"TSC" (space) message & send to 7575

سوری سر!

فیصل رضا عابدی اخبار سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا میں پاپولر ہیں۔سوشل میڈیا کے اہم ٹول یوٹیوب پر ان کے ویڈیو کلپس کو سب سے زیادہ ہٹس ملتی ہیں۔مختلف ٹاک شوز کے لیے ان کے تیزابی اور تیز پتی والے انٹرویوز کثرت سے دیکھے گئے ہیں۔ان کی وجہ شہرت بعض ٹی وی اینکرز کے ساتھ انتہائی جذباتی انداز میں کی گئی سیاسی 'جُگل بندی‘ ہے۔جُگل بندی موسیقی کی اصطلاح ہے جس میں عموماًدوماہرِ فن اساتذہ مقابلے پر ساز بجاتے ہیں۔طبلہ اورستار، سارنگی اورطبلہ کی جُگل بندی کلاسیکی موسیقی کے رسیا بہت پسند کرتے ہیں۔ فیصل رضا عابدی بھی 11دسمبر کے بعد ٹی وی ٹاک شوز میں اینکروں کے ساتھ جُگل بندی کرتے دکھائی دیں گے۔11دسمبر کی تاریخ اس لیے اہم ہے کہ اس روز ایک اہم''ریٹائرمنٹ ‘‘ہوگی۔
فیصل رضا عابدی کے ساتھ میں مقامی ہوٹل میںچائے کی ٹیبل پرہی ''ٹاک شو‘‘کررہاتھا کہ فیصل نے دو باتیں کیں جو توجہ طلب ہیں۔اول یہ کہ مارچ 2014ء کے بعد پاکستان ایک ایسا ملک بننے کا آغاز کرے گاجو بھکاری نہیں ہوگابلکہ دنیا کی محکوم قوموں کی امداد کیاکرے گا۔وہ اس خوشخبری کے سچ ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیںکہ دنیا بدل رہی ہے خصوصاً ہم جس خطے میں ہم آباد ہیں اس میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ جنیوا میں امریکہ ،روس ، جرمنی ، برطانیہ،فرانس اورایران ایک ساتھ بیٹھ کر دنیا کی سیاست بدلنے کا آغاز کرچکے ہیں۔مذکورہ ممالک کئی دہائیوں سے ایران کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ادھر ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دینے کے ساتھ ایٹم بم بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔ لگ بھگ 34برس کی طویل دشمنی کے بعد ایران اورامریکہ سمیت دنیا کے دوسرے ممالک نے سوچا کہ انہیں اپنے مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ڈھونڈنا چاہیے۔ایران کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مخاصمت کا آغاز11فروری 1979ء کے دن سے ہی ہوگیاتھاجس دن ایران میں رضا شاہ پہلوی کی شہنشاہیت کے 38سالہ طویل دور(1941ء تا1979ء)کاخاتمہ ہوااوراسلامی انقلاب کے روح و رواں آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ کی جلاوطنی ختم ہوئی تھی۔تقریباً34سال بعد ایران اورامریکہ نے سوچا کہ لڑائی سے ایک دوسرے کو فتح نہیں کیاجاسکتا لہٰذامل بیٹھ کر مذاکرات کیے جائیں۔ دونوں ملکوں کی سیاسی، خارجی، معاشی اورعسکری پالیسیوں کو ''غالبانہ انداز‘‘ میں یوں خراج تحسین پیش کیاجانا چاہیے:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ 
ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا
فیصل رضا عابدی کا کہنا ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔تیل کے مالک ملکوں کی جگہ گیس مالکان لینے والے ہیں۔ پاک ایران گیس معاہدے سے ہماری معیشت دوسرا جنم لے گی۔ہماری معاشی زندگی کے لیے ایران کے ساتھ گیس معاہدہ اورگوادرپورٹ بہت اہم ہیں۔تاریخ بتائے گی کہ آصف علی زرداری نے پاکستان کی مضبوطی اور معیشت کی بحالی کے لیے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیاہے۔فیصل کا کہنا تھاکہ یہ پاکستانی حکمرانوں کا امتحان ہے کہ وہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے سیدھے رستے کا انتخاب کرتے ہیں یانہیں؟ان کا کہنا تھاکہ آنے والے دنوں میں بعض برادر ممالک کا کردار خطے خصوصاًپاکستان میں بدل جائے گااس لیے کہ پاکستان کو تیل کی لابی کو خیرباد کہہ کرگیس کی لابی کا حصہ بنناپڑے گا۔میرا سوال تھا: کیا یہ ''شفٹ‘‘ پاکستان کے لیے آسان ہوگی؟فیصل رضا عابدی نے جھینپے بغیر یہ شعر پڑھا: 
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے 
ان کا کہنا تھا،عین ممکن ہے کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک خونی جنگ لڑناپڑے تاکہ قوم امن، سکھ چین اورخوشحالی کا منہ دیکھ سکے ۔جب ان سے سوال کیاگیاکہ اس تاریخی حقیقت کوذہن میں رکھتے ہوئے کہ پہلی اوردوسری عظیم جنگوں کے بعد بھی فریقین کے مابین مذاکرات ہی ہوئے تھے، آپ کے خیال میں ہمارے لیے کیا بہتر رہے گا؟ فیصل رضا نے کہا:آپ درست کہتے ہیں کہ جنگوں کے اختتام پر مذاکرات ہی ہوا کرتے ہیں، لیکن دنیا کی سرخیل اورذہین قومیں بھی جنگ سے پہلے مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں،حالات نے انہیں جنگیںکرنے پر مجبور کردیا تھا اورویسے بھی جس فریق کو یہ غلط فہمی ہوکہ وہ راہ حق پر ہے،جنگ کے بغیر مذاکرات نہیں کیاکرتا۔فیصل رضا عابدی اپنے مخصوص اورمتاثر کن 
انداز میں بول رہے تھے۔انہوں نے کہا، اگر سیاستدانوں اور موجودہ حکمرانوں نے آگے بڑھ کر ریاست کے باغیوں کا سرنہ کچلاتوپھربہت دیر ہوجائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ قوم کو فوج کا ساتھ دینا چاہیے۔جو ادارے فوج کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیںوہ پاکستان کو غیرمستحکم کررہے ہیں،یہ وقت قوم کے افواج پاکستان کا ساتھ دینے کاہے۔لیکن آئین میں تو ایسی کوئی گنجائش موجود نہیںکہ قوم براہ راست فوج کا ساتھ دے،عوام ووٹوںسے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیںاورپھر جمہوری حکومتیں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ہمارے ملک پر 35سال تک براہ راست فوج نے حکومت کی ہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان اورجنرل آغا محمد یحییٰ خان کے مجموعی طور پر ساڑھے تیرہ سالہ دورکے بعد بھٹو صاحب کے صرف ساڑھے چارسالہ دور حکومت پر تیسری مرتبہ فوجی شب خون مارا گیا۔اس بارجنرل محمد ضیاء الحق نے گیارہ سال تک ملک کی نظریاتی اورسیاسی فصیلوں میں لسانیت،فرقہ واریت ،منشیات اوردہشت گردی کے بیج بو ئے۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس عرصے میں افواج پاکستان کے ایک ہی ادارے سے پہلے''امیرالمومنین‘‘ اوربعدمیںلبرل اورروشن خیال سربراہ برآمد ہوا مگر دونوں ہی اپنے اپنے انداز میں ہماری تقدیرمیں بربادی لکھتے رہے۔
محترم فیصل رضا عابدی صاحب!بصداحترام،مجھے آپ کے 'فلسفۂ پا کستان بچائو‘ سے اختلاف ہے۔جنرل راحیل شریف ہمارے پندرھویں چیف آف آرمی سٹاف ہیں۔اگر آرمی چیف کی تقرری آئینی تقاضوں کے مطابق ہوتی توجنرل راحیل شریف ہماری فوج کے تیسویں چیف ہوتے۔گزشتہ 66برسوں میں فوجی جرنیلوں نے چار مرتبہ آئین کو پامال کرکے براہ راست حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی جس کا قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔جنرل میسروی (General Frank Messervy) اور جنرل ڈگلس (General Douglas Gracey) کے بعد ہمارے تیسرے آرمی چیف جنرل ایوب خان تھے جو 17جنوری 1951ء کے دن اپنے عہدے پر طلوع ہوئے،طویل عرصہ قوم کے لیے ''گراں قدر‘‘ خدمات سرانجام دے کر فیلڈ مارشل کے عہدے سے غروب ہوئے۔ایوب خان کے طویل دور کے بعد جنرل موسیٰ ، جنرل آغا محمد یحییٰ خان اورجنرل گل حسن خان براہ راست اور بالواسطہ اقتدار کی غلام گردشوں کے اسیر رہے۔حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے مطابق جنرل ٹکاخان اور یحییٰ خان سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داران میں شامل تھے۔جنرل ضیاء الحق کی حیثیت توہمارے سابق اورموجودہ تمام دکھوںکے ''بانیوں‘‘ کی سی ہے۔آئی جے آئی کی 'جعل سازی‘جنرل اسلم بیگ کا سیاسی کارنامہ تھا۔جنرل آصف نوازجنجوعہ اورجنرل جہانگیرکرامت کے علاوہ زیادہ تر سابق سپہ سالار'' سیاسی رفاہی کامو ں‘‘ میں مصروف رہے ۔جنرل کیانی کے دور میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی داستانیں رقم کی جارہی ہیںلیکن ان کے دور میں زرداری حکومت کے پانچ برسوںمیں ایک دن بھی سکون سے نہیں گزرا۔میموگیٹ سکینڈل اورآصف علی زرداری کے میڈیکل چیک اپ اس جمہوری دور کے ریکارڈ کے طور پر ہمیں یاد ہیں۔عوام کو فوج کے ساتھ ضرور کھڑے ہونا چاہیے لیکن اس کی قیادت جمہوری اداروںکوکرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں