف کو بجلی کا صرف ایک یونٹ 14روپے کا پڑے گا ۔ہماری زندگیوں سے طویل عرصہ سے 5اور10کے سکے ناپید ہوچکے ہیں‘ لہٰذا بجلی کے حالیہ اضافے کو مبلغ 6روپے لکھا اور پڑھا جائے۔مہنگائی کے اس شدید زلزلے سے اس ملک کے دکھیارے عوام کے دکھ درد اورمحرومیاں جس قدر بڑھ گئی ہیں انہیں ریکٹر سکیل پر ماپنا مشکل ہے ۔کون مائی کا لال ہے جو اتنی مہنگی بجلی استعمال کرے گا؟ اگر ہے تو یقینا اسے ’’تمغۂ جرأت‘‘ عطا کیاجاناچاہیے۔ شیخ رشید صاحب نے میاں نوازشریف کے دورۂ امریکہ اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کو محض’’فوٹو سیشن ‘‘ قرار دیا ہے۔ شیخ صاحب نے فوٹوسیشن کی ٹرم فیشن انڈسٹری سے مستعار لی ہے۔ پوری دنیا کی فیشن ٹریڈ میں مشہور و معروف مرد اور خواتین ماڈلز کے فوٹو شوٹ ہوتے ہیں۔ہماری فیشن انڈسٹری تو ہماری طرح غریب اور ہماتڑ برانڈ ہے‘ لیکن بین الاقوامی فیشن انڈسٹری میں کھربوں ڈالر کا بزنس ہوتاہے ۔ جس طرح امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کاسومنات سمجھاجاتا ہے ، فیشن کی دنیا میں بھی اسے کیپیٹل جیسی اہمیت حاصل ہے لیکن آج کے فیشن ورلڈ کے لئے ’’Big Four‘‘ کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے جس میں لندن،پیرس،میلان اورنیویارک شامل ہیں ۔امریکہ میں ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کوسیاست کے فیشن کا کمبھ میلہ قراردیاجاسکتاہے۔ہندوستان میں ہونے والے کمبھ میلہ 2013ء میں ایک کروڑ سے زائد ہندوئوں نے پوِتر پانی میں اشنان کرکے اپنے گناہ دھو کرایک مرتبہ پھر سے اپنے آپ کو ’’زیرومیٹر‘‘ سمجھ لیا ہے۔ تیسری دنیا کے حکمران بھی اقوام متحدہ واقع نیویارک میں سجائے جانے والے کمبھ میلہ میں اشنان کرکے اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر حکمرانی کے لئے فٹ فاٹ کرلیتے ہیں۔نذیر ناجی صاحب نے پاک بھارت وزرائے اعظم کی نیویارک میں ’’ملنی ‘‘(ملاقات)کو غالب کے اس مصرعے سے موسوم کیا ہے ’’حالات کا ماتم تھا‘ ملاقات کہاں تھی؟‘‘۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف نیویارک میں اوبامہ اورمن موہن سے ملنیاں( ملاقاتیں ) کرکے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ان کے ہمراہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اورخواجہ محمد آصف وزیر پانی وبجلی بھی ہوں گے۔جناب اسحاق ڈار تو وزیر خزانہ ہیں اورہمارے قومی خزانے کا امریکہ کے ’’دستِ شفقت‘‘ سے گہرا تعلق ہے‘ اس لیے ڈار صاحب امریکی دورے پر میاں صاحب کے ہمراہ تھے۔خواجہ آصف صاحب کا امریکہ جانے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا‘ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اوبامہ یا من موہن سے لائن لاسز کم کرنے کی ترکیب پوچھنے گئے تھے یا بجلی کے ٹیرف میں سبسڈی ختم کرنے کے حکم نامے پر من موہن کے سائن کروانے؟ شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ خواجہ صاحب‘ میاں صاحب کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کرہونٹے (جھولے ) لے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر کے خواہ مخواہ کے دوروں سے بجلی کے بحران سے ان کی دلچسپی ظاہر ہورہی ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے کہاہے کہ نوازشریف کی قیادت میں ملک کو فلاحی ریاست بنائیںگے۔باتوں اورنعروں کی حدتک یہ عمدہ خیال ہے لیکن عملی طور پر فی الحال ’’امن کی دلی ہنوز دور است‘‘ والا سین ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے زورتو دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اختلافات بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے لیکن ساتھ ہی عندیہ دیاگیاہے کہ فی الفور دفاعی بجٹ میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ماضی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اٹل بہاری واجپائی کا لاہورآکر دوقومی نظریہ کی یادگار پر ماتھا ٹیکنے کا عمل معمولی واقعہ نہیںتھا۔مگر ہمارے ’’شوقیہ جنگجوئوں‘‘ (غیر عسکری حلقوں)نے لاہور میں سرعام احتجاج کیاجبکہ عسکری قیادت‘ جس کے سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے‘ نے کارگل برپا کردیا۔ میاں نوازشریف اپنی آپ بیتی میںانکشاف کرتے ہیںکہ کارگل پر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے فوج کشی کرانے کے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ کی اطلاع انہیں بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے دی تھی۔ ہمارے کمانڈو کی ’’کارگلی سمارٹ نس‘‘ کی اطلاع جب پاکستانی وزیر اعظم کو اس کے بھارتی ہم منصب نے دی ہوگی‘ اس لمحہ ٔ ہزیمت سے متعلق گمان کیجئے!! آخر میں تاریخی مائی والاقصہ سن لیں جو مجھے میاں صاحب کے اس لطیفے سے یادآیا ہے جو انہیں بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے امریکی صدر کو ہماری شکایتیں لگانے پر یاد آیا ہے۔ تاریخی مائی نے جب درجن سے زائد مرتبہ بس رکوا ئی تو ڈرائیور، کنڈکٹر اورمسافر بے حد پریشان ہوگئے۔ابھی مسافر بیچارے پریشان ہی تھے کہ مائی نے یکے بعد دیگرے پھر نصف درجن بار بس رکوادی ۔جونہی بس رکتی‘ بڑھیا تھوڑی دیر کے لئے جھاڑیوں کے پیچھے چلی جاتی اورپھر اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ جاتی ۔خدا،خدا کرکے گجرانوالہ سے چلنے والی بس کامونکی پہنچی تھی کہ مائی نے ڈرائیور سے پوچھا ’’کاکا (لڑکے) لاہور کتنی دور رہ گیاہے؟‘‘ ڈرائیور نے بیزاری سے جواب دیا۔ ’’مائی جی بس آپ والی سپیڈ سے چلتی رہی تو پندرہ بیس ’’سٹاپوں‘‘ کے بعد لاہور پہنچ ہی جائیں گے‘‘۔ پاک بھارت دوستی بس کے راستے میں جب تک ایسے ’’سٹاپ‘‘ ختم نہیںکئے جائیں گے عوام پر مہنگائی کے ایٹم بم گرتے رہیں گے، لوڈشیڈنگ ختم نہیںہوگی، بجلی کے بل بھی آسمانی بجلی بن کر گرتے رہیں گے۔ عوام نے انتخابات میں پاک بھارت دوستی کے حوالے سے اپنا مینڈیٹ دیا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کو عوامی فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں