"TSC" (space) message & send to 7575

فنون لطیفہ اورٹیکنالوجی کی رشتہ داری

زیر نظر کالم محترم عطاء الحق قاسمی کے ''بزرگانہ آفس آرڈر‘‘کے تحت لاہور میں کرائی گئی ''چوتھی عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس‘‘کے لیے لکھا تھا مگر بوجوہ پڑھ نہ سکا ۔اتوار کے دن بستر سے جلدی اٹھنا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے رات کو ''آفس ‘‘لگانے والے صبح سویرے کچہری پہنچ جائیں ۔رات کاجاگا ہوا جب صبح صادق سوئے گا تو وہ سویانہیں جاگا ہی کہلائے گا۔ رات بھر کام کی غرض سے رت جگا کرنے کے بعد جب بستر پر لیٹیں تو لاہور کا ٹمپریچر بھی گیاری سیکٹر جیسا لگتا ہے۔جسم کے دکھتے ہوئے اعضا بستر سے اٹھنے کی نیت کو بار باریوں لوری سناتے ہیںکہ۔۔۔۔۔ابھی نہ جائوچھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ حسب وعدہ وقت مقررہ پر الحمرا پہنچا تووہاں مزاح نگاروں کا قبضہ تھا۔ دل تو چاہا کہ میں بھی ان مزاحیہ قزاقوں کے ہاتھوں لُٹ جائوں مگر دفتری مجبوریوں کی بنا پر ''موقعۂ ظرافت‘‘ سے رفو چکر ہونا پڑا ۔قاسمی صاحب کی طرف سے دی گئی اسائنمنٹ کا عنوان ہے''ٹیکنالوجی اورفنو ن لطیفہ کا باہمی رشتہ‘‘۔حرفِ آغاز کے طور پر عرض ہے کہ فنون ِلطیفہ کی تعریف علامہ اقبال ؒ نے یہ فرمائی تھی :
رنگ ہویا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت 
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
فلم کو فنون لطیفہ کی ماں کہاجاتاہے ۔دراصل فنون لطیفہ اورٹیکنالوجی کے امتزاج کانام فلم ہے لیکن علامہ اقبال ؒ نے اس صنعت (سینما) کے لیے لکھا تھا:
وہی بت فروشی، وہی بت گری ہے
سینما ہے یا صنعتِ آزری ہے
پاکستان کی سیاسی اساس میں فنون لطیفہ کے مقام کا تعین کرنے کے لیے حضرت علامہ ؒ کے قول زرّیں کا حوالہ اہم ہے۔یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس سے وطنِ عزیز میں فنونِ لطیفہ کے مقام کاتعین کیاجاتاہے اورریاست اپنے الگ نظریاتی اورثقافتی تشخص کانعرہ بلند کرتی ہے۔ ہمارا مسئلہ دنیا سے الگ رہا ہے ۔ہمارے ہاں فنکارانہ تخلیق کو خون جگر کی نمود کے ساتھ صنعتِ آزر بھی کہاگیاہے (آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا تھے جو بت بنایاکرتے تھے) معاشرے میں اس کی ترتیب شمشیر وسناں اوّل،طائوس ورباب آخربیان کی گئی جس کا عملی اظہار ہم اپنے ہاں دیکھ رہے ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فنونِ لطیفہ اورٹیکنالوجی کے مابین جو رشتہ استوار ہوا وہ درج بالااصولوں کے تحت قائم ہوا،اس پر مزید بات آگے چل کے کریں گے۔پہلے انسانی زندگی میں فنون لطیفہ اورسائنس کے ملاپ پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ 
قدیم زمانے میں فنکاراورتخلیق کارکوابنارمل(مجنون شخص) خیال کیاجاتا تھا۔انسان کے تخلیقی سفر کا مطالعہ کیاجائے تو تخلیقِ فن کسی مرحلے پر بھی عقل وشعور کو بالائے طاق نہیںرکھتا۔ فنکار کے ذہن وقلب پر مجنونانہ وارداتیں تو ہوتی ہیںمگر وہ فشارِجذبات کے آگے کبھی اپنے جمالیاتی توازن کو کھوتا نہیں ہے۔عقل وخرد فنکار کوتخیلّات میں کھو جانے سے محفوظ رکھتی ہے اوراسی کے طفیل فنی پیکراسالیب کے سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔دنیا کے بیشتر عظیم فنکار ہراعتبارسے صحیح الدماغ اورذہین لوگ تھے۔ اسکیلس، سوفوکلیز، سینیکا، ورجل، فردوسی، بودلیئر، شیکسپئر،رفائیل،باخ،متنبی، حافظ شیرازی، غالب اور دوسرے عظیم صاحبان فن کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ اختلاج نفس کے مریض تھے یا انہیں اظہار وبیان کے لیے مجنونانہ وارفتگی کی ضرورت تھی۔صدیوں کی مسافت کے بعد اٹھارویں صدی میں فنکار، فن اورفنون لطیفہ کوٹیکنالوجی میسر آئی تو ان کا ملاپ عالم گیر روپ اختیار کرگیا۔ یہ ٹیکنالوجی ہی کا فیض ہے کہ یوٹیوب کے صرف ایک کلک سے ہم دنیا کی قدیم تہذیب موہنجوداڑو کا نظارہ کرسکتے ہیں اوردوسری کلک سے باجے کے تیسری سپتک کے ساتھ سرملاکر گانے والی مصری گلوکارہ ام کلثوم کے گائے گیت سن سکتے ہیں۔ 
1780ء تک برطانوی سائنسدان تھامس ویج وڈ کیمرہ ایجاد کرچکے تھے جو فلم اور ٹی وی کی بنیادبنا۔ 1902ء میں فرانسیسی فلم میکر جارج میلیس نے ایک فلم بنائی جس کانام تھاA Trip to the Moon ۔فلم میں دکھایاگیا ہے کہ کچھ لوگ ایک راکٹ کے ذریعے چاند پر پہنچتے ہیں جہاں چاند کی مخلوق کے ساتھ ان کی لڑائی ہوجاتی ہے۔ زمین سے چاند پر پہنچنے والے یہ لوگ اس ایڈونچر سے جان بچا کر راکٹ کا رخ زمین کی طرف موڑتے ہیں اور راکٹ زمین پرسفرکا اختتام سمندر میں گرکرکرتاہے ۔ نصف صدی بعد 1959ء میں سوویت یونین کا راکٹ چاند پر پہنچتا ہے۔اس کے بعد 1969ء میں امریکی راکٹ (اپالو) چاند پر پہنچتا ہے۔اس حسن اتفاق کو کیانام دیاجائے کہ چاند پر جانے والے اپالو کاڈیزائن ہوبہو جارج میلیس کے فلمی راکٹ جیساتھاجواس نے اٹھارویں صدی کے آخری دنوں میںبنایاتھا۔اپالو کی واپسی بھی اٹلانٹک میں ہوئی۔لوگ یہ نظارہ ستر سال پہلے جارج میلیس کی فلم میں دیکھ چکے تھے۔مجھے اجازت دیجیے کہ جارج میلیس اوران کے فلمی مریدین کو علامہ کے شعرسے ہی شاباشی دی جائے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے 
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
میراموضوع یہ نہیں کہ انسانی زندگی اورمعاشرے کے لیے ایک سائنسدان سودمند ہوتاہے یا فنکار بلکہ معاملہ اس رشتے ،ناتے اورربط کو سراہنے کا ہے جسے مضبوط بناتے ہوئے زندگی اور اس سے وابستہ جمالیات نے آج تک کی مسافت طے کی ہے اوریہ حسین سفر آگے کی جانب جاری ہے۔دنیا میں ریڈیواور فلم کے بعدکامیڈیم ٹیلی وژن تھا۔برطانیہ کے سرکاری ادارے برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی) کے ٹیلی وژن نے اپنی نشریات کا آغاز 1929ء میں کردیاتھا۔ایک سال قبل جولائی 1928ء میں امریکہ نے بھی ٹیلی وژن کا تجربہ کرلیاتھا۔ 1932ء میں سوویت یونین،1935 ء میکسیکو،1952ء میں کینیڈا اوربعدازاں دیگر ممالک میں ٹیلی وژن متعارف ہوا۔پاکستان اوربھارت میں ٹیلی وژن بالترتیب 64ئاور65ئمیں متعارف ہوا،لیکن یہ اعزاز صرف ہمیںحاصل ہے کہ محترم طارق عزیز 
صاحب پچیس سال ایک ہی پروگرام کرتے ہوئے جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوچکے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کا فلک شگاف نعرہ آج بھی طارق عزیز شو میں ہی بلند ہوتا ہے وگرنہ فلمی دنیا میں تو ''زندہ بھاگ ‘‘ کے نعرے سنائی دینے لگے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت فلم ،ٹی وی ،ریڈیو اورتھیٹر سبھی اپنے اپنے مقام پر ترقی کرتے دکھائی دے رہے ہیںمگر ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ریڈیو کی صوتی وسعتیں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ٹی وی اورابلاغ کے دیگر ذرائع میں منقسم ہوگئیں۔ ہمارے ہاں ریڈیو جو کبھی بھرپور میڈیا کی حیثیت رکھتا تھا وہاں اب ہر وقت پاپ اور ڈسپوزایبل میوزک کے ڈنکے بجتے رہتے ہیں۔یہ میوزک صرف گاڑی چلاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بہر حال ٹریفک کے شور سے قدرے سُریلا ہوتاہے۔
پی ٹی وی ہمارے ہاں بعد میں دکھائے جانے والے تمام ٹی وی چینلز کا جدامجد ہے۔ نیشنل نیٹ ورک کویہ اعزازحاصل رہا ہے کہ اس پر دکھائے جانے والے ڈراموں کی مقبولیت کے باعث بازار سنسان ہوجایا کرتے تھے۔خبرنامہ گویا ملک میں اعلان خواب ِخرگوش ہوا کرتاتھا۔ایمرجنسیوں اورمارشل لائوں کے نفاذکے وقت پی ٹی وی سے ''کرنیل نی جرنیل نی‘‘ کی صدائیں بلند ہوتیں جبکہ خبر جاننے کے لیے بی بی سی سے رجوع کرنا پڑتاتھا۔لیکن جب پرائیویٹ نیوزچینلز نے انڈسٹری کا روپ دھارا توقومی فلم انڈسٹری دم دے گئی۔فلم انڈسٹری کے ''آنجہانی‘‘ ہونے کی ذمہ داری نیوز چینلز پر نہیں ڈالی جاسکتی کہ اس کے چلن اورچال دونوں میں لنگڑاہٹ پہلے سے پائی جارہی تھی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں