"TSC" (space) message & send to 7575

دُور کے بکرے سہانے

محترم بکرا صاحب کو ’’لائیو‘‘براہ راست دیکھے ایک عرصہ ہوگیا۔وجہ یہ نہیںکہ ’فاضل ‘بکرا صاحب کسی بیرونی دورے پر گئے ہوئے ہیں،وہ یہیں اندرون ملک ہیں،لیکن عام لوگوں اورجنتا کی دسترس سے دُور ہیں۔یوں تو بکرا صاحب کی کوئی خاص قیمت نہیںلیکن بے تحاشا مہنگائی اوربیوپاری حضرات کے ضرورت سے زیادہ کمرشل ہوجانے کے بعد وہ انمول ہوچکے ہیں۔پچھلی عید پر اس وی آئی پی سلیبرٹی کا گروپ فوٹو یا پوٹریٹ اخبارات میں دیکھ لیا کرتے تھے۔ گروپ فوٹو میں یہ اپنی کلاس کے ساتھ لنچ (شٹالا) نوش فرماتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔پوٹریٹ میں وہ حسب روایت’’ سمائلنگ فیس پوز‘‘ میں ہی دکھائی دیاکرتے تھے، لیکن جب سے محترم اسحاق ڈار نے قومی خزانے کی چابیاں سنبھالی ہیں، بکرا اتنا ہائی پرائس ہوگیاہے کہ معاشرے سے اس کی تصویریں اورورچوئل امیج بھی غائب ہوگیاہے۔اب تو دوست احباب اور عزیز واقارب میں بھی کوئی ایسا نہیںجو یہ اطلاع دے کہ اس نے بکرا خریدنے کا معرکہ مار لیاہے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے جب بکرا صاحب ہماری آبادیوں میں پائے جاتے تھے ۔جوں جوں وطن عزیز کی آبادی میںا ضافہ ہوا بکرے اور ان کی دوسری نسلیں ناپید ہوتی گئیں۔جیسا کہ میں نے عرض کیا، بکرا جنتا کی دسترس سے دور ہوچکا ہے ،لیکن صاحب ثروت اورحکمران اب بھی اس کی رفاقت یعنی گوشت ،جس میں پٹھ، سینہ ، دستی ،ران ،کلیجی اور اوجڑی ہوتی ہے ،سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ عام لوگوں کے لئے بکرا اس مثل کا روپ دھار چکا ہے کہ ’’دُور کے بکرے سہانے‘‘۔ بکروں کی معروف اقسام میںدیسی بکرا اہم ہے جسے ہم Beetal goat بھی کہتے ہیں۔ یہ قسم بھارت اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بکروں کی سب سے مقبول نسل ہے۔ ٹیڈی بکرے کے گوشت سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ فالج کے مریضوں کے لئے بڑا مفید ہوتاہے۔بکریوںکی اقسام میں کاموری سرفہرست ہے۔سندھ میں پائی جانے والی یہ قسم پاکستان میں بکریوں کی سب سے مقبول نسل ہے ۔اس کے کان اور سینگ دونوں لمبے ہوتے ہیں اور قد کاٹھ بالکل ویسا جیسا پنجاب میں پائے جانے والے دیسی بکروں کا ۔ سندھی بکریاں اورپنجابی بکرے شکل وصورت سے آپس میں ’’ڈسٹنٹ کزنز‘‘ لگتے ہیںلیکن سیاست میں ایسا نہیںہے۔قومی سیاست میں پنجاب اورسندھ کے مابین ایک خلیج اورکشمکش پیدا کردی گئی ہے۔ پنجاب سے ’’جا گ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ (جاگو پنجابیوجاگو، تمہاری دستار کو داغ لگ گیا ہے) کا نعرہ لگایا گیاتھا۔اس نعرے نے قومی سطح پر ہماری یک جہتی کو بٹا لگادیا تھا۔ کبھی سندھی ،پنجاب اورپنجابیوں کے دلوں میں بستے تھے ۔اس کی وجہ بھٹوجیسے قومی لیڈر کاقومی Persona( چہرہ مہرہ) تھا۔بھٹو پنجابیوں کے دلوں میں بسنے کے ساتھ ساتھ صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ بھی لیتے تھے۔ 1970ء اوربعد ازاں1977ء کے انتخابات کے بعد یہ فیصلہ کیاگیاکہ پنجاب پنجابیوں کا ہوگا اور پھر یہاں ’’تخت ِلاہور‘‘ کے لئے بساط بچھادی گئی۔بکروں اوربکریوں کی اقسام سے بات سیاست کی طرف نکل گئی۔میں آپ کو سندھی بکری کاموری سے متعلق بتا رہاتھا۔کاموری بکری کی خاصیت یہ ہے کہ اس قسم کی مادہ کے دودھ کی مقدار پاکستان میں پائی جانے والی دیگر اقسام کی بکریوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔کاموری کا دودھ مختلف کمپنیاںخشک کرکے دیدہ زیب پیکنگ کے ساتھ مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔پہلے تو کاموری کا دودھ کمپنیاں ہی مہنگا فروخت کرتی ہیں،اوپر سے اگر میاں نوازشریف کی حکومت میں اسحاق ڈار وزیر خزانہ آجائیںتو کاموری کا دودھ ’’جوئے شیر ‘‘ لانے کے مترادف ہوجاتاہے۔ کاموری بکریوں کی افزائش نسل کے لئے فارم ہائوسز دادو، لاڑکانہ اورنواب شاہ میں بنائے گئے ہیں۔بکروں میں پہاڑی بکرے کی اہمیت ایسے ہی ہوتی ہے جیسی حکومت سازی کے عمل میں فاٹا ممبران کی ۔’’آبادی ‘‘ کے لحاط سے پہاڑی بکرے اچھی خاصی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پہاڑی سلسلوں کا لمبا چوڑا سلسلہ ہے جہاں یہ فارم ہائوسز اورجنگلات میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں پہاڑی سلسلوں میں ایک عرصہ سے کئی ایک سلسلے چل رہے ہیں۔ان میں ایک سلسلہ ’’دہشت گردی ‘‘کا بھی ہے۔دہشت گردی کا سلسلہ باقی سلسلوں سے خاصا ’’منافع بخش‘‘ ہے۔اس میں اندرون اوربیرون ملک سے ’’انوسٹ منٹ‘‘ کی جاتی ہے۔دہشت گردی کا یہ ’’کارپوریٹ‘‘ سرمایہ دارانہ نظام کی نگہداشت کے لئے قائم کیاگیا۔ہمارے ہاںاسے ’’جہاد‘‘ کا نام دیاگیاہے ۔ پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے بکرے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں چربی بہت کم ہوتی ہے اور پہاڑوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں کی وجہ سے اس کا گوشت بہت لذیز ہوتاہے ۔پاکستانی اورافغانی پہاڑوں میں چھپے ہوئے ’’مجاہدین‘‘ کے نزدیک پہاڑی بکرے کا گوشت ہرن کی طرح مزیدار ہوتاہے۔دہشت گردوں کے نزدیک پہاڑی بکروں کاگوشت انسان سے کہیں زیادہ ’’بیش قیمت‘‘ ہوتاہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ دہشت گرد پہاڑی بکرے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیںجبکہ انسانوں کے تووہ چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔ بکروں کی معروف اقسام میں کاغانی بکرابھی شامل ہے۔اسکی وضع قطع عام پہاڑی بکروں جیسی ہی ہوتی ہے تاہم اس کے جسم پر بال زیادہ ہوتے ہیں۔ کشمیری بکرے کے رنگ ڈھنگ اپنے ہی ہوتے ہیں۔بکروں کی یہ قسم کشمیر اور لداخ کے علاوہ آسٹریلیا اور چین سمیت دیگر ممالک میں بھی پائی جاتی ہے ۔کشمیری بکرا دیکھنے میں پستہ قد ہوتا ہے ۔یہ پہاڑکی بلندیوں اور موسم سرما کی سختیاں جھیل کر سخت جان ہوجاتا ہے ۔ہمارے ہاں حکما بعض بیماریوں کی علاج کے لیے کشمیری بکرے کا گوشت بطور نسخہ تجویز کرتے ہیں۔بکروں میں اس کے بعد کجلے دنبے کا نمبر آتا ہے۔ کجلے دنبے کا سارا جسم سفید اور منہ اور سر کالے ہوتے ہیں ۔یہ سرگودھا ،میانوالی ،منڈی بہاؤالدین والی پٹی میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں بکر منڈیوں میں سب سے زیادہ کجلے دنبے ہی فروخت کے لئے لائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنبہ اورچکی والا دنبہ بھی قربانی کے لئے پسند کئے جاتے ہیں۔ چکی والا دنبے کی نسل ترکی میں بھی ہوتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوااور بلوچستان سے بکرے اور دنبے غیر قانونی طور پر بلوچستان اور افغانستان سمگل کیے جاتے ہیں ۔یہ عمل کئی برسوں سے جاری ہے ۔عام خیال یہ ہے کہ بکروں،چھتروں اوردنبوں کی سمگلنگ کا یہ دھندہ امریکہ اورروس کی جنگ میں شروع ہوا جب ہم نے اپنی سرحدیں بھانت بھانت کے ’’سٹریٹیجک اثاثوں‘‘ اوربکروں کے لئے کھول دی تھیں۔ عید الاضحی کے موقع پر پنجاب میں لگائی جانے والی منڈیوں میں زیادہ تر بیوپاریوں کا تعلق سندھ اور جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ چیچہ وطنی ،ساہیوال ،گجرات ، سرگودھا، میانوالی ، عیسیٰ خیل،ملتان ، ڈیرہ اور جھنگ کے بیوپاری بھی بڑی تعداد میں یہ کاروبار کرتے ہیں۔ہمارے ہاں مہنگائی تسلسل سے جاری ہے،لیکن اب تو یوں لگتاہے جیسے ہمارے ملک پر مہنگائی راج کررہی ہے۔’’کلیرنس سیل‘‘ والے کبھی نعرہ لگایاکرتے تھے کہ ’’گیارہ مہینے ساڈے تے اک مہینہ تہاڈا‘‘ یعنی گیارہ مہینے ہمارے اور ایک مہینہ آپ کا۔لیکن اب تو بارہ کے بارہ مہینے حکمرانوں کے ہیں اورعوام کا کچھ بھی نہیںہے۔لگتا ہے اس بار عوام کو ہی بکرا سمجھ کر ان کی قربانی کا فیصلہ کرلیاگیاہے۔ عید کے موقعہ پر مجھے اپنے بچپن کا وہ پیڈو بھی یاد آرہا ہے جس کا مالک ایک حلوائی پہلوان تھا اوروہ اس کی پرورش ایسے کرتاتھا جیسے وہ کسی پہلوان پٹھے کو کھلاپلاکر کسی بڑے دنگل کے لئے تیار کررہاہو۔اسحاق المعروف ساقا پہلوان پیڈو کو اپنا ’’لخت جگر‘‘ کہا کرتاتھا۔یہ پیڈومناسب قد کاٹھ کا تھا مگر اس کا سر اور سینگ دھڑ کی نسبت بڑے تھے۔پہلوان پیڈو کے سینگوںکی دیسی گھی اورملائی سے مالش کیاکرتاتھا۔عرصہ ہوا اسحاق پہلوان اللہ کوپیارا ہوگیاہے ۔یقینا اس کا ’’لخت جگر‘‘ بھی قضائے الٰہی سے اللہ کو پیارا ہوچکا ہوگا۔ورنہ انہیں بھی یہ دن دیکھنا اورجھیلنا پڑتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں